"SBA" (space) message & send to 7575

دہشت گردی‘ ناسور سے سیاست تک

پاکستان میں دہشت گردی کا پہلا باقاعدہ قانون 1975ء میں منتخب پارلیمنٹ نے بنایا تھا۔ یہ دستور ساز پارلیمان تھا جس میں بیٹھنے والے ممبرانِ اسمبلی دُور بین لوگ تھے۔ انہی خواتین و حضرات نے وطنِ عزیز کی سخت ترین قانون سازی کو اصل دہشت گردی کے خاتمے تک محدود کر چھوڑا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس قانون کا نام Terrorist Affected Areas Act,1975 رکھا گیا۔ پسِ منظر اس وقت کی قومی ضرورت تھا۔ 1975ء میں بلوچستان کے کچھ علاقوں اور کراچی کے مخصوص ایریاز میں دہشت گردی کی وارداتیں شروع ہوئیں‘ جن سے نمٹنے کے لیے اس وقت کی عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والی اسمبلی نے پورے ملک کا گھیراؤ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ دانشمندانہ پالیسی پر مبنی فیصلہ تھا جس کے تحت صرف ان علاقوں کے لیے قانون بنا یاگیا جہاں دہشت گردی ہو رہی تھی یا پھر دہشت گردی ہونے کے خدشات تھے۔ اس قانون سے شروع کر کے 1977ء تک پوری احتیاط کے ساتھ یہ قانون ریاستی اداروں نے صرف حقیقی دہشت گردی پر مبنی وارداتوں کے مقدمات درج کرنے تک محدود رکھا‘ جس کے نتیجے میں مقامی اور عالمی سطح پر پاکستان کا امیج ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر اُبھرنے میں مدد ملی۔
اس سے پہلے 1952ء میں اس وقت کے غیرمنتخب صدر نے DPRکے نام سے ایک صدارتی حکم نامے کے تحت رولز بنا دیے جنہیں بعد میں ڈیفنس آف پاکستان آرڈیننس 1965ء کی شکل دی گئی۔ DPRرولز بڑے پیمانے پر حکمران اشرافیہ کے سیاسی مخالفوں کے خلاف استعمال ہوئے۔ میں نے خود اسلام آباد کالج فار بوائز کی سٹوڈنٹ یونین کے صدر کی حیثیت سے دو مرتبہ راولپنڈی کی پرانی سینٹرل جیل اور سینٹرل جیل میانوالی میں قید بھگتی۔ ایک دفعہ چار ماہ سے زائد اور دوسری دفعہ مسلسل نو ماہ قید۔ DPRرولز بنانے کا مقصد آبادی کو مخالفانہ حملوں سے روکنا لکھا گیا۔ اس طرح 1950ء کے عشرے میں ہی دہشت گردی کے خلاف بنائے جانے والے قانون کو سرکار مخالف آوازیں دبانے کیلئے استعمال کرنے کا مکروہ دھندہ شروع ہوا۔ 1977ء میں جنرل ضیا الحق کے مارشل لا نے منتخب اسمبلی کے قانون کو غیر مؤثر قرار دے کر نیا قانون بنا دیا‘ جس پر ڈیفنس آف پاکستان ترمیمی ایکٹ 1977ء کا ٹائٹل تھوپا گیا۔ اس ایکٹ کی وجہ پاکستان کو سکیورٹی تھریٹ اور ملکی ڈیفنس بتایا گیا۔
وہ قارئینِ وکالت نامہ جو قانون و انصاف اور عوامی دلچسپی کے موضوعات کا شغف رکھتے ہیں‘ ان کیلئے دہشت گردی کے بھارتی قوانین کا تقابل پیش ہے۔ بھارت نے منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے پہلی بار UAPAکے نا م سے غیرقانونی سرگرمیوں کے خاتمے کا ایکٹ مجریہ 1967ء بنایا جس کا مقصد دہشت و وحشت گردی کی وارداتوں پر قابو پانا بتایا گیا جس کے بعد بھارتی پارلیمنٹ نے پریونشن آف ٹیرر ازم ایکٹ 2002ء بنایا جسے عرفِ عام میں POTAکے نام سے پکارا گیا۔ دو سال بعد یہ قانون ختم کرکے UAPAمیں تین نکات پر مبنی اینٹی ٹیررازم بڑی معنی خیز قانون سازی کی گئی‘ جس کے پہلے نکتے میں دہشت گردی کی تعریف درج ہوئی جو انڈین پینل کوڈ میں درج عام جرائم سے بالکل مختلف ہے۔ اس کا دوسرا نکتہ دہشت گردی برپا ہونے سے پہلے روکنے کیلئے Preventiveاقدامات بیان کرتا ہے۔ تیسرا نکتہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قانون و سزا تجویز کرتا ہے جبکہ ہمارے ہاں دہشت گردی ہونے سے پہلے صرف انٹیلی جنس کا سہارا لیا جاتا ہے‘ قانون سازی کوئی نہیں ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے بھارت نے راجیو گاندھی کے دورِ حکومت میں بدنامِ زمانہ قانون بنایا جس پر ہمارے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے استعمال کی طرح شدید تنقید ہوئی۔ بھارتی پارلیمان کا یہ قانونTADAکہلایا۔ Terrorist and Disruptive Activities(Prevention) Act, 1985۔ 1987ء میں بھارتی پنجاب کے طول و عرض میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کی خالصتان تحریک کو سامنے رکھ کر اس قانون میں ٹیلر میڈ ترمیم کی گئی۔ پی وی نرسمہا راؤ نے اسی قانون میں 1995ء میں نئی ترامیم ڈال دیں۔
دہشت گردی کے ناسور سے سیاست تک کا جو سفر ریاستِ پاکستان نے طے کیا اس میں دو سال بڑے تباہ کن ثابت ہوئے۔ پبلک اور ریاست دونوں کیلئے۔ 1977ء میں ضیا الحق کے مارشل لا نے وکالت‘ صحافت‘ سیاست‘ مزدور یونین‘ ٹریڈ یونین سمیت ہر اختلافی آواز کو دبانے کیلئے 1977ء کے مارشلائی پریزیڈینشل آرڈرز کا بے رحمانہ استعمال کیا۔ اس دور میں صحافت کافی ترقی کر چکی تھی۔ نئے اخبارات‘ جدید روزنامے‘ لاتعداد سہ روزے‘ علاقائی زبانوں کے اخبار اور جریدے اپنا حقِ اظہار سرنڈر کرنے پر راضی نہیں ہوتے تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ اختلافی آوازوں کو جگہ دینے والے اخبارات نے پہلے صفحے پر ضیا مارشل لا کی سینسر شپ کو دُھتکارنے کا نیا راستہ چن لیا۔ سب سے اوپر اخبار کا نام‘ جسے صحافت کی زبان میں اخبار کا مُکھڑا کہتے ہیں‘ چھاپ کر اور صفحے کے سب سے نیچے پرنٹر‘ پبلشر اور ادارے کا نام لکھ کر باقی سُپر لیڈ‘ مین لیڈ اور سرخیوں کی جگہ سارے کالموں میں کالی سیاہی کے کاٹے مار کر اخبار چھاپ دیا۔ اسی دور میں دہشت گردی کا تصور انتہائی متنازع بنا دیا گیا۔ ایک شخص کی ذاتی اَنا‘ آئین دشمنی اور مردم آزاری نے منصفانہ قانون سازی اور نظامِ انصاف کا تصور روند ڈالا۔
ضیا مارشل لا ختم ہونے کے بعد باقیاتِ ضیا نے 1997ء میں دھاندلی کے ذریعے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ نواز شریف نے ایئر مارشل اصغر خان کی تحریکِ استقلال چھوڑ کر ضیا الحق کے جانشین کے طور پر اس کے مشن کی تکمیل کا اعلان کیا۔ پھر 1997ء میں نواز شریف نے موجودہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ لاگو کر دیا۔ شروع میں اس ایکٹ کے مطابق وزیراعظم کو ظلِ الٰہی اور ہر حرکت کرنے والی چیز کو دہشت گرد بنا دیا گیا۔ میں آپ سے مذاق نہیں کر رہا‘ 1997ء والی نواز حکومت کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ ٹریڈ یونین میں گو سلو‘ ہر طرح کی پبلک گیدرِنگ اور مظاہرے 1997ء کے دہشت گردی ایکٹ کے زمرے میں ڈال دیے۔
آج ایک بار پھر شریف راج ہے۔ دہشت گردی ایکٹ ناسور سے سیاست تک گھسیٹ کر عمران خان کے خلاف 198اور عمر ایوب کے خلاف 68ایف آئی آرز درج ہیں۔ اڑھائی ہزار کے قریب لوگ اب بھی قید میں ہیں۔ 10ہزار نامعلوم اور ساڑھے سات ہزار معلوم سیاسی ورکرز‘ عام شہریوں‘ بزرگ خواتین‘ بوڑھے‘ جوان اور بچوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ دہشت گردی کا قانون اختلافی آوازیں دبانے کیلئے ہے‘ دہشت گردی مٹانے کیلئے نہیں۔
دل و نظر کی وا ماندگی یہ بے سمتی
مبصرو! کوئی بھرپور فلسفہ لاؤ
یہ چاک‘ سوزنِ مذہب سے بھی ہوا نہ رفو

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں