وڈیو‘ جس کا آج تذکرہ کروں گا وہ مجھے چند دن پہلے وزیراعظم ہاؤس کے میڈیا سیل سے ایک سابق دوست نے بھجوائی۔ یہ وڈیو 2008ء کی ہے جس میں میرے کولیگ سینیٹر رضا ربانی اور میں وزیراعظم ہاؤس کے گیراج میں موجود ہیں‘ جہاں ایک سفید رنگ کی پرانی پجارو جیپ آکر کھڑی ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اُترتے ہوئے نظر آئے۔ میں آگے بڑھا‘ عمران خان کو خوش آمدید کہا۔ عمران خان نے خیریت پوچھی: بابر جی کیسے ہیں‘ وکالت کیا اب بھی چل رہی ہے؟ پھرہلکی پھلکی گپ شپ میں اُنہیں وزیراعظم ہاؤس کے آڈیٹوریم میں ہیڈ ٹیبل تک لے گیا۔ واپس پہنچا تو مولانا فضل الرحمن گاڑی سے اُتر رہے تھے‘ جن کا میں اور رضا ربانی صاحب استقبال کرتے ہیں۔ اتنی دیر میں نواز شریف اور شہباز شریف کی لگژری گاڑی سامنے آتی ہے۔ رضا ربانی صاحب نے نواز شریف کا بھر پور استقبال کیا۔ شہباز شریف اُتر کر میری طرف لپکے اور ہمارے مابین پنجابی میں دو تین رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا۔
یہ وہ وقت ہے جس کی یادیں انتہائی تکلیف دہ اور دکھی کر دینے والی ہیں۔ 2008-09ء میں اسلام آباد شہر کے حالات برادر اسلامی ملک افغانستان کے دارالخلافہ کابل جیسے تھے۔ ایک ایک دن میں دو‘ تین‘ چار خودکش دھماکے‘ فائرنگ کے واقعات نے نیشنل کیپٹل کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ وفاقی وزیر شہباز بھٹی‘ جو اقلیت سے تعلق رکھتے تھے‘ انہیں کیبنٹ میٹنگ میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر مذہبی امور علامہ حامد سعید کاظمی کو اتنی گولیاں ماری گئیں کہ وہ چلنے پھرنے اور عملی سیاست‘ دونوں سے محروم ہو گئے۔ اس ماحو ل میں ریاست کے سٹیک ہولڈرز اکٹھے بیٹھے اورفیصلہ ہوا کہ ملک کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں اور مسلح افواج کے سربراہوں کو پارلیمنٹ میں طلب کیا جائے۔ ملک کے دفاع کی سٹرٹیجی اور امن و امان کی اصل صورتحال پر بریفنگ لے کر اجتماعی سیاسی عمل کے ذریعے قومی بیانیہ تشکیل دیا جائے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ سے باہر‘ علاقائی و مذہبی جماعتوں سمیت سب سے رابطہ کرنے کی ذمہ داری وزیراعظم اور چار وفاقی وزیروں کے پاس تھی۔ قوم کو یکجا کرنے کے اس عمل میں مَیں بھی شریک تھا۔ پھر یک نکاتی ایجنڈے پر قوم کے اتحاد کی منزل حاصل کرنے کے لیے پہلا درست قدم اٹھایا گیا‘ جس کا واحد مقصد مختلف الخیال اور اپنا اپنا علیحدہ ایجنڈا رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو ایک چھت کے نیچے اکٹھے بٹھانے کا مشکل عمل تھا۔ چنانچہ آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی جس میں عملی طور پر ساری سیاسی جماعتوں‘ علاقائی‘ لسانی‘ بڑی‘ چھوٹی‘ مذہبی‘ پروگریسو سیاست کرنے والے تمام لیڈروں کو بہت احترام سے بلایا گیا۔ ایک دن میں دو نشستوں کے ذریعے یہ مشق صبح سے رات گئے تک چلتی رہی۔ جس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کی اِن پُٹ اور لمبی بحثوں کے بعد متفقہ قومی اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اس عمل کے نتیجے میں نیشنل ایکشن پلان‘ نیکٹا اور اسی طرح کے تین مزید ادارے دہشت گردی اور وحشت گری کو روکنے کے لیے معرضِ وجود میں آئے۔ آج ایک بار پھر قوم کو ساڑھے تین سالہ سلیکٹڈ راج نے منتخب حکومت کو ڈِس مِس کر نے کے بعد پھر سے 2008ء والی بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ اس حوالے سے شہرِ اقتدار میں تین سطح کی اندرونی سفارت کاری ہوئی جس کے ذرائع موقر‘قابلِ بھروسہ اور مصدقہ ہیں۔
شہرِ اقتدار میں پہلی سطح کی سفارت کاری: اس میں بڑے سٹیک ہولڈرز کے اندر یہ رائے شدت سے پائی گئی کہ ملکی صورتحال قوم کو ہاتھ سے نکلتی ہوئی نہ نظر آئے۔ بے یقینی‘ بے اطمینانی اور بے سمت حکومتی پالیسیوں نے سب کو اس مرحلے تک پہنچایا جہاں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ دوسری جانب شریف راج کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ مخصوص وزیروں کو میڈیا کے ذریعے زہر کی پچکاریاں پھینکنے کا ٹاسک ملا تا کہ تصادم کا ماحول برقرار رہے اور فارم 47 رجیم کا اقتدار چلتا رہے۔ کابینہ میں نواز شریف گروپ کے ہم خیال بڑے وزیر نے عمران خان کو آل پارٹیز کانفرنس میں مدعو کرنے کے خلاف وزارت سے مستعفی ہونے کی دھمکی کا شوشا چھوڑا۔ اس دھمکی کو متعلقہ جگہ سیریس نہ لیا گیا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ اس وزیرکو مسلسل دوسری بار ہارا ہوا الیکشن بڑوں کی بڑی مداخلت کے ذریعے جتوایا گیا تھا۔
شہرِ اقتدار میں دوسری سطح کی سفارت کاری: آل پارٹیز کانفرنس اور اس میں عمران خان کی ممکنہ شرکت کا عندیہ دیکھ کر ملک میں دہشت گردی کی سہ رُخی جاری لہروں کو روکنے کے لیے سنجیدہ کوشش کو سبوتاژ کرنے والے اندھیرے فروش حرکت میں آ گئے۔ نواز شریف گروپ کے ایک وزیر سے بیان دلوایا گیا کہ پاکستان میں افغانوں کو بسانے کا ذمہ دار کوئی اور نہیں‘ جنرل باجوہ خود ہے۔ انتہائی ذمہ دار ذریعہ کہتا ہے کہ دوسرے درجے کی اندرونی سفارت کاری میں ایک اور بڑی دھمکی بھی لگائی گئی کہ جس طرح ہم نے سنگین غداری کے مقدے میں جنرل مشرف کا نہ صرف ٹرائل کرایا بلکہ اسے سزا بھی دلوائی ویسے ہی جنرل باجوہ کو بھی High treasonکی عدالت میں کھڑا کریں گے۔
شہرِ اقتدار میں تیسری سطح کی سفارت کاری: شہرِ اقتدار میں تیسری سطح کی سفارت کاری 'کچھ لو، کچھ دو‘ تک آ گری۔ قومی مفاد پیچھے رہ گیا۔ ذاتیات نے قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کا موقع جانے دیا۔ چنانچہ راتوں رات آل پارٹیز کانفرنس اِن ہاؤس کمیٹی میں بدل گئی۔ ان دو ٹولیوں میں سے ایک عمران خان کو آل پارٹیز کانفرنس اور ہاؤس کمیٹی میٹنگ میں شرکت کا دعوت نامہ جاری کرنے کی حامی تھی۔ جوابی وار کے طور پر دوسری ٹولی نے بلوچستان کی سیاسی جماعتوں‘ ڈاکٹر عبدالمالک‘ محمود خان اچکزئی‘ میر اختر مینگل‘ میر جان جمالی‘ حقوقِ گوادر موومنٹ‘ تحفظِ دستور موومنٹ اور عمران خان سمیت کسی کو بھی مدعو نہ ہونے دیا‘ بلکہ پی ٹی آئی لیڈروں کی عمران خان سے ملاقات کرانے کا انکار ہوا۔ کوشش کی گئی کپتان کے مشورے کے بغیر پارلیمانی پارٹی کو حکومت کی مرضی کے اجتماع میں شرکت پر مجبور کیا جائے۔ میں نے اسی رات اپنے ٹویٹر(ایکس) اکاؤنٹ پر اس سازش کو بے نقاب کیا‘ ساتھ اسلام آباد ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو بھی کی۔
آلِ شریف کے نوحہ گر کہتے ہیں کہ تحریک انصاف قومی ادارے میں شریک ہو۔ وہ کپتان جس نے قومی ادارے کا ہر الیکشن لڑا اور جیتا‘ اسے ہارے ہوئے لشکر کے طبلچی نہ توڑ سکتے ہیں‘ نہ بہکا سکتے ہیں‘ نہ آمریت کی شرائط پر لا سکتے ہیں۔ عمران کے خوف سے جبراً مسلط حکومت آل پارٹیز کانفرنس سے بھی بھاگ نکلی۔
مسلط ہو کے ہم پہ جو یہ مینڈیٹ چور بیٹھے ہیں
خیالی پانیوں میں ہاتھ لہراتے یہ غوطہ خور بیٹھے ہیں
زوال آئے گا جلدی ان کی جھوٹی شان و شوکت پہ
یہ خود کو طاقتِ جمہور سے جو توڑ بیٹھے ہیں