صاحبو! اسے کہتے ہیں صلاحیت‘ یہی اہلیت کی معراج بھی ہے۔ 1970/80ء کے عشرے سے لے کر 2025ء تک پاکستان کی لاجواب و بے حساب ترقی کی بنیادی وجہ بھی۔ اسی صلاحیت کو شاعرِ عوام حبیب جالب نے ''ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا‘‘ کہہ کر برسرِ بازار برہنہ کیا تھا۔ خوانِ اقتدار کے بچے کھچے ٹکڑوں کو منزلِ مراد اور مقصدِ حیات سمجھنے والے دانش مند کہتے ہیں کہ جو عمران کے ساتھ ہے‘ جبر و استبداد سے آزادی کی بات کرتا ہے‘ ظلم کو مسترد کرتا ہے اور بندے کو خدا ماننے سے انکاری ہے‘ وہ انتشاری ہے۔ اس ملک کی ترقی کا دشمن بھی۔ ذرا دیکھیے یہ ترقی کہہ کسے رہے ہیں؟ پاکستان عالمی جسٹس سسٹم میں تقریباً 150ویں رینکنگ رکھتا ہے۔ گلوبل انٹرنیٹ سپیڈ رینکنگ میں پاکستان کی پوزیشن198ویں ہے۔ پاکستان کا سبز رنگ پاسپورٹ‘ جنگ زدہ یمن کے برابر کی رینکنگ پرلڑھک آیا ہے۔ ایشیا کے ملکوں کی ترقی پذیر ی کی شرح نمو میں پاکستان ٹاپ پر ہے۔ آپ درست سمجھے ہیں۔ رینکنگ کی اُلٹی گنتی یعنی نیچے سے اوپر کی رینکنگ میں ہم ہیں ٹاپ سکورر۔ سالِ نو میں انجمنِ بندگانِ شکم نے کئی نئے عالمی ریکارڈ بنائے ہیں۔ ان میں سے تقریری اور تصویری مقابلے پر بات کو ادھار رکھ چھوڑتے ہیں۔ چلئے چلتے ہیں سیدھے جیل خانے کی طرف۔ جس کے بار ے میں دانشِ شکم بڑے دور کی کوڑی لائی ہے۔ قید خانے میں نہ کاغذ ہوتا ہے نہ پَتر‘ نہ قلم نہ پنسل۔ نہ ہی لکھنا پڑھنا جیل کی دیوار پھلانگ سکتا ہے۔ اس وجہ سے یہ قیدی نمبر 804 اڈیالہ جیل کے سیل میں بیٹھ کر 30‘ 30صفحات کے خطوط کیسے لکھ سکتا ہے۔ نئی تاریخ دانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جیل کے اندر کوئی ایک لفظ بھی نہیں لکھ سکتا۔ عمران خان کی یہ لمبی تحریریں کہاں سے آگئیں؟ اس تاریخی بحث کے بطن سے کئی سوال اُٹھتے ہیں۔
پہلا سوال‘ عمرانو فوبیا کا باؤلا پن: جو ہمیشہ ہمیشہ سے جابر سلطان سے پوچھ کر کلمۂ حق بیان کرتے چلے آرہے ہیں اگر وہ سیر نامہ لکھیں یا کابین نامہ پڑھیں‘ اس کا اختتام لازماً عمران خان کے نام‘ مشوروں کے طومار پر ہوتا ہے۔ جن خوش خیالوں نے سمندر اور دریا تو کیا کسی ندی میں پیر بھی نہیں ڈبوئے وہ تلاطم خیز موجوں کے عین درمیان پورے قد سے کھڑے کھلاڑی کو سندیسے بھیجتے ہیں کہ سوئمنگ ہم سے سیکھ لو۔ لکھنے کی ضرورت اس لیے نہیں کیونکہ یہ نام مخصوص ہیں۔ تحریریں اس قدر مشکوک کہ ہر موضوع پر جاتے جاتے عمران کی غلطیاں بغرضِ نقدی ضرور گنواتے جاتے ہیں۔ ایک اتالیق نے تو حد کر دی‘ کہنے لگا: افغانستان میں عمران خان کی وجہ سے ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ ناکام ہوئی۔ گویا 1979ء سے 2022ء تک وطنِ عزیز کی افغان پالیسی عمران خان ہی بناتے آرہے تھے۔ کوئی پوچھے یا کوئی بتائے رجیم چینج کے بعد عمران خان ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ ہونے کو ہے کال کوٹھڑی میں بند ہیں۔ کیا تازہ افغان پالیسی بھی عمران خان نے ہی بنائی ہے۔ آج کی رسید کا موضوع جیل خانوں کی سلاخوں کے پیچھے جبراً بند کیے گئے عالی دماغ انسانوں کی داستانِ مزاحمت سے ہے‘ جسے ہم تین زمانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
جیل میں بیٹھ کرمزاحمت کا پہلا زمانہ: قدیم یونان اور روم کی سلطنت میں افلاطون اور سیسرو جیسے لافانی فلسفی لیڈروں کی مثال لے لیں‘ جنہوں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے کھلے خطوط جیل سے باہر بھجوا کر دنیا بھر کی اقوام کے لیے بھڑکتے ہوئے معاشرتی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھائی۔ نہ صرف تاریخ ساز آواز اٹھائی بلکہ ان مسائل کے حل تجویز کیے۔ وہ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہ کر حریت پسند اہلِ علم و قلم کو ہر حال میں مزاحمت کا نیا راستہ دکھا گئے۔ ان دونوں عالی دماغوں کے کھلے خطوط کو نایاب عالمی ادب کے نمونے مانا جاتا ہے۔ ایک اور رومن فلسفی بوئتھیس ہیں‘ جنہوں نے ایامِ اسیری میں ''کونسلیشن آف فلاسفی‘‘ کے عنوان سے پانچ کتابوں کی شاہکار سیریز تحریر کردی۔ اسے صدیوں کا ادب کہا جاتا ہے۔ ''Adventures of Marko Polo‘‘ کی تخلیق بھی جیل میں ہوئی۔ اسیر قیدی لکھاری سپینش ناولسٹ کیرونٹس کی ''ڈان کوائگزوٹ‘‘، والٹر سکاٹ کی تصنیف ''ہسٹری آف ورلڈ‘‘، جان ونیئن کی تصنیف ''پلگرمز پراگرس‘‘، آسکر وائلڈکی کتاب جو ادبی شہ پارہ کہلائی ''ڈی پروفنڈی‘‘ بھی قید کے دوران لکھی گئی۔
جیل میں بیٹھ کرمزاحمت کا دوسرازمانہ: قیامِ پاکستان سے پہلے ابو الکلام آزاد نے غبارِ خاطر لکھی۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا مودودی نے تفہیم القران تحریر کی۔ مولانا محمد علی جوہر نے شاعری لکھی‘ My Lifeکتاب لکھی۔ فیض احمد فیض نے دشتِ صبا کا بڑا حصہ اسیری میں لکھا۔ فیض کا 'زندان نامہ‘ ان کی قید کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حبیب جالب‘ احمد ندیم قاسمی‘ علی سردار جعفری نے جیل میں بیٹھ کر شاعری کی۔ میرے گرائیں راجہ انور نے جیل میں قید کے دوران 'چھوٹی جیل سے بڑی جیل تک‘ کے عنوان سے کتاب لکھی۔
تاریخِ عالم دیکھیں تو الیگزینڈر ڈوماس کی کتاب The Count of Monte Cristo‘ نیلسن منڈیلا کی رابن آئی لینڈ پر قید کے دوران Long Walk to Freedom‘ مہاتما گاندھی کےThe Prison Letters‘ فیڈل کاسترو کی کیوبا قید میں تحریر کتاب The Speech of Dead‘ مارٹن لوتھر کِنگ جونیئر کے Letters from Brimingham Jail‘ فاشسٹ اٹلی کے سیاسی قیدی انتانیو گرامسی کی کتاب The prison Diary اور وِکٹر فرینکل نے آشوٹز نازی جرمنی کے حراستی کیمپ میں Man's search of meaningلکھی۔ والٹر سِسلو نے A Life for Freedomجزیرے پر قید میں تحریر کی۔ میلکم ایکس نے اپنی آٹو بائیو گرافی جیل میں تحریر کی۔
جیل میں بیٹھ کر مزاحمت کا تیسرا زمانہ: یہ زمانہ سال 2023ء سے شروع ہوتا ہے۔ یہ عہدِ عمران ہے جو جیل میں جانے کے بعد ایک دن کے لیے بھی نہ ہسپتال گیا‘ نہ ''جہاز کو عزت دو‘‘ کا مطالبہ کیا اور نہ ہی لوگوں کے دل‘ ڈنڈے سے کھرچنے کے باوجود اسے نکالا جا سکا۔ عمران خان نے اپنے خطوط میں اپنے لیے کچھ نہیں مانگا۔ سیسرو اور افلاطون کی طرح وہ قوم کے معاشرتی حقوق اور ریاستِ پاکستان کے آئینی حقوق کے لیے آواز بلند کر رہا ہے۔ ایسے ہی مردانِ حُر کے لیے عہدِ اورنگزیب کے سب سے بڑے باغی نے کہا تھا:
بلّھے شاہ اساں مرنا ناہیں‘ گور پیا کوئی ہور