سیلاب زدگان کی ہنگامی مدد اور بحالی کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان شروع ہونے والی بسنت بظاہر ختم ہو گئی ہے۔ بو کاٹا کے نعرے تھم گئے ہیں لیکن اب بھی کبھی کبھار آسمان کی طرف نگاہ اٹھے تو پیچ لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ یار لوگوں نے اس صورتِ حال سے نہ صرف لطف اٹھایا بلکہ اپنے اپنے دانشورانہ اور تجزیاتی کنکوے لے کر لب ِبام آ گئے۔ نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ عالی مرتبت گورنر پنجاب جسے Marriage of Convenience یعنی باہمی سہولت کاری کی شادی قرار دیتے ہیں‘ وہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے۔
جو لوگ 1973ء کے بعد کی پاکستانی سیاست پر نظر رکھتے ہیں اُنہوں نے یہ سب کچھ سنا اور ٹھٹھہ مخول کی طرح اڑا دیا۔ دونوں جماعتوں کے بزرگانِ سیاست نے بھی اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ صدر آصف علی زرداری تصادم گریز شخصیت ہیں۔ معاملات کو ٹھنڈا رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ پاکستان کا سب سے سینئر سیاستدان ہونے کے ناتے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف بھی سرد وگرم دیکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف بھی ممکنہ حد تک کشمکش سے گریز کرتے اور اپنے سیاسی ہم سفروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے کیلئے نہایت کشادہ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ ان دنوں بیرونی دوروں کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود صدر زرداری سے ملاقات کیلئے وقت نکالتے رہتے ہیں۔ داخلی استحکام‘ جمہوری روایات‘ مشکل صورت حال میں معیشت کو سنبھالا دینے اور باہمی اشتراک سے قانون سازی کرنے کیلئے وزیراعظم‘ پیپلز پارٹی سے اچھے تعلقات کو ناگزیر خیال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں طرف سے شروع ہونے والی چاند ماری بھاری توپوں کی گولہ باری نہ بن پائی۔ بات بڑھتے بڑھتے جب پارلیمنٹ کے ایوان سے پی پی پی کے ''واک آئوٹ‘‘ تک پہنچی تو خطرے کی گھنٹیاں ضرور بجیں لیکن دونوں جماعتوں کی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو پھر بھی یقین تھا کہ نہ کوئی دھماکا ہو گا‘ نہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں مقاطعہ کی نوبت آئے گی‘ نہ ٹھہری ہوئی جھیل میں پھینکے ہوئے کنکر سے کوئی تلاطم اٹھے گا۔ دونوں جماعتیں اس طرح کے کھیل تماشوں کو بہت پیچھے چھوڑ آئی ہیں۔
حصولِ اقتدار کی سیاست (Power Politics) ہر سیاسی جماعت کے منشور کا جزوِ اعظم ہے۔ سو وہ ایک دوسرے کے مدمقابل انتخابات لڑتی اور فطری طور پر ایک دوسرے کی حریف ہوتی ہیں۔ ہر ووٹر کے پاس ایک ووٹ ہوتا ہے جو وہ کسی ایک جماعت ہی کو دے سکتا ہے۔ 1973ء کے آئین کے نفاذ سے لے کر آج تک‘ پیپلز پارٹی ایک طرف رہی اور مسلم لیگ (ن) تنہا یا کسی سیاسی اتحاد کے نام پر اس کے مدمقابل رہی۔ ہمارے ہاں کا انتخابی اکھاڑہ نرالے رنگ ڈھنگ رکھتا ہے‘ بلا کے معرکے بپا ہوتے‘ رقابتیں عروج پر پہنچتی ہیں لیکن ایوان سجتے ہی سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔
طویل مارشل لاء کے بعد 1988ء سے اب تک کے انتخابات کی تاریخ ایک بڑی واضح تصویر بناتی ہے۔ پیپلز پارٹی سے بینظیر بھٹو شہید دو مرتبہ وزیراعظم رہیں۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی اس منصب پر فائز رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عہدِ وزارت عظمیٰ شامل کر لیا جائے تو پیپلز پارٹی چودہ برس سے زائد عرصے تک پاکستان کی حکمران رہی۔ اسی طرح نواز شریف‘ شہباز شریف‘ شاہد خاقان عباسی کا اجتماعی عرصۂ اقتدار بھی تیرہ برس کے لگ بھگ بنتا ہے۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہمیں دو جماعتی نظام اچھا نہیں لگتا۔ ہم نے اس کے بارے میں ''باریاں لے رہے ہیں‘‘ جیسی گالی وضع کر رکھی ہے۔ برطانیہ کی دو سو سالہ جمہوری تاریخ میں ایک وزیراعظم کو چھوڑ کر تمام وزرائے اعظم لیبر پارٹی سے تھے یا کنزرویٹو پارٹی سے۔ امریکہ کی دو سو سالہ تاریخ کے 39 صدور میں سے 35 کا تعلق دو بڑی پارٹیوں‘ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن سے تھا۔ دونوں ممالک میں آج بھی یہی چلن ہے لیکن کوئی ''باریوں‘‘ کا طعنہ نہیں دیتا۔ وہ اسے اپنی جمہوری بلوغت اور پختہ کاری خیال کرتے ہیں۔
1988ء سے 1999ء کا عرصہ دونوں جماعتوں کیلئے نہایت تلخ اور اذیت ناک تھا۔ بینظیر بھٹو دو دفعہ وزیراعظم بنیں‘ دونوں مرتبہ عرصۂ اقتدار مکمل کرنے سے پہلے گھر بھیج دی گئیں۔ نواز شریف کے سر پر تین بار وزارتِ عظمیٰ کی دستارِ فضیلت سجی‘ تینوں بار وہ اپنی آئینی میعاد پوری کئے بغیر وزیراعظم ہائوس سے نکال دیے گئے۔ ان دونوں کیلئے وطن کی سرزمین تنگ کر دی گئی۔ یہی دور تھا جب دونوں حریف جماعتوں کے حریف راہنمائوں کے دل میں دردِ مشترک نے انگڑائی لی۔ 11 فروری 2005ء کو محترمہ‘ اپنے شوہر آصف علی زرداری کے ہمراہ‘ نواز شریف سے ملاقات کیلئے جدّہ کے سرور پیلس پہنچیں تو صرف لوہے کے ایک بڑے پھاٹک نے ہی انگڑائی نہیں لی‘ پاکستان میں ایک نئے سیاسی عہد کا سورج بھی طلوع ہوا۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان اب تک کی سب سے معتبر دستاویز ''میثاق جمہوریت‘‘ کی منصوبہ بندی بھی اسی ملاقات کے دوران ہوئی۔ 14 مئی 2006ء کو لندن میں اس معاہدے پر دستخط ہوئے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ 'میثاق جمہوریت‘ پر کس حد تک عمل ہوا اور کس نے کہاں کہاں گریز کی راہیں تراشیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں جماعتوں کے مابین ہونے والی اس مفاہمت نے ہماری جمہوری تاریخ کو ایک نیا چہرہ دیا۔
ایسا نہیں کہ کبھی کوئی رخنہ نہیں پڑا۔ ایسا نہیں کہ کبھی کسی نے ایک دوسرے کی طرف پتھر نہ اُچھالا ہو۔ ایسا بھی نہیں کہ دونوں شِیر وشکر ہو گئے۔ جب جب‘ جس جس کو موقع ملا‘ خنجر آزمائی کرتا رہا۔ این آر او‘ میمو گیٹ‘ پاناما‘ ججوں کی بحالی‘ پرویز مشرف کا مقدمہ اور کتنے ہی دیگر معاملات میں سنگ زنی بھی ہوتی رہی لیکن پہلو بہ پہلو جمہوری تاریخ بھی رقم ہوتی گئی۔ دونوں جماعتوں کا معرکہ ہے کہ انہوں نے تیرہویں ترمیم کے ذریعے آئین کو آمرانہ علّتوں سے پاک کیا اور پھر اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے مشرف زدہ آئین کو ممکنہ حد تک اصل آئین کے قریب تر لائے۔ 2002ء کے بعد سے ہر اسمبلی نے میعاد پوری کی۔ ایک کوشش عمران خان نے کی جسے سپریم کورٹ نے ناکام بنا دیا۔ آصف علی زرداری عہدۂ صدارت سے فارغ ہوئے تو وزیراعظم نے اُنہیں شاندار عشائیہ دے کر رخصت کیا۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے باوجود بلاول بھٹو زرداری نے چھبیسویں آئینی ترمیم کیلئے نہایت سرگرم کردار ادا کیا۔ بلاول نے 'بنیان مرصوص‘ اور 'معرکہ حق‘ کی عالمی سطح پر مؤثر ترجمانی کی۔ ابھی آزاد کشمیر میں‘ پیپلز پارٹی کی نئی سیاسی حکمت عملی سے اختلاف کے باوجود مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کیلئے مسائل پیدا نہیں کرے گی۔ باور کر لینا چاہیے کہ ہمارے ہاں دو جماعتی نظام نے پختہ جگہ بنا لی ہے۔ ایک تیسری عجیب الخلقت جماعت کا جو تجربہ کیاگیا‘ اُس نے دو روایتی جماعتوں کی جڑیں زیادہ مضبوط کر دی ہیں۔ دونوں کی بقا بڑے اہداف و مقاصد کیلئے ایک دوسرے سے جڑے رہنا ہے اور دونوں اس حقیقت کو بہت اچھی طرح سمجھتی ہیں۔
پنجاب کے گورنر سردار سلیم حیدر بجا طور پر فرماتے ہیں کہ ''مسلم لیگ (ن) سے ہمارا رشتہ مجبوری کا رشتہ ہے‘‘۔ سیاسی جماعتوں کے اپنے اہداف‘ اپنے منشور اور اپنے مقاصد ہوتے ہیں‘ دوسری جماعتوں کے ساتھ اُن کا رشتہ واقعی کسی نہ کسی مجبوری کے بندھن میں بندھا ہوتا ہے اور سیاسی جماعتوں کی یہی مجبوریاں اُنہیں ایک دوسرے کے قریب لاتی اور جمہوریت کے فروغ واستحکام میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ شجرِ مجبوری کی کچھ شاخیں پُرمیوہ بھی ہوتی ہیں‘ ایسی ہی ایک شاخ پر آج کل سردار سلیم حیدر کا خوش جمال نشیمن بھی ہے۔