پاک افغان امن‘ تجارت اور آئی ایم ایف

امن صرف بندوقوں کے خاموش ہونے کا نام نہیں‘ یہ دلوں کے کھلنے اور معیشت کے جاگنے کا پیغام بھی لاتا ہے۔ جب سرحد کے دونوں طرف خوف کے بادل چھٹتے ہیں تو کاروبار کے افق پر امید کے ستارے جھلملانے لگتے ہیں۔ امن معاہدہ صرف سرحدی کشیدگی ختم نہیں کرتا معیشت کے دروازے بھی کھولتا ہے۔ ترقی اس وقت ہوتی ہے جب ہمسایہ ممالک حریف نہیں بلکہ تجارتی شراکت دارہوں۔
کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کیلئے علاقائی امن کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ خصوصی طور پر ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو معاشی ترقی کا بڑا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ ترقی کبھی تنہائی میں جنم نہیں لیتی۔ وہ تب آتی ہے جب ہمسایے دیوار نہیں‘ دروازہ بن جائیں۔ یورپ کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین سماجی‘ سیاسی‘ اخلاقی‘ دفاعی اور معاشی تعلقات ہیں۔ ترقی کا یہ سبق انہوں نے کئی دہائیوں بلکہ صدیوں کی جنگوں کے تجربات کے بعد حاصل کیا۔ پاکستان بھی ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہر شعبے میں اچھے تعلقات کا خواہاں ہے لیکن ازلی دشمن بھارت کسی نہ کسی جنگی محاذ پر پاکستان کو پھنسا کر رکھنا چاہتا ہے‘ تاکہ پاکستان میں معاشی استحکام نہ آ سکے۔ موجودہ حالات میں افغانستان بھارت کی پراکسی کے طور پر کام کرتا دکھائی دے رہا ہے‘ شاید اس لیے ریاست پاکستان نے فیصلہ کن کارروائیوں کا آغاز کیا تاکہ شرپسند عناصر کو جڑ سے ختم کیا جا سکے اور ایک ایسے معاہدے تک پہنچا جائے جس سے پاکستان میں افغانستان کے ذریعے کی جانے والی دہشت گردی کو روکا جا سکے۔ پاکستان کی بہترین حکمت عملی سے پاکستان اور افغانستان میں جنگ بندی مذاکرات کا پہلا مرحلہ کامیاب ہو گیا ہے۔ مذاکرات کا دوسرا دور 25 اکتوبر کو ترکیہ میں ہو گا۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین امن اور دوستانہ تعلقات کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جب سے پاک افغان حالات کشیدہ ہوئے ہیں پاکستان سٹاک ایکسچینج گراوٹ کا شکار ہے۔ بدامنی کے حالات میں مقامی اور بیرونی سرمایہ کار ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ جو مارکیٹ تین ماہ سے مسلسل مثبت نتائج دے رہی تھی اسے پچھلے تقریباً پندرہ دنوں سے منفی رجحان کا سامنا ہے۔ دو سالوں میں کے ایس سی 100 انڈیکس میں دو سو فیصد سے زائد اضافے نے ملکی کمپنیوں کے اثاثوں میں اربوں روپے کا اضافہ کیا‘ عام آدمی نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا۔ 2023ء میں روزانہ کیش ٹریڈنگ حجم تقریباً 323 ملین شیئرز رہا‘ جو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں تقریباً 41 فیصد زیادہ تھا۔ اسی طرح مالی سال 2024ء میں روزانہ کی اوسط ٹریڈڈ ویلیو تقریباً 22 ارب 70 کروڑ روپے تھی‘ جبکہ مالی سال 2023ء میں یہ تقریباً 10ارب روپے تھی۔ 2023ء میں مارکٹ کیپٹلائزیشن تقریباً 6369 ارب تھی جبکہ 2024ء میں یہ 10 ہزار 374 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ مالی سال 2024-25ء کے دوران پاکستانی روپوں میں تقریباً 58.6 فیصد اور ڈالرز میں تقریباً 55.5 فیصد منافع ہوا۔ یعنی غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے بھی یہ اچھا موقع رہا۔ چار اکتوبر تک مارکیٹ ایک لاکھ 69 ہزار پوائنٹس تک بڑھ چکی تھی لیکن افغانستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے بعد مارکیٹ تقریباً ایک لاکھ 63 ہزار تک گر گئی۔ پاک افغان امن معاہدے کے بعد مارکیٹ میں دوبارہ تیزی آئی اور گزشتہ روزیہ ایک لاکھ 66ہزار پوائنٹس پر بند ہوئی۔ جلد ہی یہ پرانی حد پر بحال ہو سکتی اور نئے ریکارڈ قائم کر سکتی ہے۔ دوسری جانب امن معاہدے کے بعد پاک افغان تجارت کی مالیت ڈیڑھ ارب ڈالرز سے بڑھ کر تین ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ سکتی ہے۔ سیمنٹ‘ ٹیکسٹائل‘ ادویات‘ خوراک اور دیگر اشیا نئی منڈیوں تک پہنچ سکتی ہیں جبکہ افغانستان کیلئے بندرگاہوں تک آسان‘ سستے اور محفوظ راستے کھل سکتے ہیں۔ جب سرحدیں محفوظ ہوتی ہیں تو غیر قانونی راستے بھی بند ہونے لگتے ہیں۔ ڈیزل‘ ڈالر اور اشیائے خور ونوش کی سمگلنگ پاکستان کے زرِمبادلہ کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ امن اور بہتر بارڈر مینجمنٹ سے یہ نقصان کم ہو سکتا ہے اور ملکی معیشت کو سالانہ تقریباً ایک ارب ڈالر تک کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ دنیا اب لڑنے والوں کے ساتھ نہیں‘ امن لانے والوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ امن معاہدے سے پاکستان کا عالمی امیج بہتر ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے اداروں کیلئے پاکستان ایک زیادہ مستحکم ملک کے طور پر اُبھر سکتا ہے۔
اگر آئی ایم ایف کی بات کریں تو اہم معاملات پر اتفاق کے باوجود معاملات اب بھی نازک موڑ پر ہیں۔مبینہ طور پر آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان کچھ معاملات طے نہیں ہو پا رہے۔ پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کا یہ پروگرام محض ایک قرض نہیں بلکہ اعتماد کا امتحان بھی ہے۔ سٹاف لیول معاہدہ تو ہو چکا لیکن بورڈ کی منظوری اور 1.2ارب ڈالر قسط کی وصولی پر ابھی سوالیہ نشان ہے۔ وزیر خزانہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کر چکے اور توقع کر رہے ہیں کہ سال کے آخر تک آئی ایم ایف کی نئی قسط مل سکتی ہے۔ یعنی ابھی کپ کو لبوں تک آنے میں وقت لگے گا۔ وزیر خزانہ کا یہ بھی بیان سامنے آیا کہ آئی ایم ایف پاکستان کے مفادات کے خلاف شرائط نہیں لگا سکتا۔ یہ بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ وزیر خزانہ کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ آئی ایم ایف نے کن ملکی مفادات کے خلاف شرائط کی بات کی ہے۔ یہ معاملہ کچھ سنجیدہ دکھائی دیتا ہے اور ابہام سرمایہ کاروں میں بے چینی پیدا کر سکتا ہے۔ بظاہر اس وقت پاک امریکہ تعلقات چوٹی پر ہیں لہٰذا کسی تعطل کا امکان ہونا تو نہیں چاہیے۔ آئی ایم ایف کے فیصلوں پر امریکہ اثر انداز ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ضروری نہیں کہ نئی قسط رواں سال ہی مل جائے‘ یہ تاریخ بڑھ بھی سکتی ہے۔ شاید کچھ وعدے کیے گئے تھے جنہیں نبھایا نہیں جا رہا اور کچھ معاملات کی مکمل وضاحت فراہم نہیں کی جا سکی۔ پچھلے دو مالی سالوں کی درآمدات‘ کسٹمز اور بینکنگ ریکارڈز میں تقریباً 11 ارب ڈالر کا فرق سامنے آیا ہے‘ جس نے آئی ایم ایف کے اعتماد کو جھنجھوڑا ہے۔ مختلف دعوے کیے جا رہے کہ آئی ایم ایف کو دو سال بعد کیسے پتا چل گیا‘ شاید کسی نے مخبری کی ہے یا معاملہ کچھ اور ہے۔ درحقیقت یہ فرق تین اداروں کے اعداد وشمار میں مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے سامنے آیا۔ پاکستان سنگل ونڈو‘ PRAL اور سٹیٹ بینک کے اعداد وشمار میں عدم مطابقت پائی جاتی ہے۔ امپورٹ کا ڈیٹا ہی میچ نہیں کر رہا۔ لیگی حکومت پر پہلے بھی اعداد وشمار کے ہیر پھیر کے الزامات لگتے رہے ہیں اس بار شاید جادو چل نہیں سکا۔ یا تو یہ غیر قانونی درآمدات تھیں‘ انڈر انوائسنگ تھی یا یہ منی لانڈرنگ کا نتیجہ ہو سکتاہے۔بہرکیف کہا جا رہا کہ یہ محض ڈیٹا رپورٹنگ کی تکنیکی غلطی ہے ‘لیکن آئی ایم ایف بظاہر یہ ماننے کو تیار نہیں۔ یہ معاملہ ملک کے مالیاتی نظم‘ شفافیت اور کرنسی فلو پر ایک سنگین چیلنج بن کر سامنے آ سکتا ہے۔ 11 ارب ڈالر کے فرق کا جواب صرف آئی ایم ایف کو نہیں بلکہ عوام کو بھی دیے جانے کی ضرورت ہے‘ کیونکہ یہ رقم ملکی خزانے‘ معیشت اور عوامی خوشحالی پر بھی اثر ڈال سکتی ہے۔ حکومت شفافیت ثابت کر دے تو نہ صرف جلد ہی بورڈ منظوری مل سکتی ہے بلکہ پاکستان کیلئے ایک نیا معاشی باب بھی کھل سکتا ہے‘ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو ایک اور وعدہ‘ اور ایک اور بحران ہمارے دروازے پر دستک دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاک امریکہ تجارتی معاہدہ اور پی آئی اے کے امریکہ میں ہوٹل سے متعلق معاملات بھی ابھی طے ہونا باقی ہیں۔
جولائی2025ء میں پاکستان اور امریکہ کے ٹیرف معاہدے کا اعلان تو ہوا لیکن ابھی تک مکمل‘ شفاف اور پراڈکٹ کوڈز کے ساتھ دستاویز فائنل نہیں ہو سکی ہیں۔ دوسری جانب پی آئی اے کا روز ویلٹ ہوٹل بھی بڑا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ اس ہوٹل کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 600 ملین ڈالر ہے جو پی آئی اے کے کل قرضوں کا تقریباً 20 فیصد ہے۔ حکومت کو ان معاملات کا بہترین اور بروقت حل تلاش کرنا چاہیے تاکہ ملکی معیشت دوبارہ سانس لے سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں