"SBA" (space) message & send to 7575

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات

پاکستان میں رائج اجباری نظامِ حکومت کے ساتھ ساتھ آرٹ آف گورننس کے حوالے سے ڈرا دینے والے جو تجربات مجھے ہوئے اُن کی تفصیلات دلچسپ بھی ہیں اور معلومات افزا بھی۔ مثال کے طور پر پچھلے تقریباً چار عشروں میں شاید ہی کوئی ایسا چیف جسٹس آف پاکستان ہو جس نے چیف ایگزیکٹو آف پاکستان سے ملاقات نہ کی ہو۔ چیف ایگزیکٹو کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے‘ پرائم منسٹر کا نہیں۔ اُس کی بڑی وجہ بلوچستان بریف کیس سکینڈل سے شہرت پانے والے جسٹس رفیق تارڑ ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے سرکاری ٹی وی کے ہیڈ کوارٹر اور وزیراعظم ہائوس کی دیواریں پھلانگ کر 12 اکتوبر 1999ء کے روز اقتدار پہ قبضہ کیا تھا۔ اُس سے پہلے یکم جنوری 1998ء کے دن رفیق تارڑ کو دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے نواز شریف نے نمائشی صدر بنوایا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے آپ کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے بجائے چیف ایگزیکٹو کہنا مناسب خیال کیا۔ اس فیصلے کو نمائشی صدر رفیق تارڑ کی مکمل تائید حاصل تھی۔ اسی وجہ سے رفیق تارڑ ایک سرکاری ملازم کے ماتحت 20 جون 2001ء تک پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہے۔ 20 جون کی شام جنرل پرویز مشرف نے رفیق تارڑ کو لاہور کی ون وے سواری پر سوار کروا دیا۔ اس مرحلے پہ نجانے کیوں گوجرانوالہ کے سینئر وکلا یاد آ گئے‘ جو وکیلوں کے اُس وفد میں شامل تھے جس نے مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان سے ملاقات کی تھی۔ راوی کے مطابق تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ گوجرانوالہ کے ایک وکیل نے 1960ء کے عشرے میں سول جج کا امتحان دیا۔ موصوف کی لیاقت کے سمندر میں غوطے کھانے کے بعد بے رحم ممتحن حضرات نے اُسے فیل کر دیا‘ جس کے کچھ عرصے بعد وکیل صاحب پر الزام لگا اور 302 کا پرچہ کٹ گیا۔ موصوف ضمانت پر باہر آئے تو گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن کا سالانہ الیکشن قریب پہنچ چکا تھا۔ موصوف نے اپنا اور دوستوں کا ووٹ دینے کے لیے ایک تگڑے امیدوار سے جنرل مشرف کی طرح ڈیل کر لی؛ چنانچہ اُن کی سفارش کرنے کے لیے اُنہیں گورنر امیر محمد خان آف کالا باغ کے ساتھ ملاقات کے لیے لے جایا گیا۔ تب گورنر کے پاس ایڈیشنل اور اسسٹنٹ سیشن جج تعینات کرنے کا اختیار تھا۔ بار کے وفد کو گورنر نے خوش دِلی سے چائے پلائی اور پوچھا کیسے آنا ہوا؟ وفد نے کہا: یہ ہمارے بڑے لائق ساتھی ہیں آپ انہیں اسسٹنٹ یا ایڈیشنل سیشن جج لگا دیں۔ گورنر نے پوچھا: یہ ایڈیشنل یا اسسٹنٹ جج کرتا کیا ہے؟ ایک شرارتی وکیل بول اُٹھا: سر ایڈیشنل یا اسسٹنٹ جج قتل کے مقدمات سنتا ہے اور موصوف کو قتل کے مقدمے کا خاصا تجربہ ہے۔ گورنر امیر محمد خان نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہنے لگے: آپ کا مطالبہ منظور کرنا پڑے گا‘ واقعی ایسے تجربہ کار انسان کو جج لگنا چاہیے۔ دروغ برگردنِ راوی اس بریف کیس برداری کی روایت نے پاکستان میں عدلیہ کو وہاں پہنچایا جہاں ہم آج کھڑے ہیں۔ بے انصافی کی فصلیں اتنی زیادہ اُگ آئیں کہ پاکستان لاقانونیت کا جنگل بن چکا ہے اور سائل تھکے ہوئے تماشائی۔ بقول شاعر:
تھکے ہوئے کھڑکیوں کے چہرے
جلی ہوئی آسماں کی رنگت
ہوئے سیاہ‘ آفاق تک بگولے
لہو کے آتش فشاں کی ساعت
وجود پر ایک بوجھ سا تھا
نہ صبحِ وعدہ‘ نہ شامِ فرقت
پچھلے ہفتے فارم 47 رجیم کی مصنوعی کابینہ نے چیف جسٹس آف پاکستان جناب یحییٰ آفریدی سے اُن کی سرکاری رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اس ملاقات کا حکومتی اعلامیہ پڑھ کر یار لوگ ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوئے۔ اعلامیہ تین نکات پر مشتمل تھا‘ پہلا یہ کہ معیشت درست کرنے کے لیے شہباز شریف نے چیف جسٹس سے گفتگو کی۔ دوسرا نکتہ سیکورٹی کی صورتِ حال اور تیسرا نکتہ قانونی امور۔ اس سے پہلے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کو چیف جسٹس صاحب نے حکومتی وفد کے ساتھ مشترکہ ملاقات کی دعوت دی۔ ہمارا فیصلہ تھا کہ ہم اس حکومت کے مائوتھ پیس کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ ہمارا وفد جناب عمران خان کی منظوری سے طے پایا اور حکومت کے بعد ہم چیف جسٹس صاحب سے ملنے گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ حکومتی ملاقات کے بارے میں سرکار نے خوب اپنے مطلب کی پبلسٹی کی جبکہ ہماری ملاقات پر اعتراضات کے انبار لگائے گئے۔ دربار کی جانب سے سب بڑا اعتراض یہ تھا‘ 26ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کے بعد چیف جسٹس صاحب سے ملاقات کا کیا جواز ہے۔ سادہ سی بات ہے سپریم کورٹ آف پاکستان سب سے بڑا عدالتی فورم ہے ۔ اس فورم میں 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے شہباز رجیم نے مداخلت کی ہے۔ پی ٹی آئی کی لڑائی کسی بھی ادارے سے نہیں بلکہ اس دستوری اور جمہوری جنگ کا بنیادی نکتہ اداروں کو قانون کے دائرے میں لا کر مکمل آزادی دلوانا ہے۔ چیف جسٹس جناب یحییٰ آفریدی سے ہماری ملاقات کی جو پریس ریلیز سپریم کورٹ کے PRO آفس نے جاری کی اُس کی ساری تفصیل آپ سامنے رکھیں تو کسی جگہ رُول آف لاء اور دستوری راج کے علاوہ ہماری جانب سے کوئی مطالبہ موجود نہیں۔ حالات کی رفتار سے لگتا ہے کہ سرکار کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ہماری ملاقات تین وجہ سے اچھی نہ لگی۔ اول‘ اُن کے خیال میں پی ٹی آئی کو انصاف کے سب سے بڑے فورم کے مقابل کھڑا کرنے کا خواب پورا نہ ہوا۔ دوسرا‘ موجودہ چیف جسٹس نے حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کو جوڈیشل ریفارم کے 10 نکات پر اور رُول آف لاء کے حوالے سے کھل کر اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا۔ میں نے جناب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے درخواست ضمانت‘ قیدیوں کی سزائوں کی معطلی کی درخواست اور سٹے میٹر فوری طور پہ فکس کرنے کی درخواست کی‘ جس پہ جناب چیف جسٹس صاحب نے رجسٹرار سمیت عملے کو ارجنٹ کیسز فی الفور پراسیس کرنے کا حکم دیا۔ اپوزیشن لیڈرعمر ایوب‘ سینیٹ اپوزیشن لیڈر شبلی فراز اور دوسرے ارکانِ وفد نے بلوچستان سمیت ملک بھر کے گمشدہ افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔ میں نے چیف جسٹس صاحب کو بتایا کہ گمشدہ افراد ایک وہ ہیں جنہیں قانونی کارروائی کے بجائے غیر قانونی حبسِ بے جا میں رکھا گیا ہے۔ دوسرے وہ جن کے بارے میں شہباز شریف نے عدالت میں جا کر بیان ریکارڈ کروایا کہ اب کسی شہری کو گھر سے نہیں اُٹھایا جائے گا۔ بیرسٹر گوہر نے گم ہونے والے پارلیمنٹیرینز‘ پی ٹی آئی کے ورکرز اور بے گناہ شہریوں کی تفصیل چیف جسٹس صاحب کے سامنے رکھی۔ سادہ لفظوں میں عمران خان کی جانب سے اس ملاقات کی اجازت دینے کا مقصد صرف یہ تھا۔
یہ کیا کہ عدل‘ صاحبِ ثروت ہی پا سکے
زنجیر ایسی ہو کہ ہوا بھی ہِلا سکے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں