ایف بی آر‘ آئی ایم ایف اور برآمدات کے معاشی اثرات

ملک کی معاشی ترقی میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے‘ اس لیے ان ممالک میں ٹیکس اہداف حاصل کرنا پہلے کی نسبت آسان ہو گیا ہے۔ پاکستان میں بھی ٹیکس وصول کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ایف بی آر نے سترہ بڑے سیکٹرز کی پیداوار اور سیل پر نظر رکھنے کے لیے ان سیکٹرز کے پروڈکشن سنٹرز پر اے آئی ٹیکنالوجی کے حامل کیمرے نصب کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ شوگر انڈسٹریز میں بڑے گروپس کی اکثر فیکٹریوں پر کیمرے لگائے گئے ہیں‘ تمباکو انڈسٹریز میں بھی جدید سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جانے کی اطلاعات ہیں۔ اس مرتبہ تمباکو انڈسٹری کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ 2023-24ء میں تقریباً دو کروڑ کلوگرام تمباکو برآمد کیا گیا اور 2024-25ء میں تقریباً چارکروڑ 70 لاکھ کلوگرام‘ لیکن مقامی کسانوں کو اس برآمد کا فائدہ نہیں پہنچ سکا کیونکہ تمباکو انڈسٹری نے کسانوں سے اس مرتبہ فصل کم خریدی ہے اور حکومتی آمدنی میں بھی مطلوبہ اضافہ نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اگر فصل کم خریدی گئی ہے تو ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے خام مال کہاں سے آیا؟ اسی طرح کے چیک اینڈ بیلنس کے لیے کیمرے لگائے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹائلز انڈسٹری میں بھی کیمرے لگانے کے لیے فیکٹری مالکان سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ ایف بی آر کا دعویٰ ہے کہ ٹائلز انڈسٹری میں سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی مد میں تقریباً 30 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہو سکتی ہے۔ چیک اینڈ بیلنس کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال حوصلہ افزا ہے لیکن اس پہلو پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ فیکٹری مالکان ایف بی آر کے لگائے گئے جدید کیمروں کو بائی پاس کرنے کے لیے کوئی نیا راستہ تلاش نہ کر لیں۔ ماضی میں شوگر انڈسٹری کے سٹاک اور سیل پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لیے کافی اقدامات کیے گئے تھے‘ بھاری جرمانے بھی کیے گئے اور فیکٹریاں بھی بند کی گئیں لیکن ان اقدامات کے باوجود ہر سال چینی کا ایک نیا سکینڈل سامنے آ جاتا ہے۔ تمباکو کی صنعت کو بھی کئی مرتبہ مختلف پالیسیوں کے تحت کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ابھی تک مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور اب بھی ممنوعہ سگریٹ‘ ویپ اور تمباکو کے برانڈز سر عام بکتے دکھائی دیتے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ ٹائلز انڈسٹری پر کیمرے پاکستان ٹائلز مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے مطالبے پر لگائے گئے ہیں۔ جب کاروبار کرنے والے خود اپنے کاروبار کو ایف بی آر سے مانیٹر کروانے کی درخواست کرتے ہیں تو معاملے کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ چیک اینڈ بیلنس ہونا ضروری ہے لیکن اس کا مکمل فائدہ اس وقت ہو سکتا ہے جب یہ اصول سب کے لیے یکساں ہو۔ ایف بی آر کے نظام میں پیچیدگیاں کم کرنا بھی ضروری ہے۔ آئی ایم ایف نے صوبائی ٹیکسز‘ ایف ای ڈی‘ سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کے درمیان لنک نہ ہونے اور پیچیدگیوں پر اعتراض کیا ہے اور اسے ایف بی آر میں کرپشن کی وجہ قرار دیا ہے۔ یہ اعتراض درست دکھائی دیتا ہے۔ حکومت سسٹم کو شفاف اور ڈیجیٹائز کر کے اس مسئلے پر قابو پا سکتی ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستانی ایلیٹ سے دو سالوں میں کم از کم 5300 ارب روپے کرپشن کی مد میں ریکوری ہوئی ہے۔ اصل کرپشن اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے پاس تمام وسائل ہونے کے باوجود ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شامل ہونا شاید اسی کی بدولت ہے۔ گو کہ آئی ایم ایف نے کسی مخصوص کرپشن سیکنڈل کی نشاندہی نہیں کی‘ سسٹم میں موجود خرابیوں اور نیب رپورٹ کی بنیاد پر اندازہ لگایا ہے لیکن اس اندازے کو عالمی سطح پر سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کا دعویٰ ہے کہ اگر پاکستان مبینہ کرپشن پر قابو پا لے تو پانچ سالوں میں تقریباً ساڑھے چھ فیصد حقیقی گروتھ حاصل کر سکتا ہے۔ شاید سیاستدان اس میں دلچسپی نہیں رکھتے‘ لیکن ممکن ہے کہ مستقبل میں آئی ایم ایف کرپشن میں کمی کو آئی ایم ایف کی قسط کے ساتھ جوڑ دے اور دیگر شرائط کے ساتھ اس پر بھی من وعن عمل ہو جائے۔ آئی ایم ایف کے مطابق پنجاب اور وفاق میں پبلک پروکیورمنٹ رولز کرپشن کا بڑا ذریعہ ہو سکتے ہیں اس لیے انہیں جلد تبدیل کیا جائے۔ موجودہ رولز کے مطابق سرکاری اداروں کو بِڈنگ کے بغیر کنٹریکٹ دیے جاتے ہیں اور پھر وہ سرکاری ادارے نجی اداروں سے معاہدہ کر لیتے ہیں جس میں لین دین طے ہوتا ہے اور عوامی پیسے کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ سرکار نے رولز تبدیل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور اس معاملے کی نگرانی کے لیے سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ بنایا ہے جسے آئی ایم ایف نے مثبت قدم کہا ہے لیکن زیادہ بہتر ہوتا اگر حکومت یہ اقدامات آئی ایم ایف کی نشاندہی کے بغیر ہی کر لیتی۔ اس سے عوامی سطح پر حکومت سے متعلق مثبت رائے قائم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔
چھ ماہ پہلے حکومت نے سونے کی بیرونِ ملک تجارت پر پابندی لگا دی تھی تاکہ سونے کی سمگلنگ کو روکا جا سکے۔ یہ معاملہ شفاف تھا اور اصول سب کے لیے برابر تھا۔ اس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے اور پچھلے چند ماہ میں مبینہ طور پر سونے کی سمگلنگ رپورٹ نہیں ہوئی۔ اب سرکار نے ایس آر او 760 بحال کر دیا ہے اور سونے کی تجارت پر پابندی ختم کر کے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے‘ لیکن اب شاید پہلے سے زیادہ مانیٹرنگ کی ضرورت ہے تاکہ حالات کی نرمی کا فائدہ اٹھا کر سمگلنگ دوبارہ شروع نہ ہو جائے۔ چھ ماہ پابندی کے مبینہ فائدے کے ساتھ نقصانات بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک سے زیورات بنانے کیلئے سونا پاکستان بھیجا جاتا ہے۔ چھ ماہ قبل جو سونا پاکستان بھیجا گیا‘ پابندی کی وجہ سے اس کے زیورات ابھی تک بنا کر بھیجے نہیں جا سکے۔ ایسی صورتحال میں کلائنٹس خراب ہو سکتے ہیں اور زیورات کی برآمدات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پہلے ہی جولائی سے اکتوبر 2025ء کے دوران برآمدات 4.04 فیصد کم ہوئی ہیں۔ ملک کی صنعتی گروتھ پہلی سہ ماہی میں 4.1 فیصد نیچے آئی ہے کیونکہ اخراجات زیادہ ہیں۔ مہنگی بجلی بڑا فیکٹر ہے اور 29 فیصد ٹیکس کے باعث نقصان بڑھ رہا ہے۔ برآمد کنندگان کے مسائل حل کرنا ضروری ہے‘ کم شرح سود پر قرض‘ ٹارگٹڈ سبسڈی دے کر اور روپے کی قدر کو اس کی اصل قیمت پر رکھ کر برآمد کنندگان کے مسائل کم کیے جا سکتے ہیں۔ اس وقت رئیل ایفیکٹو ایکسچینج ریٹ تقریباً چار فیصد زیادہ ہے۔ درست ایڈجسٹمنٹ برآمدات کے لیے سودمند ثابت ہو سکتی ہے۔
اس وقت برآمدات میں کمی ہو رہی ہے اور درآمدات میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ موجودہ مالی سال کے پہلے چار ماہ میں تجارتی خسارہ 12 ارب 58 کروڑ ڈالرز تک پہنچ گیا ہے اور اس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ سرکار نے جولائی میں ایس یو ویز پر 44 فیصد‘ کاروں پر 15 فیصد‘ چیز پر 5 فیصد‘ میک اپ اور جانوروں کی خوراک سمیت کئی اشیا پر درآمدی ڈیوٹی کم تھی۔ میں نے اُس وقت بھی تجارتی خسارے بڑھنے کے خدشے کا اظہار کیا تھا جو تقریباً تین ارب ڈالر بڑھ چکا ہے صرف گاڑیوں کی کٹس کی درآمدات میں 123 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گو کہ درآمدات بڑھنے سے معیشت کا پہیہ چلتا ہے اور روزگار پیدا ہوتا ہے لیکن یہ بہتری وقتی ثابت ہوتی ہے۔ اصل ترقی خام مال کی درآمدات میں اضافے سے ممکن ہے تاکہ مقامی صنعت پیداوار بڑھائے‘ مال برآمد کرے اور ملکی ڈالرز ذخائر کو سہارا مل سکے۔ پچھلے ماہ مہنگائی 6.2 فیصد رہی جو اس سال میں سب سے زیادہ ہے اور موجودہ مہینے کے اختتام پر مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں