"IYC" (space) message & send to 7575

چائے کا مہنگا ترین کپ!

ستمبر 2021ء کے آغاز میں ایک دن اخبارات میں چھپی ایک تصویر دیکھ کر میں گہری سوچ میں پڑ گیا۔ اس تصویر میں ایک شخص ٹو پیس میں ملبوس ہاتھ میں چائے کا کپ تھامے نظر آ رہا تھا اور اس کے گرد چار پانچ اور افراد بھی موجود تھے۔ یہ تصویر کابل کے ایک ہوٹل میں کھینچی گئی تھی اور اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (اب ریٹائرڈ) فیض حمید کی تھی۔ وہ افغان طالبان کے کابل پر قبضے کے دو ہفتے بعد ہی کابل جا پہنچے تھے۔ کیا انہیں واقعی نہیں معلوم تھا کہ اس ایک تصویر کے پاکستان کی سیاست‘ معیشت اور معاشرت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ تب مسلسل ایک ہی سوال ذہن میں گردش کر رہا تھا کہ ایک ایسے وقت پر جب عالمی برادری افغانستان سے امریکی افواج کے ہنگامی انخلا کے بعد کابل پر افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی‘ ہمیں یہ الزام اپنے سر لینے کی کیا ضرورت تھی کہ ہم افغان طالبان کی پشت پناہی کر رہے ہیں؟ کیا ہم عالمی برادری میں خود کو افغان طالبان کی طرح تنہا کرنا چاہتے ہیں؟ اس کے بعد میں عرصے تک یہی سوچتا رہا کہ فیض حمید کا وہ دورۂ کابل واقعی ناگزیر تھا یا اس سے پہلوتہی اختیار کی جا سکتی تھی؟ میرے خیال میں اس وقت وہ دورہ نہ ہوتا تو آج حالات مختلف ہو سکتے تھے کیونکہ افغان طالبان کو اپنانے کا خمیازہ ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔
امسال نومبر کے آخر میں ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے تسلیم کیا تھا کہ پاکستان کو افغان طالبان کو سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ خواجہ آصف کے بقول افغان طالبان نے گزشتہ تین برسوں میں پاکستان کے ساتھ جس طرح ڈیل کیا‘ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ مکمل طور پر قابلِ بھروسا نہیں۔ کیا سمجھنے میں اس غلطی کا آغاز کابل میں پیے گئے چائے کے اس کپ سے ہوا تھا؟ چائے کے اس ایک کپ کا ذکر تب سے لے کر اب تک مختلف مواقع پر تقریباً مسلسل ہی ہو رہا ہے۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے چائے کے اس کپ کا ذکر ستمبر 2024ء میں کیا تھا۔ انہوں نے سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں چائے کا کپ ہمیں بہت مہنگا پڑا‘ اس چائے کے کپ نے دوبارہ بارڈرز کو کھولا اور پاکستان سے بھاگے طالبان واپس آ گئے‘ اس وقت کی حکومت نے سو سے زائد خطرناک مجرموں کو رہا کیا‘ جو سب سے بڑی غلطی تھی‘ ہماری حکومت ہو یا کوئی اور‘ ایسی غلطیاں نہیں دہرانی چاہئیں بلکہ ان سے سبق سیکھنا چاہیے۔
پاکستان کی سرکردہ خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس جسے مختصراً آئی ایس آئی کہا جاتا ہے‘ کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی عدالت کی جانب سے 14سال قید بامشقت کی سزا ملنے کو پاکستان کی سیاسی اور عسکری تاریخ کے بڑے واقعات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے‘ جو بے جا نہیں ہے کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ ایک اہم ترین ریاستی ادارے کے سابق سربراہ کا اس طرح احتساب کیا گیا‘ ورنہ عام تاثر یہ رہا ہے کہ ریاستی اداروں کے افسران ان ٹچ ایبلز (Untouchables) ہیں۔ دو روز قبل سنائی جانے والی سزا نے یہ متھ توڑ دی ہے۔ فوج نے بطور ادارہ ثابت کر دیا ہے کہ یہاں جو کوئی‘ جو کچھ بوئے گا وہی کاٹے گا۔ بلا شبہ ایک نئی مثال قائم ہوئی ہے۔ اس فیصلے کے یقینا دور رس نتائج و اثرات مرتب ہوں گے۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو یہ سزا 12اگست 2024ء کو پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت شروع ہونے والے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی 15ماہ کی کارروائی کے بعد سنائی گئی۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ فوج کی جانب سے جاری بیان میں 2018ء کے عام انتخابات سے لے کر 9 مئی 2023ء تک اور اس کے بعد کے واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری اعلامیے کے آخری حصے میں کہا گیا ہے کہ 'سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر انتشار اور عدم استحکام پھیلانے سمیت دیگر معاملات میں مداخلت کے پہلو علیحدہ طور پر دیکھے جا رہے ہیں‘۔ کئی سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے اس سزا پر آنے والے ردِ عمل میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید کا نام بھی لیا جا رہا ہے جبکہ کچھ دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ سابق آرمی چیف کو ان معاملات سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ اب سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا فیض حمید سے شروع ہونے والا احتساب کا سلسلہ آنے والے دنوں میں بھی جاری رہے گا اور ایسا ہوا تو کون کون اس کی زد میں آئے گا؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہو سکتا ہے فیض حمید عمران خان کے خلاف گواہ بن جائیں۔ نجم سیٹھی نے تو کہا ہے کہ فیض حمید کے وعدہ معاف گواہ بننے کی صورت میں انہیں معافی مل جائے گی۔ ایسا ہوا تو پہلے سے مشکلات کی شکار پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی مزید مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ پھر ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ سزا پاکستان کی فوج اور سیاستدانوں کیلئے کیا معنی رکھتی ہے؟ آیا اس سے سبق حاصل کیا جائے گا اور آئندہ ویسا کچھ نہیں ہونے دیا جائے گا جس کی بنیاد پر یہ سزا سنائی گئی ہے یا بات آئی گئی ہو جائے گی؟
یوں تو لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید مختلف اہم عہدوں پر کام کرتے رہے لیکن ان کا نام پہلی بار نومبر 2017ء میں سامنے آیا جب انہوں نے تحریک لبیک پاکستان کے زیر قیادت فیض آباد دھرنے کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا اور اس مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالا۔ فیض حمید 2019ء سے 2021ء تک آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل رہے اور عالمی سطح پر ان کو توجہ اس وقت ملی جب وہ امریکی اور دیگر مغربی افواج کے انخلا کے بعد افغان طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد کابل کے ایک ہوٹل کی لابی میں چائے پیتے ہوئے دکھائے گئے۔ اس کا ذکر میں کالم کی ابتدائی سطور میں تفصیل سے کر چکا ہوں۔ کچھ بیانات اور رپورٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان فیض حمید کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد نومبر 2022ء میں اگلا آرمی چیف بنانا چاہتے تھے۔ ان کا نام چھ جنرلز کی اس فہرست میں بھی شامل تھا جو وزیر اعظم شہباز شریف کو آرمی چیف کیلئے بھیجی گئی تھی۔ سینئر صحافی حامد میر نے انکشاف کیا ہے کہ فیض حمید کی سیاسی موقع پرستی کے سب سے بڑے گواہ وزیر اعظم شہباز شریف ہیں۔فیض حمید نے کور کمانڈر پشاور کے طور پر آرمی چیف بننے کیلئے انہیں اپنی وفاداری کا بھرپور یقین دلایا لیکن شہباز شریف ان کی باتوں میں نہیں آئے۔ میں نے ذکر کیا کہ ان کا نام پہلی بار نومبر 2017ء میں سامنے آیا تھا جب انہوں نے تحریک لبیک پاکستان کے زیر قیادت فیض آباد دھرنے کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور میرا یہ بھی کہنا ہے کہ اب ان کا نام پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔ کن معنوں میں؟ یہ تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں