سانحہ اے پی ایس: جب قوم کا مستقبل لہو میں نہا گیا
لاہور: (محمد ارشد لئیق)16 دسمبر 2014ء کی وہ خونی صبح تاریخ پاکستان کے سیاہ ترین ابواب میں ہمیشہ کیلئے ثبت ہو چکی ہے، جب پشاور کے آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں اور اساتذہ کو دہشت گردی کی وحشیانہ کارروائی کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ سانحہ صرف ایک تعلیمی ادارے پر حملہ نہیں تھا بلکہ انسانیت، علم اور مستقبل پر کاری ضرب تھی، کلاس رومز جو علم کی روشنی سے منور ہونے تھے، لمحوں میں آہوں اور سسکیوں سے بھر گئے، اس دن پاکستان نے اپنے ننھے پھولوں کو کھو دیا اور پوری قوم غم، صدمے اور کرب کے ایک نہ ختم ہونے والے احساس میں ڈوب گئی۔
16 دسمبرجب بھی آتا ہے ہم پاکستانیوں کو دکھی کر دیتا ہے، ہمارے پرانے زخم ایک بار پھر ہرے ہو جاتے ہیں اور یہ دن یاد ماضی کو عذاب بنا دیتا ہے، 16 دسمبر تاریخ کا ایسا تاریک دن ہے جب وطن عزیز پر دوبار قیامت ٹوٹی، پہلی قیامت کی گھڑی وہ تھی جب 1971ء میں ارض پاک کو دولخت کر دیا گیا، دوسری بار قیامت اس سانحہ کے 43 سال بعد ہم پر اس وقت ٹوٹی جب 2014ء میں دشمنوں نے ایک اور گھناؤنی چال چلی، قوم کی پشت میں ایسا چھرا گھونپا جس کی ٹیس آج بھی محسوس ہوتی ہے، سانحہ اے پی ایس پشاور کی آج گیارہویں برسی منائی جا رہی ہے۔
16 دسمبر 2014ء کا دن، ہمارے اذہان سے کبھی نہ محو ہونے والا ایک سیاہ ترین دن ہے، 1099 بچے اپنے روحانی رہنماؤں کے ساتھ اے پی ایس پشاور کی عظیم درس گاہ میں موجود تھے، صبح کے ساڑھے دس بج رہے تھے، جب چھ سفاک دہشت گردوں نے حملہ کیا، انہوں نے دہشت گردوں کا نام و نشان مٹانے میں پیش پیش افواج میں شامل ہونے والی نئی نسل سے جنگ کا آغاز کر دیا تھا، دنیا کی تاریخ میں کسی بھی درس گاہ پر ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ تھا۔
اس روز تمام کلاسوں میں معمول کے مطابق درس و تدریس کا کام جاری تھا، صبح کے 10:30 بج رہے تھے، اچانک 6 دہشت گردوں نے ایک کار سے اترتے ہی سب سے پہلے اپنی کار کو آگ لگائی، یہ بھی ان کے ناپاک پلان کا حصہ تھا، تاکہ کار سے کوئی ان تک نہ پہنچ سکے، سینوں پر خود کش جیکٹیں نظر آ رہی تھیں۔
بعدازاں دیواریں پھلانگتے ہوئے سکول کی عمارت میں داخل ہوئے، وہ سکول کمپلیکس کے عین مرکز میں واقع آڈیٹوریم کی جانب دوڑے، جہاں کچھ طالبعلم جمع تھے، آڈیٹوریم کا بیرونی دروازہ گراؤنڈ کی جانب کھلتا ہے، انہوں نے وہاں سے آنے وانے والے بچوں کو نشانہ بنایا، یرغمال بنانا مقصد نہ تھا وہ تو زیادہ سے زیادہ بچوں کے خون سے ہاتھ رنگنے وہاں پہنچے تھے، انتہائی تربیت یافتہ دہشت گردوں نے سکول کی عمارت میں داخل ہوتے ہی بچوں اور اساتذہ کرام کو اپنے نشانے پر لے لیا، 8 سے 18 سال کے 132 معصوم طلباء سمیت 149 افراد شہید ہوئے، دنیا میں کہیں، کسی بھی ملک میں دہشت گردوں نے بھی سکول میں معصوموں کو نشانہ نہیں بنایا، یوں یہ واقعہ دہشت گردی کی تاریخ میں بھی بدترین مثال بن گیا۔
دہشت گردوں نے سکول کی عمارت میں داخل ہوتے ہی ٹیلی فون لائنیں کاٹ دی تھیں، رابطے منقطع کر دیئے تھے تاکہ کسی کو خبر نہ ہو سکے مگر 15 منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ فضاء میں ہیلی کاپٹر بھی پروازیں کر رہے تھے، ایس ایس جی کے کمانڈوز عمارت کے اندر تھے اور فوج کی ٹیمیں وہاں موجود تھیں، کیونکہ بچوں کی جان پیاری تھی، دہشت گردوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کمانڈوز اتنی جلدی پہنچ جائیں گے ورنہ دہشت گرد تو سب کی جان لینے کے درپے تھے، لیکن فوجی کمانڈوز کو یہ معلوم نہ تھا کہ دہشت گرد کہاں کہاں چھپے ہوئے ہیں، انہوں نے بچوں کو بھی بچانا تھا، کہیں کسی معصوم کو کچھ ہو نہ جائے، چنانچہ سب سے پہلے سکول کی عمارت کو گھیرے میں لے لیا گیا پھر اندر پیش قدمی کی، چند منٹوں کے اندر اندر سکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کی کالیں پکڑ لیں۔
کمانڈوز کے گھیرے میں آنے کے بعد دہشت گرد ایڈمنسٹریشن بلاک میں چھپ گئے، کچھ بچوں کو ڈھال بنانے کی کوشش کی، اسی لمحے گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی، ایک دہشت گرد آڈیٹوریم کے قریب ہی بھاگتے ہوئے مارا گیا، دوسرا دہشت گرد کھڑکی سے فرار ہوتے وقت گولی لگنے سے موت کانوالہ بن گیا، باقی دہشت گرد ایڈمن بلاک میں چھپے ہوئے تھے، کمانڈوز نے تاک تاک کر نشانے باندھے اور چاروں دہشت گرد مارے گئے، یوں 960 بچوں اور عملے کے ارکان کو بچا لیا گیا۔
سانحہ کے بعد اٹھائے گئے اقدامات
16دسمبر 2014ء پاکستان کی تاریخ میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ایک اہم دن بن گیا ہے یہی وہ دن ہے جس کے بعد ہم نے پوری طاقت سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کئے، حساس ادارے انسداد دہشت گردی کیلئے سول حکومت کی پشت پر تھے، دہشت گردوں کا نام و نشان مٹانے کیلئے 15 جون 2014ء کو آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا، جس میں ہزاروں دہشت گرد مارے گئے، دہشت گردوں کیلئے سزائے موت پر سے پابندی ہٹا لی گئی، درجنوں دہشت گرد جو سزائے موت پر عمل درآمد کے منتظر تھے، انہیں بھی ایک ایک کر کے پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
آئین میں 21 ویں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کو بھی سول دہشت گردوں کے خلاف کاررروائی کرنے کا اختیار دیا گیا، آپریشن ضرب عضب میں چند ہی مہینوں میں ہزاروں دہشت گرد مارے گئے اور شمالی وزیرستان کا 90 فیصد علاقہ خالی کرا لیا گیا۔
اس سانحہ کے بعد پوری قوم نے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کیساتھ مل کر ایک ایسے آپریشن کا آغاز کیا کہ جس کا ہدف ایک ایسا پاکستان تھا جہاں ریاست ہی کو طاقت کے استعمال کا حق حاصل ہو، آپریشن ردالفساد میں قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی کمین گاہوں کو ختم کیا گیا۔
قبائلی علاقوں کے بیشتر حصے پر حکومتی عملداری قائم ہوئی، اس آپریشن میں فوج کے کئی جوانوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا، یہ زیادہ دُور کی بات نہیں کہ جب 2007ء اور 2008ء میں قبائلی علاقوں میں ریاست کی عملداری نہیں تھی، آج قبائلی علاقے ریاستِ پاکستان کا حصہ ہیں اور ریاست کی عملداری تمام علاقوں میں ہے، دہشتگردی کیخلاف کامیاب جنگ میں 46 ہزار مربع کلومیٹر کا ایریا کلیئر کیا گیا، 18ہزار سے زائد دہشت گرد مارے گئے، 75ہزار اسلحہ ریکور کیا گیا۔
پاکستان نے جہاں 2611 کلو میٹر بارڈر فینسنگ کا بیڑہ اْٹھایا، وہیں بارڈر فورٹس اور ٹرمینل بھی قائم کئے، پاکستان کے بروقت اقدامات کے باعث افغانستان کے اندر کے حالات و واقعات کے اثرات سے پاکستان محفوظ رہا، بلوچستان میں ہندوستان کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا گیا اور کراچی کو پر امن بنایا گیا، پنجاب سے دہشت گردوں کا خاتمہ اور NAPکے تحت 60 سے زائد تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا۔
سانحہ اے پی ایس پشاور محض ایک اندوہناک واقعہ نہیں بلکہ قومی تاریخ کا وہ زخم ہے جو وقت گزرنے کے باوجود آج بھی تازہ ہے، اس سانحے نے ہمیں یہ سبق دیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ اتحاد، انصاف، تعلیم اور شعور سے لڑی جاتی ہے، معصوم شہداء کے خون نے پوری قوم کو ایک لڑی میں پرو دیا اور یہ عہد لینے پر مجبور کیا کہ ہم نفرت، انتہا پسندی اور ظلم کے سامنے کبھی سر نہیں جھکائیں گے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان شہداء کی قربانیوں کو محض یادگاروں تک محدود نہ رکھیں بلکہ ایک پرامن، محفوظ اور روشن مستقبل کی تعمیر کیلئے عملی اقدامات کریں تاکہ آئندہ کوئی ماں اپنے لخت جگر کو یوں علم کی راہ میں قربان ہوتا نہ دیکھے۔
محمد ارشد لئیق سینئر صحافی ہیں اور روزنامہ دنیا کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہیں۔