ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکی میڈیا کے مخدوش حالات …(1)

تحریر: مائیکل گرِن بام

میڈیا کی دنیا کے بزنس کے کسی بھی معیار کی رو سے دیکھا جائے تو آج کے ڈیجیٹل دور میں اس کے مالی حالات بہت بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ پچھلے چند ہفتے امریکی صحافت کے لیے خاص طور پر زیادہ تشویش ناک سمجھے جا سکتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ جیسے معروف جرائد بھی اپنے رپورٹرز، ایڈیٹرز اور دیگر کارکنوں کو ملازمت سے برخاست کر رہے ہیں جبکہ منگل کے روز دی لاس اینجلس ٹائمز نے اپنے نیوز روم میں خدمات انجام دینے والے بیس فیصد سے زائد سٹاف کو برطرف کر دیا۔ جس وقت آئندہ الیکشن میں امریکی صدارت کی نامزدگی کے لیے ہونے والے پرائمری انتخابات ہو رہے ہیں اور اس میں کسی قسم کی مسابقت بھی نظر نہیں آ رہی‘ عین اسی وقت کیبل نیوز کی ریٹنگ بہت نیچے گر چکی ہے۔ اخبار کی دنیا کا ایک اور معروف نام ’’سپورٹس اِلسٹریٹڈ‘‘ جو پہلے ہی مخدوش حالات سے گزر رہا تھا‘ راتوں رات سنگین مالیاتی مشکلات میں گھِر چکا ہے۔

ایک طرف جب امریکی عوام ایک ایسے صدارتی الیکشن کی طرف گامزن نظر آتے ہیں جس میں ڈِس انفارمیشن پر مبنی سیاسی جنگ اپنے عروج پر ہو گی، آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا تخلیق کردہ سیاسی پروپیگنڈا اور جمہوریت کے مستقبل پر ہونے والے مباحث کے وقت مین سٹریم نیوز انڈسٹری‘ جو کبھی عوامی مکالمے کے حقیقی سہولت کار اور ڈی فیکٹو محافظ کا کردار ادا کرتی تھی‘ آج اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ میڈیا کے بزنس کے زوال کا درد خاص طور پر کمیونٹی کی سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سے منسلک میڈِل سکول کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ہر دو ہفتوں میں پانچ مقامی اخبار بند ہو رہے ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ تمام امریکی کائونٹیز میں سے نصف سے زائد اب ایک لحاظ سے اخباری صحرا کا روپ دھار چکی ہیں، اب انہیں اپنی مقامی یا ہوم ٹائون خبروں تک ایک محدود سی رسائی حاصل ہے۔ امریکہ میں کل گیارہ سو سے زائد سرکاری ریڈیو سٹیشنز اور ان کے منسلک ادارے اپنی نشریات پیش کر رہے تھے‘ اس وقت ان کے حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ ہر پانچ ریڈیو سٹیشنز میں سے صرف ایک مقامی صحافت پر مبنی پروگرامز پیش کر رہا ہے۔

سی بی ایس نیوز کے سابق صدر اینڈریو ہیورڈ‘ جو میسا چیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ریسرچرز کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر نیوز اور انفارمیشن کے مستقبل کے حوالے سے سٹڈی کر رہے ہیں‘ کا کہنا ہے کہ ’’اس وقت ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جب بجا طورپر ماضی کے مقابلے میں ہمیں کہیں زیادہ نیوز کوریج کی ضرورت ہے، یہ دیکھ کر سخت تکلیف ہو رہی ہے کہ معاشی فورسز کس قدر بھرپور قوت اور پوری پلاننگ کے ساتھ روایتی نیوز سورسز کے خلاف برسر پیکار نظر آتی ہیں‘‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’یہ محض تکلیف دہ اور تشویش ناک پہلو ہی نہیں ہے بلکہ انتہائی خطرناک بھی ہے‘‘۔

میڈیا بالخصوص اخباری دنیا کا یہ زوال کئی سال سے چل رہا ہے لیکن اب کئی چیلنجز ایک مقام پر آکر اس طرح اکٹھے ہو گئے ہیں کہ اس امتزاج کے نتیجے میں ہمیں تباہ کاری کے موجودہ مناظر دیکھنا پڑ رہے ہیں۔ امریکی شہری خاص طور پر اخباری قارئین اب خبرو ں سے بیزاری کی حد تک تھک چکے ہیں جو ہر وقت ایک ہی طرح کی اخباری کہانیوں کے گرداب میں پھنسے نظر آتے ہیں مثلاً انہیں ہر وقت امریکہ میں آئندہ ہونے والے انتخابات کی خبریں یا مشرق وسطیٰ اور یوکرین میں ہونے والی جنگوں کے بارے میں ہی خبریں پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ جو لوگ بھی خبروں میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں ان کی بڑی تعداد اب روایتی ذرائع ابلاغ سے بیزار ہو کر سوشل میڈیا کا رخ اختیار کر چکی ہے یا معروف اخبارات کے بجائے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سائٹس کی طرف متوجہ ہو گئی ہے۔

بڑی کمپنیاں اپنے اشتہارات کا زیادہ تر بجٹ انسٹا گرام یا گوگل جیسے بڑے ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز کے صارفین تک رسائی حاصل کرنے پر خرچ کر رہی ہیں جو اس وقت اتنے قابل اعتبار نہیں رہے کہ اپنے قارئین کو روایتی نیوز سورسز کی طرف ریفر کریں۔ مثال کے طور پر معروف پلیٹ فارم ٹویٹر‘ جو ایلون مسک کی ملکیت میں جانے کے بعد ’ایکس‘ بن چکا ہے‘  اپنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے شدید مالیاتی بحران کا شکار ہونے کے بعد اپنے صارفین کی ایک بہت بڑی تعداد سے محروم ہو چکا ہے۔ اسی طر ح کی صورت حال کا گوگل اور میٹا کو بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ دونوں پلیٹ فارمز بھی اپنے ملازمین کی خاصی بڑی تعداد کو برخاست کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جبکہ انسٹاگرام کے Threads App کے سربرا ہ کا کہنا ہے کہ اب ان کا پلیٹ فارم خبروں پر فوکس نہیں کرے گا۔ اس زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کارپوریٹ لیول پر بھی اخبارات کے بزنس کو ایک بڑی قیمت چکانا پڑی ہے۔ سوشل میڈیا کی سٹریمنگ میں اضافہ ہونے اور فلم بینی کے رجحان میں کمی نے بھی نیوز آئوٹ لیٹس کی بانی کمپنیوں کے مالی حالات بہت زیادہ سخت کر دیے ہیں۔

 ڈِزنی‘ جو اے بی سی نیوز کی ملکیت رکھتا ہے‘ نے پچھلے سال اپنے ہزاروں ملازمین کو نوکری سے برطرف کر دیا تھا۔ اسی طرح این بی سی یونیورسل بھی اپنے معروف کیبل ٹی وی ڈویژن کے ناظرین سے محروم ہو چکا ہے، این بی سی بھی اسی مہینے اپنے سینکڑوں ملازمین کو برخاست کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ سی این این‘ جو وارنر برادرز کی ملکیت ہے‘ قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے، معروف ڈسکوری چینل بھی بار بار اپنے ملازمین کی چھانٹی کر رہا ہے۔ پیرامائونٹ بھی‘ جو سی بی ایس کے ملکیتی حقوق رکھتا ہے‘ اس کے ایک عہدیدار کے مطابق جو اندر خانے چل رہی بحث اور معاملات سے بخوبی آگاہ ہے‘ انتظامی سطح پر ملازمین کی چھانٹی اور بجٹ میں بڑی کٹوتیوں کی پلاننگ کی جا رہی ہے۔

دی نیویارک ٹائمز، دی نیویارکر اور دی بوسٹن گلوب اس لیے بڑے مالیاتی بحران کا شکار ہونے سے فی الحال محفوظ رہے کہ انہوں نے بڑ ی کامیابی سے ڈیجیٹل سبسکرائبرز کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ ان کے پاس مستحکم سبسکرپشن پر مبنی ایسے سٹارٹ اپس موجود تھے جنہوں نے زیادہ تر سنگل انڈسٹری کو اپنا ہدف بنایا جیسا کہ ٹیک کے لیے ’’دی انفارمیشن‘‘ یا ہالی وُڈ کے لیے ’’دی اینکلر‘‘ ہے۔ 

نیوز انڈسٹری جو خود کو وسیع پیمانے پر پائیدار بزنس ماڈلز پر استوار کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے‘ تکلیف دہ ہیڈلائنز کی بھرمار اس کی ساری محنت کو صرف غارت ہی نہیں کرتی بلکہ صحافتی دنیا کے لیے بدشگونی کا باعث بھی بنتی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ اور دی لاس اینجلس ٹائمز کی خوش قسمتی کہ وہ اس لیے اس مالی بحران کا شکار ہونے سے بچ گئے کیونکہ انہیں ٹیک انڈسٹری کے ارب پتی مالکان نے خرید لیا تھا اور وہ نیوز انڈسٹری کے لیے ایک مالیاتی محسن ثابت ہوئے جن کی بدولت اُس وقت ایک بڑی مالی لائف لائن مل گئی جب پرنٹ میڈیا کی آمدنی بہت سکڑ چکی تھی۔ (جاری)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement