نو مئی 2023ء کی شام‘ پاکستان کو شدید بحران میں دھکیل کر‘ ایک وسیع الاہداف سازش کی کوکھ سے انقلابِ عظیم کشید کرنے کی مذموم کوشش ناکام ہو گئی۔ 10مئی 2025ء کی شبِ سیاہ سے پھوٹنے والا آفتابِ جہاں تاب پوری درخشانی کے ساتھ دمک رہا ہے۔
اُدھر پیہم ناکامیوں اور نامرادیوں کے بعد عمران خان نے براہ راست اللہ سے 'مذاکرات‘ کا فیصلہ کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ 20 ستمبر کو‘ رات 9 بجے اپنے گھروں کی چھتوں پہ جائیں اور اذانیں دیں۔ اس سے قبل وہ اپنے احتجاجی اور انقلابی عزائم کیلئے قومی تاریخ کے پُرافتخار دنوں کا انتخاب کرتے رہے ہیں۔ اُن کے کمالِ فن کا تازہ شاہکار یہ ٹھہرا کہ 20 ستمبر کا انتخاب کیا اور اپنے انقلابی مشن کو ''مشن نور‘‘ کا نام دے دیا۔ پھر معلوم پڑا کہ یہ دن اور یہ نام‘ ایک ایسی اقلیتی جماعت کے متبرکات کا حصہ ہیں جو ختم نبوت کے اساسی تصورِ اسلام پر ایمان نہیں رکھتی۔ اب تاویلات پیش کی جا رہی ہیں۔ اپنی صفوں میں موجود علمائے کرام اور مفتیانِ عظام کے حوالے لا لا کر وضاحتیں کی جا رہی ہیں۔ پسپائی کے راستے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ سوال صرف ایک ہے۔ اس احتجاج کیلئے 20 ستمبر کا انتخاب اور احتجاج کو 'مشن نور‘ کا نام کس نے دیا؟ اس فیصلے کی منظوری کس نے دی؟ اگر اس سوال کا واضح جواب نہیں آتا تو پی ٹی آئی بہت دیر کٹہرے میں رہے گی اور یہ کٹہرا ہمارے ہاں بڑے ٹھوس فولاد میں ڈھلا ہے۔ خلقِ خدا کب تک آپ کی لغویات اور بے مغز قیادت کی خرافات کو مقدس ملفوظات سمجھ کر برداشت کرتی رہے گی۔
20ستمبر کی شب گزر گئی۔ کسی چھت‘ کسی بالکونی‘ کسی دریچے‘ کسی صحن سے ایسی اذان کی دل نواز آواز سنائی نہ دی جو پاکستان کے در وبام ہلا کر رکھ دیتی۔ علّامہ اقبال نے 'حکم اذاں‘ کی بات تو ضرور کی تھی لیکن یہ بھی کہا تھا کہ
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
اُس 'نام نہاد اذان‘ کا تصور کیا جا سکتا ہے جو مذموم سیاسی وذاتی مقاصد سے جڑی ہو اور جس کا تعلق اللہ کے آخری نبی محمد مصطفیﷺ کو نبیِ آخر الزمان ماننے کے اساسی اسلامی عقیدے کے منکر گروہ سے وابستہ ہو۔ سو اذان کے بنیادی کلمے کے 'اللہ اکبر اللہ اکبر‘ کے مصداق اللہ نے اپنی بڑائی کا ہلکا سا اشارا دیا اور اپنے نبیﷺ کی شان وعظمت سے شعوری یا غیر شعوری گستاخی کرنے والوں کو رُسوا کردیا۔ 'شبستانِ وجود ‘ تو کیا لرزتا‘ ایک گھر سے دوسرے گھر تک کسی 'اذان‘ کی سرگوشی تک نہ پہنچی۔ البتہ سوال مسلسل گونج رہا ہے کہ پی ٹی آئی کا 20 ستمبر اور 'نورِ حق‘ سے کیا رشتہ ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا بارود خانہ مکمل طور پر خالی ہو چکا ہے۔ اُس کی بیانیہ ساز فیکٹری کو بھی زنگ لگتا جا رہا ہے۔ داخلی محاذ پر پے درپے ناکامیوں اور نامرادیوں کے بعد اُس نے بیرونی دنیا کو اپنی امیدوں کا مرکز بنایا تھا۔ پاکستان کو دیوالیہ پن کے گڑھے میں دھکیلنے کیلئے دیوانہ پن کی حد تک چلی گئی تھی۔ خان صاحب نے خود آئی ایم ایف کو خطوط لکھے۔ اس کے مرکزی دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرے کرائے۔ سمندر پار پاکستانیوں کو اکسایا۔ کبھی لندن‘ کبھی واشنگٹن کے ''چندہ بٹور سیاست کاروں‘‘ سے مرضی کے بیانات دلوائے۔ کبھی اپنے بیٹوں کو خصوصی مہم پر روانہ کیا۔ پھر ایک وقت آیا کہ سارے انڈے ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوکری میں رکھ دیے۔ کوئی حربہ کارگر نہ پڑا۔ ہزیمت اور رسوائی مسلسل مقدر بنی رہی۔
نو مئی کے فوراً بعد پی ٹی آئی نے اپنی ساری امیدیں‘ عدلیہ سے وابستہ کر لی تھیں جو پہلے بھی اُس کے لیے آغوشِ مادر بنی ہوئی تھی اور جس کے منہ سے نو مئی کی غارتگری کے فوراً بعد‘ عمران خان کیلئے عشق ومحبت کی خوشبو سے مہکتا جملہ ادا ہوا تھا ''گڈ ٹو سی یو‘‘۔ عمران خان کیلئے‘ دیرپا خوشبو کی طرح 'گڈ ٹو سی یو‘ کی مہک آج بھی جاری ہے۔ کم از کم‘ اس قافلہ خوش قدم میں شامل کچھ منصفانِ کرام کی ثاقب قدمی پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ وہ بہ اندازِ دگر اپنا اپنا 'مشن نور‘ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نو مئی کے بعد عمران خان کو عدالتوں سے ایسی ایسی رعایتیں ملیں جو تصور میں نہیں آ سکتیں۔ ایک بار تو یوں ہوا کہ ''انصاف پرور جج‘‘ ایک ایسی بند گلی میں داخل ہو گئے جہاں پاکستان کے جامع آئین‘ رنگا رنگ قوانین‘ نوع بہ نوع ضابطہ ہائے تعزیرات‘ پرانے عدالتی فیصلوں یہاں تک کہ امرت دھارا جیسی 'تاثیرِ مسیحائی‘ رکھنے والے ''نظریہ ضرورت‘‘ سے بھی کام نہ نکلا تو ''گڈ ٹو سی یو‘‘ کی شاخِ شاداب پر ''نظریہ حقیقی انصاف‘‘ کا شوخ رنگ شگوفہ پھوٹا۔ اس عجیب الخلقت نظریے کے پہلے اور آخری 'منفعت کیش‘ (Beneficiary) عمران خان اور پی ٹی آئی ٹھہرے۔
جب پی ٹی آئی اس بیانیے کا ڈھول پیٹ رہی تھی کہ خفیہ ایجنسیاں‘ ہمارے خلاف فیصلوں کیلئے ججوں پر دبائو ڈال رہی ہیں تو موسم بہار کے ایک خوشگوار دن‘ 26 مارچ 2024ء کی مشکبوشب‘ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ معزز جج صاحبان نے‘ ایک ہی خواب دیکھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایجنسیاں اپنے پسندیدہ فیصلوں کیلئے کسی نہ کسی طور پر اُن پر دبائو ڈال رہی ہیں۔ علی الصبح ریٹائرنگ روم میں انہوں نے ایک دوسرے کو اپنا خواب سنایا۔ اپنے سینئر ترین رفیق کار‘ جسٹس محسن اختر کیانی کی مشاورت سے چھ جج صاحبان نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک مشترکہ مکتوب روانہ کر کے پوچھا کہ ''ایجنسیاں ہمیں ڈراتی ہیں‘ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ جسٹس کیانی 2018ء میں‘ اُس وقت بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کا معتبر حصہ تھے جب اُن کے ایک سینئر رفیق‘ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اسی نوع کی شکایت پر گھر بھیج دیا گیا تھا۔ تب کسی نے قلم اٹھانا یا زبان ہلانا تو دور کی بات ہے‘ گھر جاتے سینئر رفیقِ کار کو پُرسا دینا بھی گوارا نہ کیا۔ اب مکتوب نگار جج‘ ہر خط میں جسٹس شوکت صدیقی کی بات کو حرفِ حق قرار دیتے ہوئے‘ سند کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جو بات کل تک شوکت عزیز صدیقی کے نامۂ سیاہ کی تیرگی بنی ہوئی تھی‘ آج مکتوب نویس اُسے اپنی زلف کا حسن بنائے پھرتے ہیں۔
اور اب صورتحال یہ ہے کہ 10 مئی 2025ء کے معرکہ حق نے سارا منظر نامہ ہی بدل ڈالا۔ پاکستان عالمی افق پر روشن ستارے کی طرح چمکنے لگا۔ پی ٹی آئی کے خارجی غم گساروں پہ اوس پڑ چکی ۔ اُسے اب ڈر یہ لگا ہے کہ پاکستان داخلی طور پر بھی ایک مستحکم قوت بن گیا تو کوئی اُسے معدوم ہونے سے بچا نہیں پائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے اشتراکِ فکر وعمل کو 'ہائبرڈ نظام‘ یا اپنی کدورت کو تھپکیاں دینے کیلئے کوئی بھی نام دے دیا جائے‘ تاریخ ساز نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔ اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ پی ٹی آئی اُس کی اُڑان کے پَر قینچنے کیلئے‘ ایک بار پھر ان 'مکتوب نگاروں‘ سے لو لگائے بیٹھی ہے جنہوں نے 26 مارچ 2024ء کو اس کے حق میں ایک ''بیانِ حلفی‘‘ جاری کیا تھا۔ وہ دن دیوار پر لکھا دکھائی دے رہا ہے جب پی ٹی آئی پارلیمنٹ کے ایوانوں اور 'مکتوب نگار‘ عدل کی بارگاہوں کو داغِ مفارقت دے جائیں گے۔ انہیں اپنے اپنے اہداف کیلئے ایک بحران کی تلاش ہے جبکہ معرکۂ حق اُن کے ''سیندور‘‘ کے سامنے '' بنیانٌ مرصوص‘‘ بن کے کھڑا ہے۔