"SBA" (space) message & send to 7575

New Provinces, Yes or No…(1)

چند ماہ پہلے یہ لاہور میں ایک گھریلو نشست تھی جس میں ایک بڑے ہسپتال کے طبیبِ اعلیٰ‘ ایک سابق آئی جی پولیس‘ امریکہ سے آئے ہوئے معروف ڈاکٹر اور ہم سب کے عزیزی‘ دو گھنٹے سے زائد کی ڈنر پر گفتگو کے بعد ہوٹل واپس جانے کے لیے گھر سے باہر نکلے تو برادرم میاں عامر محمود نے سبز ہلالی پرچم والا انگریزی مقالہ یا کیس سٹڈی دیا جس کا عنوان ہے ''پاکستان1947ء سے 2023ء تک Why it continues to fail its people‘‘۔ اس سے پہلے عمران خان کی کابینہ کے ایک بزرگ کولیگ رکن عشرت حسین کی طرف سے کتاب ملی Governing the Ungovernable‘ جو زیادہ تر ان کے ذاتی تجربات و مشاہدات تک محدود ہے۔ گورننس کا ماڈل ایک خشک موضوع ہے‘ مسالے دار نہیں بلکہ پسینے چھوڑا دینے والا۔ اس لیے 77سال بعد بھی ملک کو مسلسل ناکامیوں اور مسائل کی کھائی سے نکلنے کا راستہ یعنی Way Forward بتانے والے تحقیقی مقالات آپ کو شاذ ہی ملیں گے۔ زیادہ تر دستیاب مواد ملک کی طرزِ حکمرانی اور مختلف قومی اداروں کی ناکامی پر جاری کیے گئے تنقیدی بیانات اور تحریروں پر مشتمل ہے‘ جو غیر فعال اور چھکڑے کی طرح چلنے والے نظامِ گورننس کے بارے میں صرف تبصرے کی حد تک کارآمد ہوتے ہیں۔
ہفتۂ رفتہ لاہور ہائیکورٹ کے دو مختلف بینچز میں لاء آفس کے مقدمات میں پیش ہونے کے لیے آنا پڑا۔ شام کے وقت برادرم میاں عامر محمود سے تفصیلی گپ شپ ہوئی جس کے موضوعات گھوم پھر کر دو نکات پر مرکوز رہے۔ پہلا یہ کہ کیا موجودہ ایڈمنسٹریٹو سسٹم کی موجودگی میں ملک کا کوئی شعبہ عام لوگوں کے لیے ریلیف کا باعث بن سکتا ہے یا پھر ہمارا کوئی پسماندہ علاقہ دوسرے ترقی پذیر ملکوں کی طرز اور رفتار پر آگے بڑھ سکتا ہے۔ اگلا نکتہ ہے کہ کیا پاکستان کو نئے صوبوں کی ضرورت ہے یا نہیں؟ ہم سب جانتے ہیں کہ نئے صوبے بنانے کا آئیڈیا ایک سیاسی سوال ہے جس کے بارے میں کبھی کسی قومی ادارے یا پارلیمان نے یہ کوشش نہیں کی کہ گورننس کے بحران سے نکلنے کے لیے کوئی درمیانی راستہ تجویز کیا جائے۔ سیاست قوموں کے لیے مواقع تلاش کرنے کی سائنس کا نام ہے۔ ایسے مواقع جو ریاست کے شہریوں کی زندگی میں خوشیاں نہیں توکم از کم آسانیاں لانے کا باعث بن سکیں۔
ان سوالوں کے جوابات کی طرف آنے سے پہلے میں اپنی ذاتی پوزیشن واضح کرنا چاہتا ہوں‘ جو عمومی طور پر پنجاب میں سوشلسٹ کسان تحریک کے اس نعرے سے ملتی جلتی ہے ''پنجاب نئیں، جاگیراں ونڈو‘‘۔ 48 صفحات پر مشتمل اس تھیسس کا خلاصہ اس کے پیراگراف نمبر 41میں مختصراً یوں درج ہے:
The governance of provinces needs urgent re-engineering on two counts. First, the size of a province has to be made right. The present sizes-it has been conclusively proven over decades, are simply untenable for good and effective governance.
قانون کی زبان میں دیکھا جائے تو اوپر درج دونوں سوالوں کے حوالے سے انتہائی بنیادی Issue فریم کیاگیا ہے۔ آئیے اسے تکسیرِ لفظی کے ذریعے آسان زبان میں واضح کرتے ہیں جس کے پہلے حصے میں اس قومی ضرورت کا اظہارملتا ہے کہ وطن عزیز کے وفاق اورصوبوں کے اندر طرزِ حکمرانی اُس درجے تک نیچے آ گری جہاں اس کی فوری Re-engineering کی ضرورت درپیش ہے۔ خاص طور پہ صوبوں کے جغرافیائی سائز کے اندر مساوی اور متوازی سٹریٹجک فیصلے نہیں ہو پا رہے حالانکہ این ایف سی ایوارڈ‘ جو وفاقی یونٹس میں وسائل اور بجٹ کی تقسیم کا فارمولا طے کرتا ہے‘ اس نے بھی بارہا ادھر توجہ دلائی ہے کہ صوبائی حکومتوں پہ قابض حکمران طبقہ اور بیوروکریسی پورے صوبے کا بجٹ اپنی مرضی کے ایک‘ دو شہروں پر نہ لگائے۔ اس بابت باز پرس کا کوئی میکانزم سرے سے موجود ہی نہیں جس کی وجہ سے اٹک اور رحیم یار خان کا موازنہ اور مقابلہ لاہور اور فیصل آباد سے کسی طور نہیں کیا جا سکتا۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ مختلف اضلاع کی آبادی کے تناسب سے ضلعی یونٹ کی سطح پر ترقی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم موجودہ نظامِ حکمرانی میں ہو ہی نہیں سکتی۔
تھیسس کے اسی پیرے میں دوسرا توجہ طلب پہلو کہتا ہے کہ صوبائی حکومتوں کے موجودہ سائز نے حتمی طور پر عشروں کے تجربات کے بعد گڈ گورننس میں مسلسل ناکامی ثابت کر چھوڑی ہے۔ ساتھ یہ بھی طے ہو گیا کہ صوبائی حکومتوں کے اس حجم میں مؤثر گورننس یا اچھی گورننس کا خواب پورا نہیں ہو گا۔ یاددہانی کے لیے عرض ہے کہ ایک سے زیادہ مرتبہ صوبہ پنجاب جہاں سب سے بے ڈھنگا طرزِ حکمرانی ہے‘ صوبہ سندھ جہاں طرزِ حکمرانی پہ سب سے زیادہ سوال اٹھائے جاتے ہیں‘ صوبہ بلوچستان جہاں گورننس برائے نا م باقی ہے اور خیبر پختونخوا جہاں پچھلے چار عشروں سے مغربی سرحد پر مسلسل جنگ کا ماحول چلا آرہا ہے‘ اس میں بہتری لانا موجودہ صوبائی ڈھانچے کے بس میں بالکل بھی نہیں ہے۔
اب آئیے حکمرانی کے ان سات اساسی Toolsکی طرف جنہیں بنیاد بنا کر ماڈرن ریاست میں طرزِ حکمرانی کا ماڈل بیان ہوا ہے‘ جنہیں تھیسس کے مطابق درج ذیل سات حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ (1) پبلک ویلفیئر۔ (2) لاء اینڈ آرڈرکا قیام۔ (3) سوشل ویلفیئر۔ (4) انصاف کے لیے رُول آف لاء کا قیام۔ (5) معاشی بہتری۔ (6) پولیٹکل ویلفیئر۔ (7) ریاست کی حفاظت۔
جدید طرزِ حکمرانی کے ان سات نکات میں سے چھ نکات کا تعلق براہِ راست عوام کے لیے خوشی اور خوشحالی‘ معاشی اور معاشرتی ترقی‘ صحت مند زندگی‘ پبلک کے ووٹوں سے منتخب کیے گئے نمائندے کے ذریعے عوامی راج‘ انفرادی‘ گروہی اور ریاستی تشدد کے خلاف شہریوں کی حفاظت اور بے لاگ انصاف کے نظام کو بنیادی انسانی ضرورت کے زمرے میں ڈالا جا سکتا ہے۔ اگر ریاست آٹو کریٹک یا سکیورٹی سٹیٹ ماڈل کو بطورِ نظام اپنے لیے چن لے تو اس کا صرف ایک ہی نتیجہ نکلے گا۔ ریاست میں سے عوام مائنس ہو جائیں گے۔ طاقتور طبقات وسائل اور اقتدار‘ دونوں کو اپنی مرضی سے استعمال میں لائیں گے۔ اس موضوع پر دو آئیڈیاز حساس نوعیت کے حامل ہیں۔
پہلا حساس معاملہ: صوبوں کی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل کرنا آئینی طور پر پیچیدہ اور سیاسی طور پر انتہائی حساس معاملہ بن چکا ہے۔ تھیسس سے اس سیاسی حساسیت کا ادراک ظاہر ہوتا ہے۔ ویسے بھی لوکل گورنمنٹ کا مؤثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے عوام کے روزانہ کے مسائل بار بار اُن سروس پرووائیڈر سرکاری ملازموں اور اہلکاروں کے سامنے پیش ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ پبلک کی جیب میں ڈالے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی ڈیٹا اکٹھا کرے تو ظاہر ہو جائے گا کہ یہی حلقے ریاست سے پبلک کو مایوس کرنے کے جنرل آرڈر سپلائر بھی ہیں۔ (جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں