اقوامِ متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم برائے ہجرت (The International Organization for Migration) (IOM)نے بتایا ہے کہ چھ دن تک سمندر میں بھٹکتے رہنے والے اور زندہ بچ جانے والے سات افراد کو ریسکیو کر لیا گیا ہے جبکہ لیبیا کے ساحل کے قریب گزشتہ ہفتے الٹنے والی کشتی میں سوار 42لاپتا تارکینِ وطن ہلاک ہو چکے ہیں۔ بتایا گیا کہ زندہ بچ جانے والے افراد کے مطابق کچھ لوگ لائف جیکٹس پہنے ہوئے تھے‘ جبکہ دیگر کشتی الٹنے کے بعد اس سے لپٹے رہے‘ جن میں سے کچھ بچ گئے اور باقی مارے گئے۔
ہر ایک دو ماہ بعد یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ یورپ جانے کے خواہش مندوں کی کشتی سمندر میں ڈوب گئی جس میں اتنے درجن افراد سوار تھے اور ان میں سے اتنے جان کی بازی ہار گئے۔ اس کے باوجود نہ تو عازمِ یورپ کشتیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوتی ہے اور نہ یورپ جانے والوں کا جنون ہی ماند پڑتا نظر آتا ہے۔ اس بے لگام جنون کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ میری نظر میں اس کے کئی اسباب اور کئی وجوہات ہیں: غربت‘ بے روزگاری‘ وسائل کی کمیابی‘ برابر مواقع کا فقدان‘ بڑھتا ہوا سماجی و معاشی استحصال اور متعلقہ ممالک میں برسر اقتدار رہنے والی نااہل اور ناکام حکومتیں جن کی توجہ ملکی ترقی اور عوام کی بہبود کی طرف کم ہی رہی۔ بتایا گیا ہے کہ 42لاپتا افراد میں سے 29سوڈان سے‘ آٹھ صومالیہ سے‘ تین کیمرون سے اور دو نائیجیریا سے تعلق رکھتے تھے۔ بدنصیب کشتی 47مردوں اور دو خواتین کو لے کر تین نومبر کو زوارہ (طرابلس کے مغرب میں واقع ایک ساحلی شہر) سے روانہ ہوئی تھی‘ لیکن تقریباً چھ گھنٹے کے سفر کے بعد بلند لہروں کے باعث اس کا انجن فیل ہو گیا جس کے بعد کشتی الٹ گئی اور اس کے تمام مسافر سمندر میں گر گئے۔ ہفتے کے روز لیبیائی حکام نے البوری آئل فیلڈ کے قریب تلاش اور امدادی کارروائی شروع کی‘ جس کا نتیجہ اس خبر کی صورت میں سامنے آیا ہے جس کی چند سطور میں نے کالم کے آغاز میں نقل کیں۔
حالات کیوں اس قدر گمبھیر ہو چکے ہیں اور لوگ اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر انسانی سمگلنگ کا حصہ کیوں بنتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے آئیے مندرجہ بالا ممالک کی ماضی قریب کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔
سوڈان: 31دسمبر 1955ء تک سوڈان میں برطانیہ اور مصر کی مشترکہ حکومت (Condominium) قائم تھی۔ یکم جنوری 1956ء کو سوڈان کو ان دونوں ملکوں کی مشترکہ استعمار سے نجات ملی اور سوڈان آزاد ہو گیا۔ آزادی کے بعد سے سوڈان کی تاریخ داخلی تنازعات کی وجہ سے داغ دار رہی ہے۔ اس دوران کئی بار خانہ جنگیاں ہوئیں‘ جن میں پہلی سوڈانی خانہ جنگی (1955ء تا 1972ء)‘ دوسری سوڈانی خانہ جنگی (1983ء تا 2005ء)‘ دارفور میں جنگ (2003 ء تا 2020ء) شامل ہیں‘ جس کے نتیجے میں چھ جولائی 2011ء کو شمالی سوڈان کی اصل سوڈان سے علیحدگی ہوئی اور ایک سوڈان سے دو ملک بن گئے۔ 69برسوں سے جاری اس خانہ جنگی اور ہنگامہ آرائی میں کس کو اتنی ہوش آئی ہو گی کہ ملک کی ترقی اور عوام کی بہبود کے بارے میں سوچ سکے؟
صومالیہ: صومالیہ بھی 1990ء کی دہائی سے اب تک تقریباً مسلسل جنگوں اور خانہ جنگی کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی معیشت کمزور ہے اور لوگوں کے لیے وسائل اتنے دستیاب نہیں کہ انہیں مطمئن کر سکیں۔ مختصر یہ کہ کیمرون اور نائیجیریا کے حالات بھی مختلف نہیں ہیں۔ ایسے میں وہاں کے لوگ اچھے مستقبل کی تلاش میں باہر نہ بھاگیں تو کیا کریں؟
IOM ہی کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال شمالی افریقہ اور جنوبی یورپ کے مابین بحیرۂ روم کے مرکزی راستے سے ہجرت کرنے کی کوشش میں ایک ہزار سے زائد تارکینِ وطن ہلاک ہو چکے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں اس امر کی جانب توجہ مرکوز کراتی ہیں کہ خطے میں تعاون کو مضبوط کرنے‘ محفوظ اور قانونی ہجرت کے راستوں کو وسعت دینے‘ اور تلاش و بچاؤ کی مؤثر کارروائیوں کو بڑھانے کی فوری ضرورت ہے تاکہ مزید قیمتی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔
میرے خیال میں یہ کافی نہ ہو گا۔ اس معاملے کو ذرا گہرائی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جو ممالک بھی خانہ جنگیوں کا شکار ہوتے ہیں‘ یہ طے ہے کہ ان کی معیشتیں کبھی مستحکم نہیں ہو سکتیں۔ وہاں قائم ہونے والی حکومتیں خانہ جنگیوں سے نمٹیں یا عوام کے مسائل کے حل پر توجہ دیں؟ دراصل خانہ جنگیاں ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے کئی ممالک اپنے دشمن ممالک کو داخلی طور پر کمزور کرتے ہیں۔ آپ نے ایک دہائی پہلے عرب بہار نامی خانہ جنگیوں کے اثرات تو دیکھے ہی ہوں گے۔ کیسے تیونس‘ مصر‘ لیبیا اور یمن میں حکومتیں تبدیل کرنے کے نام پر تباہی مچا دی گئی۔ مشرق وسطیٰ کی ان خانہ جنگیوں میں لاکھوں افراد مارے گئے اور جو بے گھر ہوئے ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ خانہ جنگی کا شکار بننے والے ممالک کو جس معاشی تباہی کا سامنا کرنا پڑا‘ اس کے اثرات اب تک ان ممالک کی معیشتوں پر واضح نظر آتے ہیں۔
ابھی سوڈان کا ذکر ہوا ہے تو سب جانتے ہیں کہ وہاں اس وقت بھی خانہ جنگی جاری ہے اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن نے بتایا ہے کہ وہاں شہر الفاشر میں اجتماعی قتلِ عام اور نسلی و جنسی تشدد نے نقل مکانی میں خطرناک اضافہ کر دیا ہے جبکہ شدید عدم تحفظ کے نتیجے میں انسانی بحران نے بدترین صورت اختیار کر لی ہے۔ اس بحران نے لا تعداد خاندانوں کو خوراک‘ پانی اور طبی سہولیات سے محروم کر دیا ہے۔ الفاشر اور اس کے گردونواح میں شدید گولہ باری اور زمینی حملوں کے باعث تقریباً 90ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ بے شمار خاندان غیر محفوظ راستوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں جہاں انہیں کھانے‘ پانی اور طبی امداد تک رسائی نہیں۔ ہزاروں شہری اب بھی علاقے میں محصور ہیں جنہیں قحط جیسے حالات کا سامنا ہے جبکہ ہسپتال‘ بازار اور پانی کے نظام تباہ ہو چکے ہیں۔
میں IOM کی اس بات سے متفق ہوں کہ خطے میں تعاون کو مضبوط کرنے‘ محفوظ اور قانونی ہجرت کے راستوں کو وسعت دینے اور تلاش و بچاؤ کی مؤثر کارروائیوں کو بڑھانے کی فوری ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے عوامل پر توجہ مبذول کرنا بھی ضروری ہے جیسے خانہ جنگیوں کا باعث بننے والے عوامل پر قابو پانا اور متمول ممالک کی جانب سے غریب ممالک کا استحصال بند کیا جانا۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جہاں جہاں سے بھی نو آبادیاتی نظام نے اپنے قدم سمیٹے وہاں وہاں نہ ختم ہونے والے تنازعات اور نہ حل ہونے والے مسائل کے بیج بو دیے تاکہ وہاں کے باشندے ایک دوسرے کا خون بہاتے اور ایک دوسرے کو قتل کرتے رہیں اور ترقی وہاں سے دور بھاگتی رہے۔ اچھے روزگار اور پائیدار مستقبل کی طلب میں بھٹکتی ان روحوں نے تنازعات کے ان بیجوں سے جنم لیا ہے جو نوآبادیات قائم کرنے والے جاتے جاتے یہاں بو گئے تھے۔ اس کا شکار براعظم افریقہ ہے اور ایشیا بھی‘ مشرقِ وسطیٰ ‘ مشرقِ بعید اور جنوبی ایشیا بھی۔ پتا نہیں ان ممالک کے حکمران ہوش کے ناخن کب لیں گے؟