ایک بہت ہی محترم عالمِ دین نے‘ جو طویل عرصہ تک رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ بھی رہے‘ بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس سے خطاب کیا ہے اور ایک ایسی تجویز پیش کی ہے جو بلامبالغہ بہت قیمتی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اقلیت کا لفظ دستور سے حذف کر دیا جائے!
ہم خود ایک عرصہ سے یہی رونا رو رہے ہیں کہ جب سب پاکستانی ہیں‘ سب کے پاس ایک جیسا پاسپورٹ ہے‘ سب ایک جیسے ٹیکس اور محصولات ادا کرتے ہیں تو پھر کچھ پاکستانیوں کے گلے میں اقلیت کا بورڈ کیوں لٹکا دیا گیا ہے؟ حضرتِ مکرّم کی یہ تجویز ہمیں ترقی یافتہ جمہوری ملکوں کے برابر لا کھڑا کرے گی۔ غور کیجیے کہ اس وقت کروڑوں مسلمان‘ ہندو‘ سکھ ان ملکوں میں آباد ہیں جو بنیادی طور پر مسیحی ممالک ہیں۔ اکثریت ان ملکوں میں مسیحیوں کی ہے مگر کسی غیر مسیحی کے لیے اقلیت کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا۔ امریکہ ہو یا یورپ‘ آسٹریلیا ہو یا نیوزی لینڈ یا جاپان‘ مذہب کی بنیاد پر کسی کو اقلیت نہیں قرار دیا جاتا۔ ہاں! بھارت میں اقلیت کا لفظ ضرور استعمال ہوتا ہے۔ صدیوں سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بھارت میں اقلیت قرار دے کر ان سے برابری کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ ایک مسلمان‘ ہندو کے برابر کس طرح ہو سکتا ہے جب اس کے نام کے ساتھ اقلیت کی دُم لگی ہوئی ہو۔ محترم عالم دین کی یہ تجویز کہ اقلیت کے لفظ کو آئین سے ہٹا دیا جائے‘ آنِ واحد میں ہمیں تہذیبی‘ جمہوری‘ ثقافتی اور انسانی لحاظ سے بھارت پر برتری بخشے گی! اور جمہوری ملکوں کے ساتھ کھڑا کر دے گی۔
محترم عالم دین نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ دستور میں مسلم پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانی کی اصطلاحات ڈالی جائیں! ہم اس تجویز کو بھی سراہتے ہیں اور اس کا استقبال مسرت سے کرتے ہیں! امید ہے کہ ایک بار ہم نے اپنے دستور میں یہ عظیم الشان تبدیلی کر دی تو بھارت بھی اس کی تقلید کرے گا۔ ہم جس طرح مسیحی‘ ہندو اور سکھ پاکستانیوں کو غیر مسلم پاکستانی قرار دیں گے بھارت بھی مسلمانوں کو ''غیر ہندو‘‘ یا ''نان ہندو‘‘ انڈین کا خطاب دے گا۔ وہ مسلمان کے نام سے کم اور نان ہندو کے نام سے زیادہ پہچانے جائیں گے۔ امید ہے اس امتیازی نشان سے بھارتی مسلمانوں کی تکالیف اور آزمائشیں بہت حد تک کم ہو جائیں گی! اندازہ لگائیے‘ مسلمان کے بجائے جب کسی بھارتی مسلمان کو کہا جائے گا ''اوئے نان ہندو! تو ہندوئوں کے ساتھ کیوں کھڑا یا بیٹھا ہے؟‘‘ تو وہ کتنا خوش ہو گا اور پاکستان کو کتنی دعائیں دے گا!!
ہمیں یقین ہے کہ اس انقلابی اصطلاح کو امریکہ بھی اپنائے گا‘ کیونکہ امریکہ ہر اچھی شے پر اپنی ملکیت جتاتا ہے۔ اس زبردست آئیڈیا سے وہ کیسے ناواقف یا بے نیاز رہے گا؟ امریکہ میں جتنے مسلمان ہوں گے انہیں ''نان کرسچین‘‘ (غیر مسیحی) کہا جانے لگے گا! اب تک تو وہ صرف امریکی تھے۔ کسی موقع پر بھی ان سے مذہب کا نام نہیں پوچھا جاتا تھا۔ مگر اب پاکستان کی تقلید میں جب وہ نان کرسچین کہلائیں گے تو ان کا غیر مسیحی ہونا ہر جگہ نمایاں ہوگا۔ وہ دوسروں سے مختلف سمجھے جائیں گے۔ اکثریت میں شمار نہیں ہوں گے۔ اس سے بہت سی سماجی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ مثال کے طور امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کا بڑا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا دی ہے۔ انہیں دوسرے امریکیوں کی طرح ہی امریکی سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کوئی تفصیل پوچھے تو بتایا جاتا ہے کہ یہ پاکستانی نژاد ڈاکٹر ہے۔ مگر جب پاکستان کی تقلید میں نان کرسچین کی ا صطلاح استعمال ہو گی تو مریض کو اور اس کے لواحقین کو بتایا جائے گا کہ یہ ''نان کرسچین‘‘ ڈاکٹر ہے۔ اس سے مریض لامحالہ یہ سوچے گا کہ وہ یعنی مریض تو کرسچین ہے جبکہ ڈاکٹر نان کرسچین! اس سے یہ سوچ بھی پیدا ہو سکتی ہے اور یقینا پیدا ہو گی کہ کیوں نہ کرسچین ڈاکٹر سے علاج کرایا جائے۔ کروڑوں مسلمان یورپ میں بھی بس رہے ہیں۔ یورپ کے تمام ملکوں میں (بوسنیا اور البانیہ وغیرہ کو چھوڑ کر) اکثریت مسیحیوں کی ہے۔ چنانچہ پورے یورپ میں مسلمانوں کو نان کرسچین کہا جائے گا۔ یہی حال آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہو گا۔ ہاں ایک بات کا امکان ضرور ہے۔ جو مسلمان پاکستانی نہیں‘ وہ امریکی اور دوسری حکومتوں سے کہہ سکتے ہیں کہ صرف پاکستانی مسلمانوں کو نان کرسچین کہہ کر پکارا جائے کیونکہ اس اصطلاح کا سہرا پاکستان کے سر ہے۔ یہ تفریق ترکوں‘ ایرانیوں عربوں اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ نہ برتی جائے۔
آئین میں جب مسلم پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانی کی اصطلاح داخل ہو گی تو مذہبی ہم آہنگی میں یقینا اضافہ ہوگا‘ اسی لیے محترم مولانا صاحب نے یہ بے مثال تجویز اُس کانفرنس میں پیش کی جو مذہبی ہم آہنگی ہی کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ بہرطور مقطع میں ایک چھوٹی سی سخن گسترانہ بات پڑ سکتی ہے۔ غیر مسلموں کو غیر مسلم پاکستانی قرار دینے میں تو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ ہندو واضح طور پر ہندو ہو گا‘ سکھ اور مسیحی بھی کسی شک کے بغیر سکھ اور مسیحی ہوں گے! دوسرے غیر مسلم گروہوں کو بھی غیر مسلم کہنے یا قرار دینے میں کوئی مسئلہ آڑے نہ آئے گا۔ مشکل اس وقت پیش آئے گی جب کسی مسلمان کو مسلم پاکستانی کہنے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں مسلمانوں کے ہر فرقے نے کسی نہ کسی وقت‘ کسی نہ کسی موقع پر‘ دوسرے فرقے کو کافر کہا ہے۔ اس میں کوئی شک ہے نہ مبالغہ۔ ہر فرقے کے معتبر علما کی کتابیں موجود ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ فلاں فرقہ کافر ہے۔ پکے پکے حوالے موجود ہیں۔ تفصیلات میں جانے کا موقع ہے نہ ایسا کرنا مناسب ہے۔ نہ ہی فرقوں کا نام لینا کوئی خوش آئند بات ہو گی۔ تکفیر ہمارے مذہبی حلقوں کے حوالے سے ایک ناقابل تردید حقیقت رہی ہے اور بدستور ہے! مختلف شخصیات کو بھی معتبر علما کافر قرار دیتے رہے ہیں۔ سر سید احمد خان سے لے کر مولانا مودودی اور غلام احمد پرویز تک‘ بہت سی مشہور شخصیات پر کفر کے فتوے لگے ہیں! قائد اعظم اور علامہ اقبال پر بھی کفر کے فتوے لگے ہیں۔ اگر دونوں ہستیاں آج حیات ہوتیں تو دستور میں مجوزہ اصطلاح ڈالنے کے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا؟ ہم میں سے کچھ حرمین شریفین میں جا کر بھی نماز باجماعت نہیں پڑھتے۔ وجہ ظاہر ہے کہ جماعت کرانے والوں کو مسلمان نہیں سمجھا جاتا۔ ورنہ مسلمان کی نماز تو مسلمان کے پیچھے ہو جاتی ہے۔ تو ایسے میں اگر کوئی عدالت میں چلا گیا کہ فلاں شخص یا فلاں فرقہ کافر ہے اس لیے اسے مسلم پاکستانی کے بجائے غیر مسلم پاکستانی کہا جائے تو مسئلہ کس طرح حل ہو گا؟ اور عدالت کس فریق کے علما کی بات مانے گی؟
محترم عالم دین نے یہ بھی فرمایا ہے کہ پاکستان میں غیر مسلموں کو جتنے حقوق حاصل ہیں دنیا میں کہیں نہیں ہیں۔ ہم اس دعوے کی پُرزور تائید کرتے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں کہ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کی تردید نہیں کی جا سکتی! سیالکوٹ میں جس طرح سری لنکن کو مارا اور جلایا گیا وہ اس کا حق ہی تو تھا! اگست 2023ء میں جڑانوالہ میں غیر مسلموں کے خلاف ہنگامہ ہوا جس میں بیس چرچ اور اسّی سے زیادہ مکان تباہ کر دیے گئے۔ جون 2024ء میں سرگودھا میں ایک ستر سالہ پاکستانی کی جوتے بنانے والی فیکٹری اور اس کا گھر جلا دیے گئے۔ 2009ء میں گوجرہ میں چھ غیر مسلم قتل اور درجنوں گھر نذرِ آتش کر دیے گئے۔ یہ سب وہ حقوق ہیں جو غیر مسلموں کو پاکستان میں حاصل ہیں اور ''جو دنیا میں کہیں نہیں‘‘۔