عدلیہ کی بنیادوں میں بارُود!!

اسلام آباد ہائیکورٹ پر ایک عرصے سے جلالی کیفیت طاری ہے۔ اس کیفیت کا ارتعاش‘ شہرہ آفاق چھبیسویں ترمیم سے پہلے ہی محسوس کیا جا رہا تھا۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس ارتعاش کا سبب کیا تھا جو پہلے اضطراب اور پھر اشتعال کی شکل اختیار کر گیا۔ تحقیق وجستجو کرنے والے صحافی اور معاملات کو گہری نظر سے دیکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ اس کیفیت کا کچھ نہ کچھ تعلق تحریک انصاف کے بانی اور قائد‘ عمران خان کی گرفتاری‘ قید اور اُن پر بنے گونا گوں مقدمات سے ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کا رویہ اُن کے بارے میں ہمیشہ نہایت مشفقانہ‘ ہمدردانہ بلکہ عاشقانہ رہا۔ پہلی گرفتاری کے فوراً بعد جب سرِشام خصوصی عدالت لگی اور حکم صادر ہوا کہ عالی مرتبت ملزم کو مرسڈیز گاڑی میں بٹھا کر‘ ججوں کیلئے مخصوص گیٹ سے عدالت لایا جائے تو انتظامیہ کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ خان صاحب کو لایا گیا تو چیف جسٹس‘ عمر عطا بندیال بصد مشکل تقاضائے منصب کے مطابق توازن قائم رکھ پائے۔ چبوترے سے نیچے اُتر کر بغل گیر تو نہ ہوئے لیکن ''گُڈ ٹو سی یُو‘‘ کہہ کر‘ نہایت بے ساختگی سے اپنے جذباتِ مسرّت کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ تاریخ رقم ہو گئی۔ اُنہوں نے یہ حکم بھی صادر فرمایا کہ ملزم کو رات کے وقت‘ پولیس لائن کے آراستہ پیراستہ بنگلے میں رکھا جائے۔ اُسے جو بھی ملنے آئے‘ روکا نہ جائے۔ چنانچہ رات کو صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی انواع واقسام کے کھانوں کے طباق اُٹھائے پولیس لائن پہنچ گئے۔ یوں پاکستان کے منصفِ اعظم نے ایک واضح پیغام دیا کہ عمران خان کو نواز شریف‘ آصف زرداری یا اس قبیل کا کوئی عام قیدی نہ سمجھا جائے‘ اُس کا مرتبہ ومقام اُن سب سے منفرد وممتاز ہے۔ عمر عطا بندیال اُس روایت کی رِدائے خوش رنگ میں نئے بیل بوٹے ٹانک رہے تھے جسے آصف سعید کھوسہ‘ عظمت سعید شیخ‘ ثاقب نثار اور اُن کے رفقا نے بڑی محنت سے بُنا تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے زمامِ عدل سنبھالی تو عمران نواز روایت کے پاسبانوں کے پَر بندھ گئے اور اُن کی اُڑانیں محدود ہو گئیں۔
آج سے ٹھیک ایک برس پہلے جب اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان کا شہرۂ آفاق خط منظر عام پر آیا تو ایک کھلبلی سی مچ گئی۔ سوال پیدا ہوا کہ یکایک اس طرح کا خط لکھنے اور اُسے کمال اہتمام کے ساتھ میڈیا میں نشر کرنے کا سبب کیا ہے؟ خط میں ''ایجنسیوں‘‘ کی مداخلت کا ذکر کیا گیا۔ اس ضمن میں کئی ماہ پرانے کسی واقعہ کو بطورِ سند بھی پیش کیا گیا۔ اہلِ پاکستان کیلئے یہ کوئی چونکا دینے والی باتیں نہ تھیں۔ خود چھ خط نویس جج صاحبان‘ جسٹس محسن اختر کیانی‘ جسٹس طارق محمود جہانگیری‘ جسٹس بابر ستار‘ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان‘ جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی عدل کی دنیا میں اچانک وارد ہونے والے اجنبی نہیں تھے۔ سب کوا پنے وطن کی آب وہوا اور موسموں کے چال چلن کا بخوبی اندازہ تھا۔ جسٹس محسن اختر کیانی تو اُس وقت بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کا حصہ تھے جب اُن کے خط سے ساڑھے پانچ برس قبل‘ اکتوبر 2018ء میں اُن کے سینئر ترین جج شوکت عزیز صدیقی کو‘ ایسے ہی ایک جرم کی پاداش میں نمونۂ عبرت بنا دیا گیا تھا۔ تب ''ایجنسیوں کے کردار‘‘ کے سب سے بڑے نقاد جسٹس اطہر من اللہ کے لبوں سے ایک حرفِ احتجاج تک نہ پھوٹا تھا۔ شوکت عزیز کے جانے سے اُنہیں چیف جسٹس کی مسند پر فروکش ہونے کا موقع مل گیا اور وہ بصد تمکنت اس منصبِ جلیلہ پر فائز ہو گئے۔ تب جسٹس محسن اختر کیانی نے بھی لب بستہ رہنے کو ترجیح دی اور حق گوئی و بے باکی کو آنے والے ساڑھے پانچ سالوں تک موقوف رکھا۔ ممکن ہے اُس وقت ''ایجنسیوں‘‘ کے کردار کا وزن ترازو کے کسی ایسے پلڑے میں ہو‘ جو جج صاحبان کی نظر میں قابلِ گرفت نہیں تھا۔
اب تو اڈیالہ جیل سے شاہراہِ دستور کے کنارے کھڑی عالی مرتبت عمارتوں تک خطوں کا ایک سلسلہ ہے کہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔ ان سب خطوط میں آپ کو کہیں نہ کہیں اُس تمنا یا آرزو کا رنگ ضرور دکھائی دے گا جس نے اوّل اوّل آصف سعید کھوسہ کے دل میں جنم لیا اور جسے ''گڈ ٹو سی یُو‘‘ کہہ کر عمر عطا بندیال نے جذبہ واحساس میں گندھے رومانوی کلمے کی شکل دی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اب یہ رنگ ''ہولی‘‘ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ نہ صرف عدالت کے در ودیوار اس رنگ میں نہا گئے ہیں بلکہ اس کے چھینٹوں سے شاہراہِ دستور بھی گل رنگ ہو رہی ہے۔
تازہ ترین گُل افشانی کا شاہکار‘ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے وہ جملے ہیں جو اُنہوں نے‘ عمران خان ہی کے حوالے سے ایک مقدمہ کاز لسٹ سے نکال دیے جانے پر ادا کئے۔ انہوں نے بھری عدالت میں اپنے اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے کہا ''ایسا کرنے (کاز لسٹ سے مقدمہ نکال دینے) سے پہلے‘ میری عدالت کی بنیادوں میں بارود رکھ کر اُڑا دیتے‘‘۔ عمران خان کی مبیّنہ وکیل مشال یوسف زئی نے آتشیں ماحول سے حوصلہ پا کر مٹھی بھر باردو پھینکتے ہوئے کہا ''سَر آپ دیکھئے! ہمارے ساتھ باہر یہ ہو رہا ہے تو بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے ساتھ جیل میں یہ لوگ کیا کرتے ہوں گے؟‘‘ اس پر جج صاحب نے کہاکہ ''آپ یہ بات کہہ رہی ہیں۔ ہمیں تو اپنے ادارے کی فکر پڑ گئی ہے۔ جو گائیڈڈ میزائل آپ کی طرف جا رہا تھا‘ وہ اب ہماری طرف آ رہا ہے‘‘۔ جج صاحب نے مزید فرمایا ''کیا آپ کرپشن اور اقربا پروری کے دروازے کھول رہے ہیں؟ ریاست نے اگر یہی فیصلہ کر لیا ہے کہ اُس نے جنگ جیتنی ہے تو میرا یہاں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں‘‘۔ مقام شکر ہے کہ ایسا کہنے کے باوجود وہ منصب قضا پر بیٹھے ہوئے ہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کو کسی صدمے یا خلا سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔
اس قضیے کا تعلق بھی ممتاز ومنفرد قیدی‘ عمران خان سے ہے جنہوں نے جیل میں ملاقاتوں اور سہولتوں کے حوالے سے چھبیس درخواستیں دائر کر‘ یا کرا رکھی ہیں۔ ان درخواستوں کے حوالے سے اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے چیف جسٹس کے پاس عرضی گزاری کہ ''مختلف عدالتوں میں‘ مختلف تاریخوں پر لگے مقدموں سے انتظامی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ مختلف جج صاحبان کے فیصلوں یا ہدایات میں بھی یکسانیت نہیں ہوتی۔ اس لیے استدعا ہے کہ ان چھبیس درخواستوں کو یکجا کر کے کوئی بڑا بینچ سُن لے‘‘۔ عمران خان کے وکیل نے اس پر اعتراض نہ کیا؛ چنانچہ قائم مقام چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے اپنی سربراہی میں ایک تین رُکنی لارجر بینچ قائم کرکے تمام درخواستوں کو یکجا کردیا ۔ ان میں مشال یوسفزئی کی وہ درخواست بھی شامل تھی جو جسٹس سردار اعجاز اسحاق سُن رہے تھے۔ جسٹس صاحب نے اس اقدام کو قانون اور عدالتی قواعد وضوابط کے منافی قرار دیتے ہوئے‘ اُن کی عدالت کی بنیادوں میں بارود بھرنے کے مترادف قرار دیا۔
مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ جسٹس صاحب کا موقف درست ہے یا سہ رکنی بینچ کا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ جسٹس منیر سے لے کر عہدِ حاضر تک‘ صاحبانِ عدل نے کب کب کس سنگ دلی کے ساتھ جمہوریت اور پارلیمان کی بنیادوں میں نہ صرف بارود بھرا بلکہ اس بارود کو آگ دکھا کر اُن کے ایسے پرخچے اُڑائے کہ وہ برسوں اپنے اجزائے پریشاں سمیٹتے رہ گئے۔ عدلیہ کی بنیادوں میں بارود بھی خود صاحبانِ عدل نے بھرا جن کے بعض فیصلوں نے آئین وقانون کے ساتھ وہ سلوک کیا جو عید قربان کے موقع پر بے ہنر قصاب‘ قربانی کے جانوروں سے کرتے ہیں۔
یہ بڑی ہی دل فگار کہانی ہے جو پھر سہی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں