پاکستان کے حالات اطمینان بخش نہیں! بلوچستان ایک خطرناک اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ بھارت ہماری غلط پالیسیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر اعلانیہ مداخلت کر رہا ہے۔ اربوں روپے جھونک رہا ہے۔ افغانستان سے مسلسل در اندازی ہو رہی ہے۔ ہمارے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ دن رات لاشوں کا کاروبار ہو رہا ہے۔ عوام خوف زدہ ہیں۔ بیرونی دنیا نے ہم پر کیمرے لگا رکھے ہیں۔ غیر ملکی مبصر لمحہ لمحہ دیکھ رہے ہیں۔ جانچ رہے ہیں۔ اسلام آباد میں تعینات سفیر روزانہ کی بنیاد پر رپورٹیں اپنے اپنے ملک کو ارسال کر رہے ہیں۔
خدا نخواستہ آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ ہماری حکومت‘ ہمارے ادارے اور ہمارے منتخب ایوان اس نازک صورتحال سے بے خبر ہیں! خدا نہ کرے ایسا ہو! یہ ناممکن ہے کہ حکومت‘ ادارے اور منتخب نمائندے اس صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ تین ایسے اقدام‘ چند روز پہلے اٹھائے گئے ہیں جو بگڑے ہوئے حالات کو یوں ٹھیک کریں گے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے‘ جیسے اجوائن پیٹ کے درد کو ختم کر دیتی ہے اور جیسے تلوار گلے کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ پہلا قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ وفاقی وزیروں کی تنخواہیں ایک سو اٹھاسی فیصد بڑھا دی گئی ہیں۔ پہلے دو لاکھ کے لگ بھگ لے رہا تھا ایک وفاقی وزیر! اب سوا پانچ لاکھ لے گا۔ چونکہ یہ تنخواہیں عوام کا پیٹ کاٹ کر ادا کی جائیں گی اس لیے اسے عوام کی طرف سے صدقہ خیرات سمجھا جائے گا۔ اس وقت ہمارے وفاقی وزیروں جتنا مفلس اور قلاش کوئی نہیں۔ کچھ بداندیش کہہ رہے ہیں کہ یہ سب ارب پتی ہیں اور کروڑوں روپے الیکشن پر لگا کر ایوان میں پہنچے ہیں‘ یہ کہ ان میں وڈیرے ہیں‘ صنعتکار ہیں‘ اور یہ کہ یہ پہلے ہی مراعات سے لدے پھندے ہیں۔ ایسی باتیں صرف وہ لوگ کر رہے ہیں جنہیں ملکی سلامتی کی پروا نہیں! سچ یہ ہے کہ وفاقی وزیر بیچارے‘ تمام کے تمام‘ افلاس زدہ ہیں۔ بچے ان کے خیراتی سکولوں میں تعلیم پا رہے ہیں۔ روٹیاں ان کی لنگروں‘ مزاروں‘ درباروں سے آتی ہیں اور اُن دسترخوانوں سے جو فی سبیل اللہ قائم ہیں اور طعام المسکین کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ وزرا پہلے ہی قوم کے لیے بے انتہا قربانیاں دے رہے ہیں۔ سرکاری گاڑیاں بھی نہیں لی ہوئیں۔ پٹرول بھی جیب سے ڈلواتے ہیں۔ سب اپنے ذاتی گھروں میں رہتے ہیں۔ یہ تنخواہ ان کی مشقت بھری‘ افلاس زدہ زندگی کو تھوڑا سا سکون دے گی۔ بچے دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر کھا سکیں گے۔ یوں بھی انصاف کیجیے‘ سوا پانچ لاکھ روپے کی وقعت ہی کیا ہے؟ اس سے زیادہ تو ایک مزدور یا ریڑھی والا ایک دن میں کما لیتا ہے۔ قوم کو چاہیے کہ قومی اسمبلی کو اس زبردست اقدام پر سلام پیش کرے! یہ ملک پر ایک احسانِ عظیم ہے! ایک ایسا احسان جسے آئندہ نسلیں فخر سے یاد کریں گی۔ تاریخ میں اس اقدام کا ذکر سنہری الفاظ میں ہو گا۔
دوسرا انقلابی قدم جو اٹھایا گیا ہے‘ پہلے سے بھی زیادہ طلسمی ہے اور رہتی دنیا تک یاد رہ جانے والا۔ جنوبی پنجاب کے ایک تعلیمی ادارے میں ایک استاد (یا چند اساتذہ) اور طالبات نے قوالی پر دھمال ڈالا۔ قوالی اور دھمال؟ جی ہاں! متعلقہ حکام نے اس وطن دشمن سرگرمی کا فوری نوٹس لیا اور دھمالیوں کے خلاف سخت ایکشن لیا۔ اصل میں اس قوالی اور اس دھمال سے ملکی حالات خراب سے خراب تر ہونے کا احتمال تھا۔ اس سے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے زیادہ طاقتور ہو سکتے تھے۔ اس سے بھارت کی دفاعی اور سفارتی قوت میں بھی اضافہ ہو سکتا تھا۔ اس قوالی اور اس تباہ کن دھمال سے امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات میں رخنہ پڑ سکتا تھا۔ ترکیہ اور چین بھی‘ جو ہمارے قریبی دوست ہیں‘ ناراض ہو سکتے تھے۔ جاپان بھی بدظن ہو سکتا تھا۔ خدائے برتر کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس خانہ خرابی کے خلاف بروقت ایکشن لیا گیا اور دشمنوں کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ حکومت سے ہماری مخلصانہ اور عاجزانہ التماس ہے کہ مزاروں اور عرسوں پر منعقد ہونے والی قوالیوں اور دھمال پر بھی پابندی لگائے کیونکہ جو سرگرمی ایک جگہ ناجائز ہو سکتی ہے‘ وہ دوسری جگہ جائز کیسے ہو سکتی ہے؟ سیہون شریف اور دوسری درگاہوں پر برپا ہونے والی قوالیوں اور دھمالوں کا بھی فی الفور نوٹس لیا جائے۔ ہماری تصوف کی کتابوں میں جا بجا لکھا ہے کہ صوفیائے کرام سماع پر رقص کرتے تھے۔ یہ رقص دھمال ہی تو ہوتا تھا۔ اور یہ دھمال رقص ہی تو ہے۔ ہم پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسی تمام کتابوں کی اشاعت اور خرید وفروخت پر پابندی لگائی جائے۔ کیونکہ اگر سماع اور دھمال خلافِ قانون ہے تو ان کتابوں کی تشہیر کیسے جائز ہو سکتی ہے۔ اور یہ جو شادیوں اور مہندیوں کی خالص گھریلو تقریبات میں رقص کیا جاتا ہے یعنی دھمال ڈالا جاتا ہے اسے بھی حکماً اور قانوناً بند کرایا جائے۔ مہندی کی تقریبات میں ہونے والا رقص تو بدرجہ اتم خطرناک ہے کیونکہ اس میں گھر کی اور باہر کی خواتین بھی شامل ہوتی ہیں اور مرد بھی! یہ تو سوسائٹی کے لیے زہر قاتل ہے۔ اس کی سزا عبرتناک ہونی چاہیے اور سبق آموز! اب یہ بھی سنیے کہ اس ہولناک جرم کے مرتکب افراد کو بروقت سزا دینے کے نتائج کیا ہوئے؟ آپ کو یہ جان کر مسرت ہو گی کہ ملک دشمن سرگرمیوں میں معتد بہ کمی واقع ہوئی ہے۔ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کی بندوقوں کو فوراً زنگ لگ گیا۔ بھارت کی توپوں میں کیڑے پڑ گئے۔ مودی کو تو دل کا دورہ پڑنے لگا تھا۔ ٹرمپ نے ہمارے حکمرانوں کو تحسین سے بھرا خط لکھا۔ برازیل اور ارجنٹائن میں ان حکام کے مجسمے بنا کر چوکوں پر رکھے گئے ہیں جنہوں نے اس صوفیانہ سرگرمی کے خلاف ایکشن لیا۔
اب دل تھام کر بیٹھیے! ہم تیسرے انقلابی اقدام کا ذکر کرنے لگے ہیں۔ کمزور دل یہ نہ پڑھیں‘ کیونکہ اس اقدام سے پاکستان کے دشمنوں پر ہول طاری ہو گیا ہے۔ وزیراعظم سعودی عرب کے دورے پر گئے تو ایک صوبے کی وزیراعلیٰ کو ساتھ لے گئے اور باقی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو ساتھ نہیں لے کر گئے۔ شہزادہ ایم بی ایس کے ساتھ جو خالص سرکاری میٹنگ ہوئی اس میں وزیر اعظم کے ساتھ نائب وزیراعظم کے علاوہ ایک صوبے کی وزیراعلیٰ بھی تھیں۔ یہ ایسا زبردست اقدام ہے جو قومی یکجہتی کو دوچند کرے گا اور صوبوں اور وفاق کے درمیان محبت میں اضافہ کرے گا۔ رموزِ مملکتِ خویش خسروان دانند! ہو سکتا ہے ولی عہد کے ساتھ ہونے والی گفتگو اتنی حساس ہو اور اتنی سیکرٹ ہو کہ صرف ایک صوبے کی حکمران ہی کو اس میں شامل کیا جا سکتا تھا۔
پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ دہشت گردی کا ناسور رِس رہا ہے۔ بلوچستان ملک دشمن سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ ایسے میں اگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ یکساں سلوک رکھا جاتا تو دشمن اس سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ یہ ہماری حکومت کا کمال کا Vision ہے اور حد درجہ دور اندیشی! یہ تدبّر اور حکمت کی انتہا ہے! روشن ترین پہلو اس اقدام کا یہ ہے کہ وزیراعظم پر کوئی شخص اقربا پروری کا الزام نہیں لگا سکتا! جس صوبے کی حکمرانِ اعلیٰ کو وہ ساتھ لے گئے اس سے ان کا دور دور تک کوئی رشتہ نہ تھا۔ بلکہ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ان کے قریبی اعزہ تھے۔ اگر وہ انہیں بھی اس دورے پر ساتھ لے جاتے تو ان پر الزام لگتا کہ رشتہ داروں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں! الحمدللہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ہمارے حکمران حد درجہ محتاط ہیں۔ وہ کوئی ایسا کام کرتے ہی نہیں جس پر لوگ انگلیاں اٹھا سکیں!! بس قوم کی یہ خواہش ہے کہ ایسے مزید اقدام بھی اٹھائے جائیں!!