جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے: A lie has no legs to stand upon۔ ایک اور انگلش محاورہ کہتا ہے: Big fat lie۔ ان دونوں کو جمع کر لیں تو بھی قدرت کا قانون غالب آتا ہے‘ جس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے اور وہ ہے: سچ کو آنچ نہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی خواہش پر القادر یونیورسٹی کے قیام کے لیے ٹرسٹ میرے لاء آفس میں بیٹھ کر بنایا گیا۔ جس کے فائونڈر کی حیثیت سے میں نے ٹرسٹ ڈاکیومنٹیشن کو اسلام آباد میں فائنل کیا۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے نامِ نامی کی نسبت سے اسے القادر ٹرسٹ کا ٹائٹل دیا گیا۔ رجیم چینج کے بعد جب عمران خان کے خلاف وِچ ہَنٹ شروع ہوئی‘ پورا ریاستی زور لگا کر کشتوں کے پشتے الٹائے گئے‘ دروغ گوئی کے پہاڑ اُٹھائے گئے‘ گرائے گئے‘ مگر کرپشن تھی کہاں جس کا ثبوت ملتا؟ شہباز شریف کی زبان میں کہیں تو ایک دھیلے اور نواز شریف کی زبان میں بولیں تو ایک قصیرے جتنا الزام بھی سامنے نہ آسکا۔
ایسے میں مجھے سرکاری ادارے کا نوٹس ملتا ہے‘ جس کا مدعا تھا: آپ ہمارے سامنے پیش ہوں‘ القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے حوالے سے سوال کرنے ہیں۔ اس کو ڈیل کرنے کے لیے میرے پاس دو آپشن کھلے تھے۔ پہلا آپشن یہ کہ میں طلبی کے اس بوگس نوٹس کو عدالت میں لے جاتا اور پھر چل سو چل۔ دوسرا راستہ تھا سچ کی تبلیغ کا؛ چنانچہ میں نے نوٹس کا جواب اثبات میں دیا اور میرے لاء آفس نے پوچھا کہ کس تاریخ کو آنا ہے۔ طے شدہ وقت پر میں اُس روز سابق نیول ہیڈ کوارٹر اور اسلام آباد میں اپنے پرانے محلے سیکٹر G-6 پہنچ گیا۔ اس ہیڈ کوراٹر کے سامنے سیکٹر جی سکس ون تھری کا گرلز کالج واقع ہے‘ جس کے غربی کونے پر B ٹائپ سرکاری کوارٹر میرے انتہائی قریبی دوست لال مسجد کے اوّلین خطیب مولانا عبداللہ کو الاٹ تھا۔ اس سے ذرا فاصلے پر میلوڈی سینما کے سامنے کی طرف میری رہائش تھی۔ میں مولانا صاحب والے کوراٹر کے سامنے رُک کر میڈیا کیمروں کے درمیان سے ہوتا ہوا کمرۂ تفتیش تک پہنچ گیا۔ کمرے کے اندر دونوں جانب شیشے لگے ہوئے تھے۔ جن کا مطلب تھا کہ ہمیں کوئی دیکھ رہا ہے۔ باڈی لینگویج پڑھنے کے لیے‘ اور سن رہا ہے گفتگو ٹیپ کرنے کے لیے۔ مڈل ٹیبل کے سامنے دو نوجوان اور ایک ادھیڑ عمر افسر بیٹھے تھے‘ میں نے سلام علیک کے بعد کہا: اپنا اپنا تعارف کروائیں۔ وکالت کی زبان میں ایسے جھنڈ کو JIT اور معروف معنوں میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کہتے ہیں۔ پھر سوال جواب شروع ہوئے اور آخر میں مَیں نے کہا: ایک سوال میں نے بھی کرنا ہے۔ سوال یہ تھا کہ 190ملین پائونڈ سپریم کورٹ کے بینک اکائونٹ میں محفوظ پڑے ہیں‘ آپ عمران خان کے خلاف کیا تفتیش کر رہے ہیں؟ سپریم کورٹ یہاں سے پیدل دس منٹ کے فاصلے پر ہے ۔ آپ بینک میں پہنچیں اور رقم برآمد کر کے لے آئیں۔ ایسے موقع پر سرکاری ملازم ہمیشہ اپنی مجبوریوں کا ذکر شروع کر دیتے ہیں‘ وہ بھی بہت دھیمے لہجے میں علامتی گفتگو کے انداز میں۔
قارئینِ وکالت نامہ! اب یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ پاکستان ایک ٹوٹل Totalitaraion System کی گرفت میں ہے جہاں کاٹھ اور کانے سے بنی ہوئی پتلیاں راج کرتی ہیں۔ کون نہیں جانتا کاٹھ کی پتلی کے پیچھے ڈوری ہوتی ہے جسے ہِلانے والا پسِ پردہ ہاتھ اُس سے کبھی مزاحیہ ایکٹنگ کرواتا ہے۔ دل چاہے تو اُسے ہنسا دے۔ جب ہنسی سے دل بھر جائے تو ڈوری ہِلانے والا رُلا دینے پر قادر ہوتا ہے۔ باقی بات رہی کٹھ پتلیوں کے منہ کے پیچھے سے سنائی دینے والی آواز کی تو اُس کو آواز کی دنیا میں وائس اوور کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے دوسری اصطلاح 'لِپ سنکنگ‘ کی بھی استعمال ہوتی ہے جس میں ریکارڈ کوئی اور بجا رہا ہوتا ہے اور گانے والا پوری گردن مٹکا مٹکا کر اور کمر ہِلا ہِلا کر اس طرح منہ کھولتا ہے جیسے گانا وہ گا رہا ہے۔ القادر یونیورسٹی ڈرامے کا آغاز بھی بالکل اسی طرح ہوا۔ اس ڈرامے کے ابتدائی دنوں کی کچھ مہینے جو کاغذی کارروائی اور میڈیائی کوریج ہوتی رہی آپ آرکائیو سے نکال کر اُسے چیک کر لیں‘ تب اس کیس کا نام القادر یونیورسٹی سیکنڈل تھا۔ پھر کٹھ پتلیوں کے ہاتھ میں دو چٹیں دی گئیں۔ پہلی چٹ پر لکھا تھا: 190 ملین پائونڈ کرپشن کیس۔ دوسری پرچی پر درج کیا گیا: عمران خان کے خلاف پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی منی لانڈرنگ اور کرپشن کا مقدمہ۔ یہ کیس طوفانی رفتار سے کینگرو کورٹ میں جیل کی کال کوٹھڑی کے اندر چلا۔ اس مقدمے کی خاص بات ویسی ہی تھی جیسی بے نظیر بھٹو شہید کے خلاف کرپشن کیس میں تھی۔
وہ سزائیں جو کہیں موجود نہ تھیں وہ ان دونوں مقدمات میں ججز کے ذریعے فیصلے آنے سے پہلے مخصوص میڈیا پر سنا دی گئیں۔ جب یہ سزائیں مخصوص میڈیا پر سنائی گئیں تب تک ان فیصلوں کے لکھنے کی سٹیج ہی نہیں آئی تھی۔ آپ نے یہ بھی اچھی طرح سنا‘ جب مقدمہ بنوانے والوں کے ترجمانوں نے میڈیا پر بیٹھ کر کہا تھا کہ اس دفعہ فیصلہ بہت لمبا لکھا جائے گا‘ فیصلے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی جائے گی اور بڑا مضبوط فیصلہ آ رہا ہے۔
عمران خان کے خلاف کرپشن کی نہ کوئی شہادت موجود تھی اور نہ ہی استغاثہ کی طرف سے 190 ملین پائونڈ خورد برد کرنے کی کوئی دستاویز شامل تھی۔ میگا مزاحیہ بات یہ نکلی کہ جس شہر میں 190 ملین پائونڈ کا مقدمہ چلایا گیا اُسی شہر کے عدالتی اکائونٹ میں 190 ملین پائونڈ کی یہ رقم موجود تھی۔ پھر چیف جسٹس آف پاکستان سے پہلے حکومت ملی‘ پھر پی ٹی آئی کا وفد‘ جس میں مَیں بھی شامل تھا۔ اس کے تین ہفتے بعد سپریم کورٹ کے اکائونٹ سے یہ رقم سرکاری خزانے میں منتقل کرنے کی خبر سامنے آ گئی۔ جس دن بھی القادر ٹرسٹ کا کیس عدالتِ اپیل کے سامنے سنا جائے گا‘ وہاں پہ پہلا سوال یہ ہو گا۔ 190ملین پائونڈ اگر عمران خان نے اُٹھا کر القادر یونیورسٹی پر لگائے تھے تو پھر دانش یونیورسٹی والے 190 ملین پائونڈ سپریم کورٹ کے اکائونٹ سے کیسے برآمد ہو گئے؟ پچھلے 188 ڈرامائی مقدمات کی طرح یہ ڈرامہ بھی ٹائیں ٹائیں فِش ہو گیا ہے۔ پاکستان کی ہچکولے کھاتی ریاست کے روز افزوں دہشت گردی جیسے اصل مسائل چھپانے کے لیے عمران خان کے خلاف سینکڑوں جھوٹی کہانیاں گھڑی گئیں مگر اندر کی روشنی رکھنے والے شاعر تیمور حسن نے انہیں یوں ایکسپوز کر دکھایا:
مجھ کو کہانیاں نہ سنا‘ شہر کو بچا
باتوں سے میرا دل نہ لبھا‘ شہر کو بچا
تُو اس لیے ہے شہر کا حاکم کہ شہر ہے
اس کی بقا میں تیری بقا‘ شہر کو بچا
بھڑکا رہی ہے آگ کو خود تیل ڈال کر
اور کہہ رہی ہے خلقِ خدا‘ شہر کو بچا
تاریخ دان لکھے گا تیمورؔ یہ ضرور
اک شخص تھا جو کہتا رہا‘ شہر کو بچا