بھٹی صاحب اور حضرت مولانا

ہمارے محترم دوست جناب ارشاد بھٹی نے حضرت مولانا طارق جمیل کا تفصیلی انٹر ویو کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کام کر کے انہوں نے نیکی کی ہے۔ مولانا صاحب کی خدمات گراں قدر ہیں۔ لاکھوں‘ کروڑوں مسلمان ان کے بیانات سنتے ہیں۔ فرقہ واریت کے اس دور میں حضرت مولانا مسلسل اتحادِ امت کی تلقین کر رہے ہیں۔ ان کا ہر جگہ یہی پیغام ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے نفرت نہ کرو‘ آپس میں محبت سے پیش آؤ۔ کسی کو کافر یا جہنمی نہ کہو۔ ان کی یہ بات دلچسپ بھی ہے اور قیمتی بھی کہ جنت بہت بڑی ہے۔ دوسروں کو بھی جنت میں آنے دو۔ کسی کی جگہ کم نہ ہو گی۔ سچ یہ ہے کہ اس زمانے میں جب کچھ یوٹیوبر فخر سے کہہ رہے ہیں کہ وہ تو بات ہی اختلافی مسائل پر کرتے ہیں‘ مولانا طارق جمیل کا اختلافی مسائل سے گریز کرنا اور محبت پر زور دینا بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔ ان کی ایک اور بڑی خدمت ان کی تالیف کردہ کتاب ''گلدستۂ اہلِ بیت‘‘ ہے۔ اس میں آقائے دو جہانﷺ کی ازواجِ مطہرات اور ان کی اولاد کے حالاتِ زندگی ہیں۔ اسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں نے اہلِ بیت کے ساتھ کیا کیا ظلم کیے۔ بدقسمتی سے ہم سُنیوں میں سے بہت سے لوگ ان تفصیلات سے ناواقف ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ اہلِ بیت کی محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے‘ خواہ وہ کسی بھی فرقے سے ہو!
مولانا پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ان کا میعارِ زندگی امیرانہ ہے اور وہ بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرتے ہیں۔ یہ بھی ہمارے ذہنوں میں ایک عجیب Paradox ہے! ہم یہ فرض کیے بیٹھے ہیں کہ جو بھی واعظ یا مولانا ہو گا اسے غریب ہی ہونا چاہیے۔ وہ ہمارا محتاج ہی ہو۔ ہم کسی مولانا کو بڑی گاڑی میں دیکھیں یا اس کی خوش لباسی دیکھیں تو فوراً اس کے لیے ''نیب‘‘ بن جاتے ہیں! علما میں سے ہمارے دو بزرگ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور مولانا احتشام الحق تھانوی حد درجہ خوش لباس تھے۔ مولانا طارق جمیل نے ارشاد بھٹی صا حب کو اپنے خاندانی بیک گراؤ نڈ کی تفصیل بتائی کہ وہ کئی نسلوں سے آسودہ حال ہیں۔ جب وہ یہ تفصیل بتا رہے تھے تو کچھ کچھ احساسِ تفاخر بھی جھلک رہا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قدرتی ہے اور فطری!! جب ہم بتا رہے ہوں کہ ہمارے آبائو اجداد بڑے لوگ تھے تو احساسِ تفاخر کا آجانا بشری تقاضا ہے۔ اگر حضرت مولانا سخت class conscious ہیں تو اس میں اعتراض کی بات کوئی نہیں! اللہ ہم سب کو آسودہ حال کرے۔
بھٹی صاحب نے سوالات کھل کر کیے اور دلیری سے کیے۔ ایک اچھے صحافی کا یہی کام ہے۔ کچھ سوالات ہمارے ذہن میں بھی ہیں۔ اگرچہ ہم اُس دلیری سے پوچھنے کی ہمت نہیں رکھتے جو بھٹی صاحب میں ہے! بھٹی صاحب ایک طاقتور راجپوت ہیں اور ہم نحیف اور کمزور اعوان! اس لیے حضرت مولانا سے جو سوالات پوچھیں گے فروتنی سے پوچھنے کی جسارت کریں گے۔ سچ یہ ہے کہ بھٹی صاحب کا انٹرویو دیکھ کر ہی ہمیں بھی ہمت ہوئی ہے۔ حضرت مولانا نے فرمایا کہ پرتھوی راج کو سلطان محمد غوری نے 1442ء میں شکست دی اور وہ قتل ہوا۔ ایسا نہیں ہے۔ سلطان محمد غوری کی وفات 1206ء میں ہو چکی تھی جس کے بعد قطب الدین ایبک نے خود مختاری کا اعلان کر دیا تھا۔ اصل میں سلطان محمد غوری نے پرتھوی راج کو 1192ء میں شکست دی تھی اور وہ قتل ہوا تھا۔ 1442ء میں تو محمد غوری کی وفات کو دو سو چھتیس برس گزر چکے تھے۔ اس وقت دہلی کے تخت پر سید خاندان کی حکومت تھی اور سلطان محمد شاہ بادشاہ تھا۔ حضرت مولانا نے فرمایا کہ چوہان راجپوتوں کی حکومت ہندوستان میں چھ سو سال رہی۔ گزارش ہے کہ اس کی کوئی سند یا حوالہ؟ سند یا حوالے سے یاد آیا کہ جب بھٹی صاحب نے ''لاعبہ‘‘ والی حدیث کا راوی پوچھا تو حضرت مولانا نے جواب دیا: ''میں کوئی یاد کر کے تو نہیں بیٹھا‘‘۔ لاعبہ والا قصہ مولانا یوں بیان فرماتے ہیں کہ جنت کی لڑکی ہے جسے دیکھ کر کلیجے پھٹ جائیں گے۔ ایک مسکراہٹ سے سب مر جائیں گے۔ قد اتنے فٹ ہو گا۔ گزارش ہے کہ ہم جیسے عقیدت مند تو آپ پر اندھا یقین رکھتے ہیں۔ اگر آپ فرمائیں گے کہ حور کا قد ایک لاکھ فٹ ہو گا تو ہم آمنا وصدقنا کہیں گے لیکن حضرت! پرابلم یہ ہے کہ اب پانچویں جماعت کے بچے بھی ثبوت اور حوالہ طلب کرتے ہیں۔ ہارون الرشید ہر روز سو نفل پڑھتا تھا۔ اس کا بھی حوالہ مرحمت فرما دیجیے۔ حوروں کی جسمانی تفصیلات چونکہ آپ کے مواعظ کا مرکزی نکتہ ہوتا ہے‘ اس لیے لازم ہے کہ جناب کے پاس حوالہ اور سند ہونی چاہیے تا کہ کسی کو اعتراض کا موقع نہ ملے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ضعیف احادیث واقعات اور فضائل میں معتبر ہیں۔ یہ کس کا فیصلہ ہے؟ ظاہر ہے ضعیف حدیث صحیح حدیث جتنی معتبر نہیں ہے‘ سو فیصد یقین نہیں ہے کہ ضعیف حدیث والی بات آقاﷺ نے فرمائی ہو گی۔ مگر آپ بہت اعتماد کے ساتھ کہہ دیتے ہیں کہ لاعبہ اور حوروں کے بارے میں دیگر عجائبات رسول اکرمﷺ نے فرمائے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب صحیح احادیث سینکڑوں ہزاروں موجود ہیں تو ضعیف احادیث بیان کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ سنسنی پھیلانے کے کئی طریقے اور بھی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ آپ کی باتیں من گھڑت ہوتیں تو کیا اللہ چھ بر اعظموں میں پھیلنے دیتا۔ درست فرمایا۔ ویسے امریکہ اور اسرائیل کے ذرائع ابلاغ بھی چھ بر اعظموں میں اپنے مطلب کی باتیں پھیلا رہے ہیں۔ مسیحی پادری تو دو سو سال پہلے ہی چھ براعظموں میں‘ پاناما سے لے کر نیوزی لینڈ تک تبلیغ کر رہے تھے۔ تو کیا ان کی باتیں بھی من گھڑت نہیں ہیں؟ ویسے حضرت مولانا کی جرأت کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ آپ نے تبلیغی جماعت کی نصابی کتاب فضائل اعمال کے بارے میں صاف کہا کہ اس میں ''واقعات بے بنیاد ہیں۔ فضول باتیں ہیں اور میں انہیں رد کرتا ہوں‘‘۔ یہ حضرت کے صدقِ مقال کی مثال ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک اور معاملے میں بھی حضرت کی رہنمائی مطلوب ہے۔ حجامہ سے متعلق مولانا کے کلپ وائرل ہیں۔ پچیس لاکھ سے زیادہ لوگ اسے دیکھ چکے ہیں۔ اس میں آپ نے تلقین کی ہے کہ حجامہ کراؤ۔ یہ ''تمہیں ڈاکٹروں سے نجات دے گا‘‘۔ مگر حضرت مولانا خود تکلیف کے وقت ہسپتال جاتے رہے۔ دل میں سٹنٹ ڈلوائے۔ حجامہ اگر ستر بیماریوں کا علاج ہے تو دل کی بیماری بھی اس میں شامل ہو گی۔ آپ کا بیان ہے کہ معراج کی رات ہر آسمان پر فرشتوں نے آپ کو حجامہ کی تلقین کی۔ اس کا ریفرنس بھی عطا فرمائیے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے حجامہ کروایا اور اپنا خون جو پیالے میں تھا‘ عبد اللہؓ بن زبیر کو دیا کہ دفن کر دیں مگر عبدللہؓ بن زبیر نے اسے پی لیا۔ یہ روایت کس کتاب میں ہے‘ رہنمائی فرمائیے!
اور ہاں حضرت! وہ شعر (غم عاشقی ترا شکریہ! میں کہاں کہاں سے گزر گیا) پروین شاکر کا ہر گز نہیں ہے۔ یہ عرش ملسیانی سے منسوب ہے!! آخر میں بصد احترام سعدی کا شعر نذرانے کے طور پر پیش خدمت ہے۔ ہر بیشہ گماں مبر کہ خالیست۔ شاید کہ پلنگ خفتہ باشد! چونکہ صرف جناب کے لیے ہے‘ اس لیے اس کا ترجمہ دینے کی ضرورت نہیں!!!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں