پروفیسر صاحبہ ایک بڑی اور شاندار یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ ایک علمی خاندان کی چشم و چراغ ہیں۔ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ منطق اور دانش سے تعلق ہے۔ چند دن پہلے ان کی ایک پوسٹ دیکھی۔ پوسٹ کا مضمون یہ تھا کہ غزہ کے نام پر احتجاج ہو رہا ہے۔ ٹریفک بلاک ہے اور زندگی منجمد! اس میں جھوٹ تھا نہ مبالغہ! اس کالم نگار نے اس پوسٹ کو شیئر کیا۔ اس پر کچھ احباب نے باقاعدہ عزا داری کی۔ دکھ کا اظہار کیا۔ ایک پوائنٹ یہ بھی نکالا گیا کہ ''آپ حضرات کو تکلیف ہو رہی ہے؟ یہی مقصد ہے کہ آپ کو اہلِ غزہ کی تکلیف کا احساس دلایا جائے‘‘۔
اصل سوال اور ہے۔ وہ یہ کہ کیا کسی بھی صورتحال میں راستے بند کیے جا سکتے ہیں؟ یہ کامن سینس کا بھی مسئلہ ہے۔ اور اگر مذہب کا حوالہ درکار ہو تو احادیث میں راستہ بند کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ راستے بند کرنے سے اور ٹریفک کو معطل کرنے سے اہلِ غزہ کو کیا فائدہ ہے؟ اگر میرا راستہ بند ہونے سے اسرائیل کو شکست ہوتی ہے اور غزہ کے بچوں کو آزادی مل سکتی ہے اور خوراک بھی تو بے شک میرا راستہ مہینوں نہیں‘ برسوں بند رکھیے۔ میرے لیے اس سے بڑی سعادت کیا ہو گی! لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اہلِ غزہ کو اس سے رتی بھر فائدہ نہیں ہو گا۔ ہو سکتا بھی نہیں! آپ پاکستان کی تمام شاہراہیں بند کر دیجئے۔ پانچ کروڑ افراد گھروں سے باہر نکال لائیے۔ اسرائیل کو رتی بھر نقصان نہیں پہنچے گا اور اہلِ غزہ کو رمق بھر فائدہ نہیں ہو گا۔ ہاں آپ کی تصویریں میڈیا پر ضرور ظاہر ہوں گی۔ آپ کی جوشیلی تقریروں کے وڈیو کلپ بھی بنیں گے! آپ کو شہرت ملے گی اور اگر پہلے سے مشہور ہیں تو مزید مشہور ہو جائیں گے۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مذہبی تنظیمیں بھی تو راستے بلاک کرتی ہیں۔ اور حکمرانوں کے لیے روٹ بھی تو لگتے ہیں۔ تو بھائی!! کون ذی عقل ان کی تائید کر سکتا ہے؟ مذہبی تنظیموں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ راستے بلاک کریں۔ مکہ مکرمہ میں جب کفار مسلمان مردوں اور خواتین پر ظلم کے پہاڑ توڑتے تھے تو کیا مدینہ منورہ کے مسلمان مدینہ کی گلیوں میں جلوس نکالتے تھے؟ اور راستے بند کرتے تھے؟ رہا حکمرانوں کے لیے روٹ لگانا تو یہ ایک ظالمانہ فعل ہے۔ یہ دھاندلی ہے اور طاقت کا ناجائز استعمال! جبھی تو شاعر نے کہا ہے کہ
حاکم یہاں سے گزرے گا اظہارؔ کس گھڑی
بد بخت کے لیے ہے جنازہ رُکا ہوا
جب بھی راستہ روکا جاتا ہے‘ خواہ کسی مذہبی تنظیم کی طرف سے‘ خواہ کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے‘ خواہ حکمران کی سواری گزارنے کے لیے یا کسی بھی اور مقصد کے لیے‘ یہ ایک انتہائیCounter productiveعمل ہوتا ہے۔ اس سے اصل مقصد کو فائدہ تو کیا الٹا نقصان پہنچتا ہے۔ جو لوگ اذیت سے گزرتے ہیں وہ مخالف ہو جاتے ہیں۔ کسی نے ہوائی اڈے پہنچنا ہے‘ کسی نے ٹرین پکڑنی ہے‘ کسی نے سر جری کے لیے ہسپتال پہنچنا ہے‘ کوئی مریض موت و حیات کی کشمکش میں ہو سکتا ہے۔ سوچئے! ان پر کیا گزرتی ہو گی! مجھے یاد ہے جب یاسر عرفات لاہور آیا تھا تو راستے بند کر دیے گئے تھے۔ فورٹرس سٹیڈیم کے قریب ایک حاملہ عورت نے بچے کو گاڑی ہی میں جنم دے دیا تھا۔ جنرل مشرف کا جب بھی کراچی کا دورہ ہوتا تھا تو پورا کراچی بند ہو جاتا تھا۔ اس احمقانہ اقدام کی وجہ سے کئی اموات ہوئیں۔ والدین بچوں کے لیے پریشان رہتے تھے کہ کب گھر پہنچیں گے۔ دو تین سال پہلے کی بات ہے۔ ہم سیالکوٹ سے اسلام آباد آرہے تھے۔ سرائے عالمگیر پہنچے تو ایک مذہبی تنظیم کے جوشیلے کارکنوں نے دریا ئے جہلم کی کراسنگ بند کی ہوئی تھی۔ وہ کوئی بات سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ وہ اس قدر غیر سنجیدہ تھے جیسے پکنک منا رہے ہوں۔ سینکڑوں بسیں‘ ویگنیں‘ کاریں اور ٹرک رکے پڑے تھے۔ ہمارے ساتھ خواتین بھی تھیں۔ چارو ناچار ہمیں کھاریاں واپس آنا پڑا۔ وہاں سے ہم بھمبر گئے۔ بھمبر سے میرپور ہوتے ہوئے منگلا اور پھر دینہ پہنچے۔ جو مسافت آدھ گھنٹے میں کٹنی تھی‘ اس پر کئی پہر لگ گئے! افسوس! اپنے ہی ملک میں‘ اپنے ہی ہم وطن ظلم ڈھاتے ہیں۔ بچوں پر رحم کرتے ہیں نہ بوڑھوں پر! خواتین پر نہ مریضوں پر! ظالمانہ روش کی وجہ سے ایسی تنظیمیں قدرت کی مدد سے محروم تو ہوتی ہی ہیں‘ گناہِ کبیرہ کی مرتکب بھی ہوتی ہیں۔ ہزاروں لوگوں کو عملاً یر غمال بنا لینا‘ حاملہ خواتین اور جاں بلب مریضوں کا راستہ روکنا‘ بچوں کو بھوک اور پیاس کے کرب میں ڈالنا گناہ کبیرہ نہیں تو اور کیا ہے؟ غزہ کے بچوں کو پرکاہ بھی فائدہ نہیں‘ الٹا پاکستانی بچوں کو تکلیف دی جا رہی ہے!
اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ احتجاج کا یقینا مؤثر طریقہ ہے۔ بائیکاٹ ہم سب کو کرنا چاہیے اور ضرور کرنا چاہیے۔ تاہم جب کسی فاسٹ فوڈ کی برانچ آپ بند کرتے ہیں تو یہ بھی سوچئے کہ اس برانچ میں پندرہ بیس پاکستانی ملازمت کر رہے ہیں۔ یہ تعداد پندرہ بیس سے زیادہ ہی ہو گی۔ بیس ملازمین کا مطلب یہ ہے کہ بیس خاندان پَل رہے ہیں۔ جب برانچ بند ہو گی تو یہ بیس ملازم بے روزگار ہو جائیں گے یعنی بیس خاندان فاقہ کشی پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس لیے کسی فاسٹ فوڈ کی برانچ بند کرنے سے پہلے اس کے ملازمین کے لیے متبادل روزگار کا بند و بست کیجئے۔ ورنہ آپ اس خاندان کی فاقہ کشی کے ذمہ دار ہوں گے۔
خبروں کے مطابق ملک کے کچھ حصوں میں فاسٹ فوڈ کی برانچیں نذرِ آتش بھی کی گئی ہیں اور کچھ میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ یہ ہمدردی اسی طرح کی ہے جیسے ایک آدمی سو رہا تھا تو اس کے دوست نے دیکھا کہ اس کے رخسار پر مکھی بیٹھی ہے۔ دوست کی محبت میں اس نے مکھی پر پتھر کھینچ مارا۔ مکھی اُڑ گئی اور رخسار زخمی ہو گیا۔ فاسٹ فوڈ کی کسی برانچ کو جلانے سے نقصان تو پاکستانی املاک کو پہنچا! آپ نے اپنے ملک ہی کو زک پہنچا دی۔ جذبات کے شعلوں میں عام آدمی کو بھسم کر دینا بہت آسان ہے۔ ایک Demagogue (رہبرِ غوغائی) کے لیے بہت آسان ہے کہ لوگوں کو بھڑکائے‘ جوش دلائے اور ایسے دعوے کرے جن کا پورا کرنا ممکن ہی نہ ہو۔ نعروں کے درمیان یہ کہنا آسان ہے کہ نیتن یاہو سُن لو! ایک ایک بچے کے خون کا حساب لیں گے! ضرور لیجئے حضور! یہ تو زبردست کارنامہ ہو گا! مگر یہ تو بتا دیجئے کہ ایک ایک بچے کے خون کا حساب کب لیں گے اور کیسے لیں گے! ابھی تو آپ نے ان مسلمانوں کا حساب بھی نہیں لیا جنہیں بوسنیا میں بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا گیا۔ اور گجرات اور کشمیر تو بالکل ساتھ ہیں۔ پہلے مودی سے تو حساب لیجئے۔ ہم آپ کے جوش اور جذبے کی قدر کرتے ہیں لیکن دعویٰ وہ کیجئے جسے آپ پورا کر سکیں! شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کر کے نیتن یاہو سے حساب لے لیں گے یا اپنے ہی ملک کی معیشت کو کروڑوں اربوں کھربوں کا نقصان پہنچائیں گے؟ ملک اقتصادی طور پر مضبوط ہو گا تو بین الاقوامی سطح پر آپ کی آواز مؤثر ثابت ہو گی۔ پہیہ جام ہڑتال اور شٹر ڈاؤن سے آپ اپنے ملک کی سسکتی‘ نیم جاں معیشت کو اور بھی کمزور کریں گے۔ خدا را کچھ سوچئے اور تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے بجائے وہ کام کیجئے جس سے اہلِ غزہ کو فائدہ ہو۔ اول تو آپ خود جہاد کے لیے غزہ جائیے اور ایک مثال قائم کیجئے کہ آپ صرف گفتار کے غازی نہیں! یہ نہیں کر سکتے تو اہلِ غزہ کے لیے ادویات اور روپے اکٹھے کیجئے اور خود تشریف لے جا کر ان کے حوالے کیجئے!