مسائل کسی نجی کاروبار کے ہوں یا ملک کے‘ ان کو بروقت حل کرنا بہترین حکمت عملی کے باعث ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ بیورو کریسی اور سیاستدان مسائل حل کرنے کے بعد کریڈٹ لیتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان سے یہ سوال نہیں کیا جاتا کہ مسئلہ دیر سے حل کرنے کا جو نقصان ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن پچھتر سالوں میں اس جرم کی سزا شاید کسی کو نہیں دی گئی۔ ایک نقصان سرکاری خزانے کو ہوتا ہے اور دوسرا کاروباری طبقے کو۔ سرکاری خزانے کو پہنچنے والے نقصان پر شاید کبھی کبھار پوچھ گچھ ہو جائے لیکن کاروباری طبقے کو پہنچنے والے نقصان پر بیوروکریسی یا سیاستدانوں کے احتساب کا رواج نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کاروباری طبقہ آئے روز حکومت سے نالاں رہتا ہے۔ گڈز ٹرانسپورٹرز نے چار روز ہڑتال کیے رکھی۔ سندھ حکومت نے 1970ء سے رجسٹرڈ گاڑیوں کی رجسٹریشن منسوخ کرنا شروع کر دی تھی اور دیگر کئی پابندیاں بھی لگا دی تھیں۔ ٹرانسپورٹرز کے مطابق اچانک نوٹیفیکیشن کر کے پابندیاں لگانا نامناسب ہے‘ اس کے لیے چھ ماہ کا وقت دیا جانا چاہیے۔ چار روز بعد ہڑتال ختم ہو گئی اور سندھ حکومت نے ٹرانسپورٹرز کو چھ ماہ کا وقت دے دیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان چار روز میں جو نقصان ہوا اس کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے؟ یقینا یہ نقصان کسی کی نااہلی کے باعث ہوا ہے۔ چھ ماہ کا وقت ہڑتال کے بعد دے دیا گیا۔ نوٹس جاری کرنے سے پہلے اگر ٹرانسپورٹرز کے نمائندوں سے مذاکرات کر لیے جاتے اور یہ وقت انہیں پہلے دے دیا جاتا تو ملک اور کاروباری طبقے کو نقصان نہ ہوتا۔ ہڑتال کرنے سے ٹرانسپورٹرز اور سرکار کو تو نقصان ہوا لیکن سب سے زیادہ نقصان برآمدکنندگان کو ہواہے۔ خصوصی طور پر زرعی اجناس کی تجارت کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان روزانہ اوسطاً چار ملین ڈالرز کا چاول برآمد کرتا ہے۔ یہ رقم تقریباً ایک ارب 12 کروڑ روپے بنتی ہے۔ چار دنوں میں تقریباًچھ ارب روپے سے زائد کا چاول برآمد نہیں کیا جا سکا۔ چاول کا معیار کم ہونے کے ساتھ تاخیر سے پہنچنے کا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑ سکتا ہے اور ملکی ساکھ بھی خراب ہو سکتی ہے۔ اسی طرح آلو‘ پیاز‘ جوسز اور پلپ کی برآمد بھی متاثر ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 30 لاکھ ڈالرز کی سبزیاں اور پھل بندرگاہوں اور گوداموں میں خراب ہوتے رہے۔ اگر مجموعی نقصان کا تخمینہ لگایا جائے تو تقریباًدوکروڑ ڈالرز بنتا ہے۔ کیا وزرا اور بیوروکریٹس اس نقصان کو پورا کر سکتے ہیں؟ تمام ٹرمینل آپریٹرز عام طور پر روزانہ اوسطاً پانچ ہزار کنٹینرز کلیئر کرتے ہیں ان میں درآمدی اور برآمدی دونوں شامل ہیں۔ چار روز کی ہڑتال کے نتیجے میں تقریباً بیس ہزار کنٹینرز پھنس گئے۔ زرعی اجناس کے تاجر ہوائی راستے سے مال بھیجنے پر مجبور تھے جو بہت مہنگا ذریعہ ہے۔ وقتی طور پر اس مہنگے روٹ کو استعمال کرنے کا مقصد انٹرنیشنل مارکیٹ میں کلائنٹ خراب نہ کرنا ہوتا ہے کیونکہ کسٹمرز کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ آپ کے ملک میں کیا چل رہا ہے۔ اگر انہیں وقت پر مال نہیں ملے گا تو وہ سپلائر تبدیل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگائیں گے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ماضی میں کپاس ایکسپورٹ کرنے والا ملک آج کپاس درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ پچھلے سال کی نسبت دو گنا زیادہ کپاس درآمد کی گئی ہے اور ٹیکسٹائل برآمدات تقریباً 13 کروڑ ڈالرز سے کم ہو کر تقریباً 11ارب ڈالرز رہ گئی ہیں۔ ہڑتالیں اور بڑھتی ہوئی درآمدات نہ صرف زرعی معیشت کے لیے خطرناک ہیں بلکہ بین الاقوامی منڈیوں میں پاکستان کی ساکھ کو بھی طویل مدتی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ وزیراعظم ملک میں زرعی ترقی کے انقلابی دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ہفتے کے روز انہوں نے زرعی ماہرین‘ بیوروکریٹس اور زرعی برآمدکنندگان سمیت کئی سٹیک ہولڈرز کو مدعو کیا اورزراعت کو جدید طریقوں پر استوار کرنے اور فریقین کی تجاویز کا جائزہ لے کر مربوط حکمت عملی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم کی مداخلت کے بعد ہی ٹرانسپورٹرز نے ہڑتال ختم کی۔ وزیراعظم سے گزارش ہے کہ وہ چار دن میں ہونے والے نقصان کے ذمہ داران کے تعین کے لیے ایک کمیٹی بنائیں تاکہ مستقبل میں معیشت کو نقصان پہنچانے والے فیصلوں کو روکنے کا راستہ ہموار ہو سکے۔
جب سرکار کاروباری طبقے کو تحفظ دینے کے لیے اقدامات کرتی ہے تو اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اضافے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ وفاقی حکومت بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کوششیں کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے منافع بیرون ملک لے جانے میں نرمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ پچھلے نو ماہ میں تقریباً ایک ارب 72 کروڑ ڈالرز کا منافع بیرون ملک منتقل کیا گیا جو پچھلے سال کے اسی عرصے میں تقریباً 82کروڑ 60لاکھ ڈالر تھا۔ منافع کے اخراج سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھ سکتا ہے اور آئی ایم ایف کی شرط بھی پوری ہوتی ہے۔سب سے زیادہ منافع برطانیہ اور پھر امریکہ منتقل ہوا۔ چین پاکستان کا سب سے بڑا بیرونی سرمایہ کار ملک ہے اور اس کا نو ماہ کا منافع سات کروڑ 90 لاکھ 70 ہزار ڈالر سے بڑھ کر 20 کروڑ 10 لاکھ ڈالر ہوگیا ہے‘ لیکن منافع کی منتقلی میں وہ پاکستان پر بوجھ ڈالنا شاید مناسب نہیں سمجھتا۔ امریکہ نے سب سے زیادہ منافع( تقریباً 19 کروڑ ڈالر) پاکستان سے امریکہ منتقل کیا ہے جو پچھلے سال کے اسی عرصے میں ہونے والی منتقلی کی نسبت چار گنا زیادہ ہے۔ آئی ایم ایف کئی سالوں سے بیرونی سرمایہ کاروں کے منافع کو بغیر کسی رکاوٹ کے بیرونِ ملک بھیجنے کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن ڈالرز کی کمی کی وجہ سے اسے پورا نہیں کیا جا سکا۔ حالیہ مہینوں میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلاتِ زر میں اضافے کے نتیجے میں ڈالرز میں منافع کی بیرونِ ملک منتقلی سے زیادہ مسائل پیدا نہیں ہوئے۔ڈالر کی قدر میں معمولی اضافہ ہوا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر آٹھ ماہ کی کم ترین سطح پر ہیں‘ لیکن ترسیلاتِ زر میں مسلسل اضافے سے یہ امید پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ سٹیٹ بینک جلد ہی زرمبادلہ ذخائر14 ارب ڈالر تک لے جاسکتا ہے۔ مارچ میں چار ارب ڈالرز سے زیادہ ترسیلاتِ زر موصول ہوئی ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں کسی ایک ماہ میں موصول ہونے والی سب سے زیادہ ترسیلاتِ زر ہیں۔اس سے امید پیدا ہوئی ہے کہ مالی سال کے اختتام تک تقریباً 38 ارب ڈالرز ترسیلاتِ زر کی مد میں پاکستان آ سکتے ہیں۔ترسیلاتِ زر میں اضافے کے سبب حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر بھی قابو پایا ہے اور رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں ایک ارب 85 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز سرپلس ہو گیا ہے جو پچھلے سال کے اسی عرصے میں ایک ارب 65 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز خسارے میں تھا۔ رواں سال مارچ میں 1.2 ارب ڈالر کا ماہانہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا۔ یہ مارچ 2024ء کی نسبت 229 فیصد زیادہ ہے۔ اس کی وجہ ترسیلاتِ زر میں اضافہ اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کے کیا اثرات ہوں گے اور سرکار اسے کس طرح مینج کرے گی اس بارے میں یقین سے کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔مقامی ڈیجیٹل ادائیگیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں ڈیجیٹل ادائیگیاں چھ ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گئی ہیں‘جو ظاہر کرتا ہے کہ عوام ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام سے خوفزدہ نہیں۔ تقریباً 80 فیصد معاشی اعدادوشمار مثبت آرہے ہیں۔ موجودہ پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے۔ اگر یہ حکومت اپنا وقت مکمل کر گئی تو معیشت مزید مضبوط ہو سکتی ہے۔