دنیا کے افق پر دھواں چھا رہا ہے مگر یہ دھواں بارود کا نہیں بلکہ معاشی جنگ کا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اب جنگ میزائلوں سے نہیں‘ ڈالر‘ یوآن‘ سونا‘ چاندی اور کرپٹو سے لڑی جا رہی ہے۔ شاید یہ طے ہو چکا ہے کہ عالمی طاقتیں میدانِ جنگ میں نہیں مالیاتی منڈیوں میں آمنے سامنے ہوں گی۔ جس نے یہ جنگ جیت لی وہی آنے والے وقت کا حکمران ہو سکتا ہے اور جس نے ہار مانی وہ اپنی معیشت کے ملبے تلے دب سکتا ہے۔
گیارہ اکتوبر کی صبح جب ڈیجیٹل معاشی سرمایہ کاروں کی آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ تجارتی جنگ میں امریکہ نے معاشی ایٹم بم سے حملہ کر دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر 100 فیصد اضافی ٹیرف لگا دیا۔ پہلے ٹیرف 30 فیصد تھا‘ اس حساب سے یہ ٹیرف 130 فیصد ہو گیا۔ چین‘ امریکہ تجارت میں امریکہ کو تقریباً 295 ارب ڈالر تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ ٹیرف لگا کر امریکہ چین کو معاشی نقصان پہنچانا چاہتا ہے تاکہ وہ سونے کی خریداری روکے۔ چین 2022ء سے غیر معمولی سطح پر سونے کی خریداری کر رہا ہے۔ چین پر ٹیرف کا اعلان دنیا بھر کی کرپٹو مارکیٹ میں بھونچال کا سبب بنا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ بِٹ کوائن 25 ہزار ڈالرز گر گیا۔ ایک ہی جھٹکے میں تقریباً 19 ارب ڈالرز صفر ہو گئے اور دنیا کو تقریباً 200 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔ چین پر ٹیرف اور بٹ کوائن میں گہرا تعلق ہے۔ بٹ کوائن مائننگ میں استعمال ہونے والے پروسیسر اور چپس چین فراہم کرتا ہے۔ 100 فیصد ٹیرف سے کرپٹو مائننگ کا خرچ بھی سو فیصد بڑھ سکتا ہے۔ منافع کم ہونے کے ڈر سے بٹ کوائن کی فروخت بڑھ جاتی ہے۔
پاکستانی عوام بھی اس سے بری طرح متاثر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کرپٹو امورکے وفاقی عہدیدار نے بتایا کہ ہمارے اعداد وشمار کے مطابق پاکستانی عوام کے پاس 36 ارب ڈالر کی کرپٹو کرنسی موجود ہے۔ 10 اکتوبر کے کریش نے ایک ہی جھٹکے میں پاکستانیوں کو تقریباً 9 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ حکومت ان 36 ارب ڈالرز کو سرکاری ریکارڈ میں لانے اور ملکی ذخائر کا حصہ بنانے کیلئے کوشاں تھی‘ اب شاید 27 ارب ڈالرزکو سسٹم کا حصہ بنایا جا سکے۔ امریکہ چین کشیدگی نے امریکی سٹاک مارکیٹ کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ آج (سوموار کو) مارکیٹ کھلتے ہی پاکستان کی سٹاک مارکیٹ بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ پہلے ہی امریکہ میں شٹ ڈاؤن‘ پاک بھارت کشیدگی‘ افغانستان میں آپریشن اور آئی ایم ایف کی جانب سے 11 ارب ڈالرز کی درآمدات چھپانے کے اعتراضات نے پاکستان میں پچھلا پورا ہفتہ سٹاک مارکیٹ کو مسلسل منفی رکھا ہے اور انڈیکس 6500 پوائٹس سے نیچے آ گیا۔ یہ صورتحال مئی کی جنگ میں بھی نہیں تھی۔ نو‘ دس مئی کی جنگ میں بھی تین دن مارکیٹ منفی رہنے کے بعد مثبت پر بند ہوئی تھی۔ اس مرتبہ پورے آٹھ دن مارکیٹ منفی رہی۔ اگر یہ کہا جائے کہ میزائلوں کی جنگ میں پاکستان کا اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا معاشیات کی جنگ میں ہو رہا ہے تو شاید غلط نہ ہو۔
جب سرمایہ کار کو ڈالر پر بھروسا نہ رہے‘ جب فیکٹریوں کے دروازے بند ہو جائیں‘ سٹاک مارکیٹ منفی ہو جائے تو لوگ اپنے خواب سونے اور چاندی میں محفوظ کرنے لگتے ہیں۔ اسی لیے آج سونا چمک رہا ہے‘ مگر عام آدمی جل رہا ہے۔ پاکستان میں سونے اور چاندی کی قیمت بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ کئی اور وجوہات بھی ہیں جن میں چین‘ بھارت اور ترکیہ کی جانب سے بڑے پیمانے پر ڈالرز بیچ کر سونے کی خریداری میں دلچسپی لینا ہے تاکہ اگر کل کو امریکہ ان ممالک پر ڈالرز سے تجارت پر پابندی لگائے تو وہ سونے کے ذخائر سے خرید وفروخت کر سکیں۔ چین ڈالر پر انحصار تیزی سے ختم کر رہا ہے۔ 2013ء میں اس کے پاس 14 ٹریلین ڈالرز کے ذخائر تھے جو 2025ء میں کم ہو کر صرف 770 ارب ڈالرز رہ گئے ہیں۔ چین ڈالر بیچ رہا ہے اور سونا خرید رہا ہے۔ سعودی عرب اور ایران سے تیل کی خریداری چین ڈالر کی بجائے یوآن میں کر رہا ہے۔ یہ ممالک یوآن کے بدلے ہانگ کانگ اور شنگھائی ایکسچینجز سے سونا خرید لیتے ہیں۔ یعنی اصل تجارت سونے ہی میں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے امریکی ڈالر کی قدر مسلسل کم ہو رہی ہے اور یوآن مضبوط ہو رہا ہے۔ چین جانتا ہے کہ اصل طاقت کاغذ کے نوٹ میں نہیں‘ دھات کی چمک میں ہے۔ مضبوط یوآن پاکستان کیلئے بھی فائدہ مند ہے۔ پاکستان پر سب سے زیادہ قرض چینی ہے۔ اگر اس کی ادائیگی ڈالر کے بجائے یوآن میں کرنے کا معاہدہ ہو جائے تو پاکستان کو ایک ہی معاہدے سے تقریباً 29 ارب ڈالرز کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ دنیا میں آج بھی سب سے زیادہ گولڈ ذخائر امریکہ کے پاس ہیں۔ آفیشل اعداد وشمار کے مطابق امریکہ کے پاس تقریباً 8133 میٹرک ٹن سونے کے ذخائر ہیں اور چین کے پاس تقریباً 2280 میٹرک ٹن۔ بھارت کے پاس 880 اور ترکیہ کے پاس 615 میٹرک ٹن سونے کے ذخائر ہیں۔ اگر امریکہ چاہے تو اپنے گولڈ ذخائر میں سے کچھ بیچ کر مارکیٹ میں سونے کا ریٹ گرا سکتا ہے جس سے چین‘ بھارت اور ترکیہ کی معیشت متاثر ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے پاس صرف 64 میٹرک ٹن سونے کے ذخائر ہیں۔ اس سے مقامی سرمایہ کاروں کا بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ پچھلے چار ماہ سے ایس آر او 760 معطل ہے۔ سونے کی درآمد‘ برآمد پر پابندی عائد ہے۔ سرمایہ کار سونے کی بڑھتی قیمتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن سونا عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہو چکا ہے۔ سونا چمک رہا ہے اور عام پاکستانی بجھ گیا ہے۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے بھائی عمران ٹیسوری پاکستان جیمز جیولری ٹریڈرز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ہیں‘ وہ مجھے بتا رہے تھے کہ پہلے شادی بیاہ پر عام آدمی دس بارہ تولے زیورات بنوا لیتا تھا لیکن اب یہ کم ہو کر تین سے چار تولہ رہ گیا ہے۔ ایکسپورٹ بند ہونے سے سونے کے کاریگر بیروزگار ہو گئے ہیں‘ زیورات بنانے کے سینکڑوں کارخانے بند ہو چکے ہیں۔ چھوٹا سرمایہ کار سونے کے بجائے چاندی میں سرمایہ کاری کرنے لگا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ چاندی کی قیمت میں سونے کی نسبت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک سال میں عالمی مارکیٹ میں چاندی کی قیمت میں تقریباً 58 فیصد اضافہ ہوا ہے اور سونا تقریباً 48 فیصد بڑھا ہے۔ چاندی کا استعمال الیکٹرک گاڑیوں میں بھی بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں سونے اور چاندی کی قیمتیں کیا رخ اختیار کرتی ہیں کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن عام عوام سے گزارش ہے کہ وہ ان میں سرمایہ کاری میں محتاط رویہ اختیار کریں۔
اس تاریکی میں سعودی عرب روشنی کی ایک کرن ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دفاعی معاہدے کے بعد معیشت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی معاہدے ہو رہے ہیں۔ پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ دوطرفہ معاشی روابط اور مذاکرات کی نگرانی کیلئے 18 رکنی کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے۔ پاک سعودیہ مشترکہ بزنس کونسل کے سربراہ کی قیادت میں سعودی وفد پاکستان کے دورے پر ہے۔ معدنیات‘ آئی ٹی‘ تیل وگیس‘ زراعت ولائیو سٹاک اور سیاحتی شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد وفد میں شامل ہیں اور امید ہے کہ بہتر پیشرفت سامنے آئے گی۔ کراچی میں گورنر سندھ کی قیادت میں آئی ٹی اور سپورٹس کے حوالے سے دو اہم یادداشتوں پر دستخط کیے گئے جن کے تحت پاکستانی نوجوان سعودی عرب جاکر خدمات سرانجام دے سکیں گے۔ وزیراعظم نے اے آئی ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے سٹیئرنگ کمیٹی بنانے کی منظوری بھی دی ہے۔ اے آئی ایڈوائزری پینل بھی بنایا جا رہا ہے اور امید ہے کہ وہ جلد ہی پالیسی سازی اور عملی اقدامات کے حوالے سے سفارشات مرتب کریں گے۔ کھیلوں کے فروغ کیلئے ایک میچ بھی دونوں ممالک کے درمیان منعقد ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب سے بڑھتے تعلقات کو معاشی فائدوں میں بدلنا ضروری ہے۔ یہ سنہری موقع ہے اور پاکستان کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔