"SBA" (space) message & send to 7575

New Provinces, Yes or No …(2)

پچھلے وکالت نامہ میں بات ہو رہی تھی قومی حساسیت کی۔ کرۂ ارض پر وقت اور عالمی واقعات کی رفتار کس قدر تیز ہے‘ یوں سمجھ لیں کہ یہ حساسیت ہماری سوچ سے بھی کہیں تیز تر ہے جس کی تازہ مثال دو دن پہلے دنیا کے سامنے آئی۔ ایک ہم خود پسندی اور نرگسیت کے مارے ہوئے امریکی اتحادی ہیں۔ ایسے اتحادی جنہیں ایندھن سمجھ کر روس کے خلاف افغان جنگ میں جھونک دیا گیا۔ یہ جنگ پاکستان آج بھی بھگت رہا ہے۔ دوسری جانب دو دن پہلے نریندر مودی کے دورۂ امریکہ میں صدر ٹرمپ بھارت پر صدقے واری جا رہے تھے۔ سٹیلتھ جیٹ فائٹر F-35کا تحفہ‘ ساتھ ہی اربوں ڈالر کے سامانِ جنگ کی منظوری۔ ہندوستان سے اسرائیل پھر اٹلی سے امریکہ تک انسانی تاریخ کے سب سے بڑے تجارتی راستوں کے نیٹ ورک کی تعمیر پر اتفاق یعنی MOU کرنا۔ یہ تجارتی ٹریل امریکہ کے شراکت داروں کو بندرگاہوں‘ ریلوے لائنز اور زیرِ سمندر کیبلز کے ذریعے جوڑ دے گا۔ بھارت کے لیے امریکی تیل‘ گیس اور جوہری ٹیکنالوجی کی منظوری اس کے علاوہ ہے۔ 2008ء کے ممبئی حملوں کے امریکہ میں گرفتار شدہ ملزم کی بھارت کی تحویل؍ حوالگی کی منظوری جیسا غیرمعمولی قدم بھی امریکہ بہادر نے پلک جھپکنے پر اُٹھا لیا۔ ایسے میں پاکستان کی گورننس کو ہوم لینڈ سے عالمی سطح تک Re-engineeringکی فوری سے پہلے والی ضرورت ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ اگر کوئی انٹرنیشنل بڑھک باز طرزِ حکمرانی کا مقابلہ کروائے تو یقینا پہلا‘ دوسرا اور تیسرا نمبر ہمارا ہی آئے گا۔ ہم نے عمر بھر میں اپنے علاوہ کوئی دوسرا خطۂ ارض ایسا نہیں دیکھا جو77سالوں سے مسلسل ایشین ٹائیگر بنتا ہی چلا جا رہا ہو۔ سادہ بات ہے کہ اپنے ہاں گڈ گورننس اور غریب عوام جیسے فضول الفاظ قومی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں۔ نہ ہی کوئی ایسا فورم موجود ہے جہاں پہ پاکستان میں گورننس کو درپیش مسائل کی کم از کم تشخیص کی جا سکے۔ بلکہ ہم تو اس سے بھی بہت آگے جا چکے ہیں‘ وہاں پہ جہاں ہم تسلیم ہی نہیں کرتے کہ پاکستان میں نظامِ حکمرانی کی سرے سے کوئی ضرورت بھی ہے۔ ملک میں جو بھی طاقتور آتا ہے‘ اس کی انگلی جس کی جانب اٹھی وہ مسیحا بن بیٹھا۔ اسی لیے ہم چمکیلے اور بھڑکیلے بدیسی لباس پہننے کو اچھی حکمرانی کا سب سے بڑا گر اور ثبوت سمجھتے ہیں۔ بقول شاعر:
سات سمندر پار سے گوری آئی پیا کے دیس
رُوپ بدیسی لیکن جیون پورب کا سندیس
نئے نئے کپڑے پہنے اور سیکھے دوسرے ڈھنگ
نئی نویلی بولی بولے گھر والوں کے سنگ
ٹوٹی پھوٹی اُردو‘ جس کے الٹے سیدھے بھیس
آئی پیا کے دیس
ہمارا اولین المیہ یہ ہے کہ انتظامی یونٹس کا وہ ماڈل جو بھارت‘ ایران‘ امریکہ‘ برطانیہ اور ساری دنیا کے مہذب ملکوں میں رائج ہے‘ ہم اقتدار چھن جانے کے خوف سے اس سے مسلسل بھاگ رہے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے‘ جس طرح کراچی کینٹ اور کیماڑی کراچی کے مسائل ایک جیسے نہیں ہیں‘ عین اسی طرح سے کراچی شہر اور کھپرو تحصیل کے مسائل بھی ایک دوسرے سے ملتے جلتے نہیں۔ دونوں کے لیے جب تک یکساں پالیسی سازی اور قابض مافیاز کی ریورس انجینئرنگ نہیں کی جاتی تب تک سمجھیے ہم نے ترقی کی جانب پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا۔ کینیا ایک ترقی پذیر نان نیوکلیئر ملک ہے۔ حال ہی میں اس کے صدر نے مغرب کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ رسید کیا۔ وہ مغرب جو بے رحم طاقت کے استعمال کے ذریعے دنیا کے سارے مسائل حل کرنے کا راستہ نکالنے کا عادی ہو چکا ہے‘ کینیا کے صدر نے عالمی سماج کے فیصلہ سازوں کو مخاطب کرتے ہوئے یوں جھنجھوڑا:
We must resist the temptation to think that we can somehow shoot or bombard our way into a solution.
وطنِ عزیز میں پانچ مرتبہ ماورائے آئین مارشل لاء آئے۔ باقی حکمرانی کے دور مارشل لاء سے ڈرتے ڈرتے گزرے یا پھر اس کی گود میں بیٹھ کر۔ اس لیے کینیا کے صدر کی طرح طاقت کے استعمال کے ذریعے مسائل کے حل والا فارمولا ہم سے مسترد نہ ہو سکا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ہم بند گلی کے آخری سرے پر پہنچ چکے ہیں۔ جہاں موجود صرف وہی راستہ ہے جسے برادرم میاں عامر محمود نے Urgent Re-engineering کا نام دیا۔
دوسرا حساس معاملہ: جوموجودہ تھیسس تجویز کرتا ہے‘ طرزِ حکمرانی کو عوامی خواہشات کے مطابق مؤثر‘ تیز رفتار اور ٹرانسپیرنٹ بنانے کے لیے ڈویژن کی سطح کے انتظامی یونٹ بنا دینے کا راستہ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وفاقِ پاکستان کے چاروں صوبوں‘ اسلام آباد‘ آزاد ریاست جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں انتظامی یونٹ پہلے سے ہی موجود ہیں۔ یہ تقسیم تحصیل‘ ضلع اور ڈویژن کہلاتی ہے۔ ان ڈویژنز کو صوبے کے اندر انتظامی خود مختاری دے کر علیحدہ علیحدہ مؤثر حکمرانی کے سمارٹ یونٹس میں آسانی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ تھیسس میں ان ملکوں کی مثالیں مختلف ٹیبلز کے اندر دی گئی ہیں جہاں پر نظام کی ری انجینئرنگ کر کے آٹو کریٹک ریاستوں کو فلاحی ریاستوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ تھیسس میں درج ان ٹیبلز کو دیکھ کر مجھے خطۂ پوٹھوہاراور ہزارہ کے وہ اضلاع یاد آگئے جہاں سے دریائے سندھ کے پانی کا گزر ہوتا ہے۔ یہ علاقے صحیح معنوں میں زراعت کا Sleeping Giant ہیں۔ خاص طور پہ انتہائی قیمتی پھل اور فروٹ کے لیے۔ دریا جن کے گھروں میں سے ہو کر گزرتا ہے وہ اس کے پانی سے محروم رہتے ہیں۔ جس کی واحد وجہ صوبوں کا وہ سائز ہے جس کے بڑے زمیندار‘ جو ہمیشہ سے اقتدار میں بیٹھے ہوئے ہیں‘ وہ ان علاقوں میں پانی کی ایک بوند دینا بھی برداشت نہیں کر پاتے۔ یہ بالکل ویسی ہی سیاست ہے جیسی قدرت کے بنائے ہوئے کالا باغ ڈیم کے ذریعے سستی بجلی اور آبپاشی کے ذرائع بڑھانے کا راستہ روکنے والا ذہن 77 سال سے کرتا آیا ہے۔
مجھے یہ کہنے دیجیے! ہم پہلے ہی دیر کر بیٹھے ہیں بلکہ اندھیر بھی۔ لوگوں کو بندوق کے زور سے نہ محبِ وطن بنایا جا سکتا ہے نہ ہی محض گولا بارود کے زور پر کوئی ریاست ترقی کی راہ پر چل سکتی ہے۔ میں پکے یقین سے کہتا ہوں کہ آج بھی اگر ہم فیصلہ سازی کا ماڈل عوا م کی رائے سے بنائیں تو مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ جدید اکنامکس کے بانی Adam Smith کا کہنا ہے: پالیسی وہ کامیاب ہوتی ہے جس کے بارے میں لوگ سمجھیں کہ اس میں ان کا حصہ بھی ہے اور مفاد بھی۔
دُور اک شمع لرزتی ہے پسِ پردۂ شب
اک زمانہ تھا کہ یہ لو مری فریاد میں تھی (ختم)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں