پاکستان اور افغانستان کے مابین قطر کی میزبانی میں ہونے والی پیش رفت کو معاہدہ کہا جائے یا محض مفاہمت‘ آگے بڑھنے کیلئے عزم کا نام دیا جائے یا سنجیدہ گفتاری کا محض ایک مرحلہ‘ اسے خوش آمدید کہنا چاہیے۔ بجا طور پر نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کو اس میں روشنی کی کرن نظر آئی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھی اُمید افزا ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے برادر اسلامی ممالک قطر اور ترکیہ کا شکریہ ادا کیا ہے۔ مذاکرات کا اگلا اہم مرحلہ 25 اکتوبر ہے جس کی میزبانی ترکیہ کرے گا۔
سرِدست قطر اور دیگر ممالک کی کوششوں کا ثمر یہ نکلا ہے کہ دونوں ممالک رسمی طور پر 'جنگ بندی‘ پر آمادہ ہو گئے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ سیز فائر کو غیر معینہ مدت تک توسیع مل گئی ہے۔ 'جنگ بندی‘ کی اصطلاح تو قدرے عجیب سی لگتی ہے کیونکہ معروف معنوں میں دونوں ممالک باہم جنگ آزما نہیں۔ پاکستان کی کارروائیاں دفاعی نوعیت کی تھیں‘ جن کے تحت دہشت گردوں اور پاکستان پر مسلسل حملے کرنے والی تنظیموں کی پناہ گاہوں اور تربیت گاہوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔ سیز فائز یا جنگ بندی کی ترکیب اس اعتبار سے بھی عجیب لگتی ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی یا پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے والے گروہ نہ تو ان مذاکرات کا حصہ ہیں نہ اُن میں سے کسی نے سیز فائز یا جنگ بندی کا واضح اعلان کیا ہے۔ اُن کی طرف سے ابھی تک دوست ممالک کے تعاون سے شروع ہونے والے مذاکراتی عمل پر بھی کوئی رسمی ردّعمل سامنے نہیں آیا۔ تو کیا اس سے یہ معنی اخذ کیے جائیں کہ ٹی ٹی پی یا ایسی ہی دیگر دہشت گرد جماعتوں کی ضمانت کابل حکومت دے رہی ہے۔ یعنی یہ تنظیمیں اپنا اپنا نظم رکھنے کے باوجود‘ کابل انتظامیہ ہی کو اپنا رہبر و راہنما اور سرپرست وپیشوا خیال کرتی ہیں اور اُن کے حکم کی پاسداری کرتی ہیں۔ یہی بیانیہ پاکستان کا ہے اور اسی مؤقف کی بنیاد پر وہ کابل انتظامیہ سے تقاضا کر رہا ہے کہ وہ اپنی سرپرستی کے سائے تلے پرورش پانے اور اُن کے حکم کے تابع دہشت گرد عناصر کو لگام ڈالیں۔
پاکستان کا یہ انتہائی سیدھا سادہ اور عالمی ضابطوں کے مطابق مطالبہ ہے جس کی اہمیت کو اس معاملے میں شریک دوست ممالک بھی تسلیم کرتے ہیں۔ طالبان کیا جواز یا دلیل دیتے ہیں؟ ابھی تک بات کھلنے نہیں پا رہی۔ یہ معّمہ بھی حل ہونے میں نہیں آ رہا کہ کابل انتظامیہ کی پاکستان سے دشمنی کی حدوں تک پہنچ جانے والی پرخاش کے اسباب کیا ہیں؟ اُس نے اپنی حکمتِ عملی کو بھارت سے کیوں جوڑ لیا ہے اور اُس کے مقاصد کا آلۂ کار کیوں بنتی جا رہی ہے؟ طالبان کی حکومت پہلے بھی کم وبیش پانچ سال قائم رہی۔ دس سالہ مہم جوئی کے بعد روس افغانستان سے نکلا تو جہادی تنظیموں کی عملداری شروع ہوئی۔ دس برس تک افغان مزاحمت کے پہلو بہ پہلو‘ روس سے پنجہ آزمائی کے بعد پاکستان نے بھرپور کوشش کی کہ جہادی تنظیمیں آپس میں اُلجھنے کے بجائے ایک مستحکم اور پائیدار حکومت قائم کر کے ایک بڑی عسکری کامیابی کے ثمرات عوام تک پہنچائیں۔
ایسا نہ ہوا تو قندھار سے طالبان کی نمو ہوئی۔ مُلا محمد عمر کی قیادت میں یہ تحریک برق پائی سے آگے بڑھی۔ یہاں تک کہ 1996ء میں کابل طالبان کی تحویل اور امیر المومنین مُلا محمد عمر کی فرمان روائی میں آ گیا۔ نومبر 2001ء میں امریکہ اور نیٹو افواج کی یلغار پر یہ حکومت ختم ہو گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ طالبان کے پانچ سالہ عہد میں‘ وہ کچھ بہرحال نہیں ہوا جو گزشتہ چار برس سے جاری ہے۔ بلکہ یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ گزشتہ 45برس سے آتشکدہ بنے افغانستان اور آتی جاتی مختلف النوع حکومتوں کے باوجود پاکستان کے خلاف کبھی دہشت گردی کی ایسی منظم‘ مسلسل اور خوں آشام کارروائیاں نہیں ہوئیں جو موجودہ افغان انتظامیہ کے چار سالہ عہد میں ہوئیں۔ گزشتہ برس‘ 2024ء میں 2546 افراد دہشت گردی کا لقمہ بنے جن میں مسلح افواج کے سینئر افسران کی بڑی تعداد شامل تھی۔ اس سال کے پہلے نو مہینوں میں لقمۂ دہشت گردی ہونے والوں کی تعداد 2414تک پہنچ چکی ہے۔ اس قدر خوں ریزی کے بارے میں افغانستان کا محض یہ کہہ دینا کہ 'یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے‘ پست درجے کا مذاق ہی کہلایا جا سکتا ہے۔
قطر اور استنبول کے مذاکرات کیا رُخ اختیار کرتے اور کتنے نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں‘ اس کا اندازہ بہت جلد ہو جائے گا۔ سارا انحصار طالبان حکومت پر ہے۔ کیا وہ ٹی ٹی پی‘ بی ایل اے اور دیگر گروہوں سے فاصلہ کر لینے اور انہیں بطور ایک ہتھیار استعمال کرنے کی حکمت کار سے مکمل طورپر دستبردار ہو جائے گی؟ کیا وہ بھارت کے آسیب سے نکل کر‘ پاکستان کے ساتھ نئے تعلقاتِ کار پر آمادہ ہو جائے گی؟ اس کا انحصار افغان حکمرانوں کی سوچ اور نیت‘ یعنی سیاسی عزم پر ہے۔ نیّت کے ساتھ ہی جڑا سوال 'صلاحیت‘ کا ہے۔ کیا کابل انتظامیہ ان منہ زور دہشت گرد تنظیموں کے ڈھانچے زمیں بوس کرنے اور انہیں مکمل طور پر غیر فعال کر دینے کی قدرت رکھتی ہے؟ کسی بھی پائیدار حل اور دونوں ممالک کے اچھے تعلقاتِ کار کے لیے ان سوالوں کے جوابات تلاش کرنا ضروری ہے۔ بڑی ذمہ داری قطر‘ ترکیہ‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور ان ممالک پر عائد ہوتی ہے جنہیں 'سیز فائر‘ اور 'جنگ بندی‘ سے آگے نکل کر اُس بنیادی مرض کا علاج کرنا ہے جو پاک افغان تعلقات میں دشمنی کو چھوتی کشیدگی تک آ پہنچا ہے۔ ہم بڑے تلخ تجربوں سے گزر چکے ہیں۔ 2014ء میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیلئے کمیٹی نے اچھی پیشرفت کی۔ کمیٹی کا واحد سرکاری رکن ہوتے ہوئے مجھے بہت سی تفصیلات کا علم ہے۔ مولانا سمیع الحق مرحوم‘ رستم شاہ مہمند اور پروفیسر ابراہیم خان کو ٹی ٹی پی نے اپنے نمائندے نامزد کیا تھا۔ بات آگے بڑھ رہی تھی۔ سیز فائر کا اعلان بھی ہو گیا تھا کہ آغازِ مذاکرات کے صرف ڈیڑھ ماہ بعد‘ 17 فروری 2014ء کو مہمند ایجنسی طالبان کے عمر خالد خراسانی نے اعلان کیا کہ ''2010ء میں ایف سی کے جن 23 اہلکاروں کو فاٹا کی چیک پوسٹ سے اغوا کیا گیا تھا‘ آج اُنہیں قتل کر دیا گیا ہے‘‘۔ مذاکرات کی ہانڈی بیچ چوراہے کے پھوٹ گئی۔
کابل انتظامیہ کی 'نیّت‘ اور 'صلاحیت‘ سے قطع نظر‘ ٹھوس اور پائیدار نتائج کیلئے ضروری ہے کہ دوست ممالک ایک مؤثر نظم وضع کریں‘ اس کی ضمانت دیں اور ممکن ہو تو اس پر عمل درآمد کا میکانزم بھی وضع کریں۔ ورنہ ساری مشق‘ مشقِ لاحاصل ہی رہے گی۔
تیس برس قبل‘ 1995ء میں‘ جب قندھار کے ایک زخم خوردہ ریسٹ ہائوس میں مولانا سمیع الحق مرحوم کے پہلو میں بیٹھے میں تازہ تازہ نمو پاتے طالبان کے راہنما مُلا محمد عمر کی تقریر سُن رہا تھا تو سامعین تصویرِ حیرت بنے بیٹھے تھے۔ مُلا محمد عمر کہہ رہے تھے ''میرے پاکستانی بھائیو! ہم قیامت تک آپ کا احسان نہیں بھولیں گے۔ ہم اپنی نسلوں کو بھی بتا کر جائیں گے کہ اگر پاکستان اور افغانستان دونوں پر آزمائش کا وقت آ جائے تو پہلے پاکستان کی جنگ لڑنا۔ میرے بھائیو! یہ لفظ لکھ لو۔ جہاں آپ کا پسینہ گرے گا وہاں ہمارا لہو گرے گا‘‘۔
تب کابل حکومت کے موجودہ سربراہ اعلیٰ شیخ ہبت اللہ اخوندزادہ کی عمر صرف اٹھارہ برس تھی۔ دوحہ میں افغان وفد کی نمائندگی کرنے والے وزیر دفاع مُلا محمد یعقوب پانچ سال کے بچے تھے۔ افغان مذاکراتی وفد کے تیسرے رُکن مُلا عبدالحق واثق کی عمر تب بیس سال بھی نہ تھی۔ ان میں سے کسے یاد دلائیں کہ تمہارے امیر المومنین اور پیشوا نے پاکستان کے بارے میں کیا کہا تھا؟