حکایت سعدیؒ :حسد

اسپیشل فیچر
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے ایک بار کوتوال کے بیٹے کو دیکھا تو ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مترادف، اسے اپنے مصاحبین میں شامل کر لیا۔ یہ نیک فطرت نوجوان دانا بادشاہ کی توقعات کے عین مطابق ثابت ہوا۔ وفا شعاری، دیانت داری اور شرافت میں وہ اپنی مثال آپ تھا۔ جو کام بھی اس کے سپرد کیا جاتا وہ اسے بخیر و خوبی انجام دیتا تھا۔قابلیت اور شرافت کے باعث جہاں بادشاہ کی نظروں میں اس کی قدرو منزلت زیادہ ہوتی چلی جا رہی تھی وہاں حاسدوں کی پریشانیوں اور دکھوں میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ آخر انہوں نے صلاح مشورہ کر کے نوجوان کے سر ایک تہمت دھری اور بادشاہ کے کانوں تک یہ بات پہنچائی کہ حضور جس شخص کو ہر لحاظ سے قابلِ اعتبار خیال فرماتے ہیں وہ حد درجہ بد فطرت اور بدخواہ ہے۔
اگرچہ حاسدوں نے یہ سازش بہت خوبی سے تیار کی تھی اور انھیں یقین تھا کہ بادشاہ نوجوان کو قتل کروا دے گا لیکن دانا بادشاہ نے یہ بات محسوس کر لی کہ قصور نوجوان کا نہیں بلکہ حاسدوں کا ہے۔ چنانچہ اس نے نوجوان کو بلایا اور اس سے پوچھا، کیا وجہ سے کہ لوگ تمہارے متعلق خراب رائے رکھتے ہیں۔ نوجوان نے جواب دیا، اس کا باعث اس کے سوا کچھ نہیں کہ حضور اس خاکسار پر نوازش فرماتے ہیں۔ بس یہی بات ان کے لیے باعثِ حسد ہے۔
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں ایک درس یہ دیا ہے کہ انسان میں اگر واقعی کوئی خوبی اور ہنر ہو تو وہ قدر دانی سے محروم نہیں رہتا۔انہوں نے دوسری بات یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر خوش بختی سے کسی کو عروج حاصل ہو تو اسے بد خواہوں اور حاسدوں کی طرف سے لاپروا نہیں رہنا چاہیے۔ حاسد کسی بھی وقت کوئی سازش تیار کر سکتے ہیں لہٰذا چوکنا رہنا لازم ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگر کسی کے بارے میں یہ بتایا جائے کہ اس نے فلاں جرائم کیے ہیں تو تحقیق اور سوچ بچار کیے بغیر رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔ کسی بے گناہ کو سزا دینا کسی طور درست نہیں۔ اس لیے حاکموں کوالزامات کی جانچ پڑتال کر لینی چاہیے۔