ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے صوبہ پنجاب کے تین شعبوں میں بہتری کیلئے تقریباً 38 کروڑ ڈالرز سے زائد قرض اور گرانٹس کی منظوری دی گئی ہے۔ زراعت‘ تعلیم اور صحت کے شعبوں کو بہتر بنانے کیلئے یہ رقم دی جائے گی۔ زرعی شعبے کو ماحول دوست مشینری اور جدید طریقوں سے لیس کرنے کیلئے 12 کروڑ ڈالر قرض اور 40 لاکھ ڈالر گرانٹ منظور کی گئی ہے۔ سکینڈری سطح پر سائنس‘ ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کی تعلیم کو جدید اور قابلِ رسائی بنانے کیلئے 10 کروڑ ڈالرز قرض اور 70 لاکھ ڈالر گرانٹ منظور ہوئی ہے۔ اسی طرح صحت کے شعبے کیلئے نرسنگ اور ہیلتھ ورک فورس کو تقویت دینے‘ نرسنگ کی تعلیم بہتر کرنے‘ تربیت کے جدید مراکز قائم کرنے اور صحت کے شعبے کی استعداد بڑھانے کیلئے 15 کروڑ ڈالر قرض منظور کیا گیا ہے۔ قرض یا گرانٹ ملنا صوبے کیلئے ایک اچھی خبر ہو سکتی ہے لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ان فنڈز کے ثمرات عوام تک پہنچ پاتے ہیں یا نہیں۔ عوامی سطح پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ غیر ملکی قرضوں کے اصل بینی فشری بیورو کریسی اور سیاستدان ہوتے ہیں کیونکہ اس طرح کے فنڈز پر چیک اینڈ بیلنس زیادہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اے ڈی بی‘ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ماضی میں قرضوں اور گرانٹس کے استعمال کے حوالے سے سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب بہتر کام کرتی دکھائی دے رہی ہیں اور امید ہے کہ وہ ان فنڈز کا بہتر عوامی استعمال یقینی بنائیں گی۔ جن منصوبوں میں قرض یا گرانٹ شامل نہیں ہوتی ان میں حکومت کی کارکردگی زیادہ بہتر دیکھی جا سکتی ہے۔ فی الحال پنجاب میں عوامی فلاح کے بہت سے منصوبے چل رہے ہیں اور ان سے متعلق عوامی رائے بھی مثبت ہے‘ بلکہ کچھ منصوبوں کو عالمی سطح پر بھی پذیرائی مل رہی ہے۔ ایک عالمی جریدے نے ستھرا پنجاب پروگرام کو غیر معمولی‘ حوصلہ افزا اور دنیا کا سب سے بڑا ویسٹ مینجمنٹ سسٹم قرار دیا ہے۔ صرف آٹھ ماہ میں پنجاب کے شہروں اور 25 ہزار دیہات میں صفائی کا مربوط نظام قائم کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے‘ جو 13 کروڑ آبادی سے روزانہ 50 ہزار ٹن فضلہ اکٹھا کر کے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پراسیس کرتا ہے۔ مالی سال 2025-26ء کے بجٹ میں تقریباً 150 ارب روپے ستھرا پنجاب منصوبے کیلئے مختص کیے گئے۔ موجودہ حالات میں اخراجات تقریباً 190 ارب تک ہو سکتے ہیں۔ ابھی تک اس منصوبے کیلئے کوئی قرض یا گرانٹ نہیں ملی۔ ورلڈ بینک نے دلچسپی کا اظہار کیا تھا لیکن ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ ستھرا پنجاب منصوبے کے نتائج کو دیکھ کر یہ رائے قائم کی جا سکتی ہے کہ منصوبے کو کامیاب بنانے کیلئے قرضوں کی نہیں بلکہ بہتر حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔
خبر ہے کہ پنجاب حکومت نے بسنت کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ تہوار عام آدمی کی معاشی حالت میں بہتری کا باعث بن سکتا ہے‘ ٹورازم میں اضافہ ہو سکتا ہے اور ملک کا امیج بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ بسنت ایک فیسٹیول اکانومی ہے۔ جب 2005-06ء میں اس پر پابندی لگی تھی اس وقت تک یہ صنعت کا درجہ اختیار کر چکی تھی۔ گھروں میں خواتین کیلئے روزگار کا بڑا ذریعہ تھا اور شہر کی تمام بلند نجی اور سرکاری عمارتوں کی چھتیں بک ہوتی تھیں‘ جن سے کروڑوں روپے آمدن ہوتی تھی۔ لباس‘ خوراک‘ کاغذ‘ دھاگے‘ ہوٹل‘ ایونٹ مینجمنٹ‘ سائونڈ سسٹم‘ ویزے‘ ٹکٹس‘ نان بائیوں سمیت تقریباً 20 سے زیادہ شعبوں کیلئے یہ بڑی معاشی ایکٹوٹی ہوتی تھی۔ بسنت ملک اور عوام کیلئے اسی صورت فائدہ مند ہو سکتی ہے جب طے کردہ قوانین اور پابندیوں پر سو فیصد عمل درآمد کرایا جائے۔ بصورت دیگر فائدے سے زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔ گلے پہ ڈور پھرنے اور چھتوں سے گرنے سے جو جانی نقصان ہو گا اس کا کوئی مداوا نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ بجلی کے تاروں کو ڈور سے جو نقصان پہنچتا ہے‘ وہ بھی بہت زیادہ ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کا ایک بیان سامنے آیا ہے کہ خلیجی ممالک کے ساتھ تجارت کے نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے‘ تاہم اس حوالے سے تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے حکمران اس طرح کے دعوے کرتے آ رہے ہیں لیکن بہتر نتائج سامنے نہیں آ سکے۔ اس وقت پاکستان اور خلیجی ممالک کی تجارت میں تقریباً 13 ارب ڈالرز سے زائد کا تجارتی خسارہ موجود ہے۔ پاکستان ان ممالک سے تیل‘ گیس اور کیمیکل مصنوعات درآمد کرتا ہے۔ چاول‘ گوشت‘ پھل سبزیاں‘ ٹیکسٹائل اور آئی ٹی سروسز سمیت متعدد اشیا برآمد کرتا ہے۔ پاکستان کیلئے خلیجی ممالک کے ساتھ تجارت بڑھانا ایک آسان ہدف ہو سکتا ہے۔ سفارتی تعلقات بھی بہتر ہیں‘ پاکستانیوں کی بڑی تعداد ان ممالک میں موجود ہے‘ تجارتی جڑیں کافی گہری ہیں۔ خلیجی ممالک خوراک‘ زراعت اور لباس کیلئے دیگر ممالک پر انحصار کرتے ہیں اور پاکستان ان شعبوں میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ نایاب پراڈکٹس پیدا کرتا ہے۔ خدمات کے شعبے میں پاکستان کی کارکردگی بہت بہتر ہے اور ان میں آئی ٹی سیکٹر سرفہرست ہے۔ موجودہ مالی سال کے ابتدائی چار ماہ میں سروسز ایکسپورٹس میں تقریباً 16 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بہتر لابنگ سے جی سی سی ممالک میں پاکستانی مصنوعات کی تجارت اور آئی ٹی سروسز میں شیئر کو نمایاں حد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
اس وقت حکومت ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کی کوششیں کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان اور ترکیہ نے تیل اور گیس کی تلاش کیلئے پانچ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدے دونوں ممالک میں توانائی اور معدنیات کے شعبے میں شراکت داری کو بڑھانے کا نیا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ پاکستان کیلئے توانائی کے شعبے میں خود کفالت حاصل کرنے کی کوششوں میں یہ اقدام اہم پیشرفت ہو سکتا ہے۔ اس سے توانائی کی درآمدی ضروریات میں کمی اور ملکی معیشت کو مستحکم بنانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ ترکیہ کے ساتھ شراکت داری سے پاکستان کو تکنیکی مہارت‘ سرمایہ کاری اور بین الاقوامی تجربے کا فائدہ بھی حاصل ہو سکتا ہے جو توانائی اور معدنیات سیکٹر کی ترقی اور روزگار کے مواقع بڑھانے میں معاون ثابت ہو گا۔ مفاہمتی یادداشتیں مستقبل میں سرمایہ کاری اور دو طرفہ تعاون کی بنیاد رکھتی ہیں‘ لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ ان سے فوری پیداوار یا نتائج حاصل ہوں گے۔ کامیابی اسی وقت سامنے آئے گی جب یہ منصوبے عملی طور پر شروع ہوں گے اور توانائی کے نئے دریافت شدہ ذخائر سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔ بیرونی سرمایہ کاری کیلئے ڈالر کی قیمت پر عارضی کنٹرول ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ دسمبر کے آخر تک ڈالر کی قیمت میں مزید کمی آ سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو برآمد کنندگان اور سرمایہ کاروں کی تشویش بڑھ سکتی ہے۔
پاکستان نے ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام میں ایک نیا قدم اٹھایا ہے۔ کچھ بینکوں اور پے پاک کے اشتراک سے نیا co-badged کارڈ متعارف کرایا گیا ہے جو مقامی اور بین الاقوامی ادائیگی نیٹ ورک کو لنک کرتا ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان کے مالیاتی نظام کیلئے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے نہ صرف صارفین کو سہولت میسر آئے گی بلکہ ادائیگیوں کے قومی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے میں بھی یہ پیشرفت مددگار ثابت ہو گی۔ صارفین اب ای کامرس اور بین الاقوامی ادائیگیاں آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اس سے بیرونی نیٹ ورکس پر انحصار کم ہو گا۔ co-badging کے بڑھتے ہوئے رجحانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی ادائیگی سکیم عالمی معیار کے اداروں کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کر رہی ہے۔ یہ اقدام پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں شفافیت اور آسانی لانے کے حوالے سے اہم پیشرفت ہے۔ جیسے جیسے مزید بینک ایسے ماڈلز اپنائیں گے‘ صارفین کو سہولت میسر آئے گی اور ملک کے مالیاتی نظام میں استحکام اور اس پہ اعتماد بڑھے گا۔ یہ نہ صرف صارفین کیلئے فائدہ مند ہے بلکہ قومی اقتصادی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔