حکومتی پالیسیاں بنتی تو کاغذوں پر ہیں لیکن یہ عوام کے معمولات اور جیب پر بہت گہرا اثر ڈال سکتی ہیں۔ گزشتہ دنوں حکومت نے اعلان کیا کہ 2035ء تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں 50 فیصد اضافہ کیا جائے گا‘ یعنی اسے 64 ہزار میگاواٹ تک پہنچایا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کیوں کیا گیا اور اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟
پاکستان میں توانائی کا بحران اب کسی وقتی مسئلے کا نام نہیں رہا بلکہ یہ معیشت کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے۔ کبھی لوڈشیڈنگ کی تاریکی‘ کبھی بھاری بلوں کا بوجھ۔ یعنی بوجھ تو عوام پر مگر منافع کی بارش چند کمپنیوں پر۔ عوام ہر طرف سے پس رہے ہیں۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا حکومت کو مزید بجلی پلانٹس لگانے چاہئیں؟ اس وقت پاکستان کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 43 ہزار میگاواٹ سے زائد ہے‘ لیکن ترسیلی نظام صرف 25 ہزار میگاواٹ تک کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ یعنی بجلی پیدا تو ہو جاتی ہے مگر گھروں اور صنعتوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ بجلی پیدا کرنے کی جتنی موجودہ کپیسٹی ہے آج تک اتنی بجلی استعمال میں نہیں آ سکی۔ اس تضاد نے ملک کو بجلی کے بحران سے نکالنے کے بجائے اس دلدل میں مزید دھنسا دیا اور مقروض کر دیا ہے۔ مسئلہ صرف پیداوار کا نہیں‘ بلکہ نظام کی ناکامی کا ہے۔ ہر نئے پلانٹ کے ساتھ کپیسٹی پیمنٹس کا بوجھ بڑھتا ہے‘ یعنی چاہے بجلی استعمال ہو یا نہ ہو‘ حکومت کو نجی کمپنیوں کو اربوں روپے دینا ہوتے ہیں۔ اسی نے گردشی قرضے کو آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ اس وقت گردشی قرض 2.396 کھرب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ نتیجتاً بجلی کی قیمتیں عوام کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ سرکار نے مالی سال 2023-24ء میں صرف کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 979 ارب روپے ادا کیے۔ پچھلے پانچ سالوں میں یہ ادائیگیاں مجموعی طور پر چھ کھرب روپے سے تجاوز کر چکی ہیں۔ رواں مالی سال 2.1 کھرب روپے مزید دینے کی توقع ہے۔ اس حساب سے اگلے سال تک یہ بوجھ آٹھ کھرب روپے سے زائد ہو سکتا ہے جو پاکستان کے مجموعی ترقیاتی بجٹ سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اب ضرورت اس بات کی نہیں کہ سرکار مزید پلانٹس لگائے بلکہ نظام درست کرنے کی ضرورت ہے۔ پرانے پلانٹس کی اَپ گریڈیشن‘ ٹرانسمیشن لائنز کی مضبوطی‘ قابلِ تجدید توانائی اور کپیسٹی چارجز کا خاتمہ وہ چار کلیدی کام ہیں جو بجلی بحران کو کم کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے پاس سورج‘ ہوا اور پانی تینوں قدرتی نعمتیں وافر موجود ہیں۔ اگر ان سے بجلی پیدا کی جائے تو نہ صرف لاگت کم ہو سکتی ہے بلکہ درآمدی ایندھن پر انحصار بھی کم ہو سکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہماری توانائی پالیسی میں وژن کم اور کمیشن زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بجلی کی پیداوار میں 50 فیصد اضافے کیلئے تقریباً 50 ارب ڈالرز کی ضرورت پڑے گی۔ اپٹما نے بھی اس حکومتی فیصلے کو مسترد کیا ہے۔ دنیا تیزی سے سولر اور ونڈ انرجی سے بجلی کی پیداوار کی طرف جا رہی ہے۔ پاکستانی عوام بھی برق رفتاری سے سولر انرجی پر منتقل ہو رہے ہیں لیکن پاکستانی سرکار اب بھی فرنس آئل منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ عوامی سطح پر تقریباً سات ہزار میگاواٹ بجلی سولر سے پیدا کی جا رہی ہے۔ جب تک حکمران فیصلہ سازی میں عوامی مفاد کو مرکز و محور نہیں بنائیں گے‘ بجلی کے نئے پلانٹس بحران کو بڑھانے اور قرضوں میں اضافے کا کام کریں گے۔
پنجاب حکومت نے گندم اور آٹے کی بین الصوبائی تجارت پر پابندی لگا رکھی ہے۔ یہ فیصلہ شاید ایک انتظامی قدم کے طور پر کیا گیا مگراس نے عام آدمی کیلئے بھوک اور مہنگائی کے مسائل بڑھا دیے ہیں۔جب گندم پیدا کرنے والا ملک کا سب سے بڑا صوبہ آٹے کی بین الصوبائی ترسیل روک دیتا ہے تو سندھ‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اس کی طلب بڑھ جاتی ہے‘ رسد کم ہونے سے قیمتوں اور سمگلنگ کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس سے مارکیٹ کا توازن بھی بگڑ جاتا ہے اور ملک گیر مہنگائی بڑھتی ہے۔ پنجاب کی جانب سے آٹے کی ترسیل پر پابندی کے باعث سندھ‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں رسد گھٹ گئی اور طلب بڑھ گئی۔ نتیجہ وہی نکلا جو ہر بار نکلتا ہے‘ مہنگائی‘ بلیک مارکیٹ اور بھوک۔ خیبر پختونخوا میں اس پابندی سے پہلے اگست 2025ء میں 100کلوگرام گندم کی قیمت تقریباً 6175 روپے تھی جو 22 اکتوبر تک 10 ہزار 675 روپے ہو چکی۔ یہ 37 فیصد اضافہ ہے۔ 20 کلوگرام آٹے کے تھیلے کی قیمت 1800 سے بڑھ کر 2800 روپے ہو گئی۔ تقریباً 60 فیصد اضافہ ہوا۔ اس اضافے نے عام آدمی کیلئے روٹی کا حصول مشکل بنا دیا ہے۔ سندھ کے مختلف علاقوں میں 20 کلوگرام آٹے کی قیمت 2800 سے بڑھ کر 4600 روپے ہو گئی ہے۔ بلوچستان میں صورتحال اور بھی دلخراش ہے۔ چمن میں 100 کلوگرام آٹے کا تھیلا سات ہزار روپے سے بڑھ کر گیارہ ہزار روپے کا ہو گیا ہے۔ نہ عوام کے پاس آٹا ہے‘ نہ فلور ملوں کے پاس ذخیرہ۔ یہ وقت ہے کہ وفاق اور صوبے مل کر بیٹھیں۔ گندم کو سیاست کا ذریعہ نہیں‘ قومی امانت سمجھا جائے۔
اگر پاک افغان تجارت کی بات کریں تو افغانستان کے ساتھ جنگ بندی تو گئی لیکن دو طرفہ تجارت ابھی تک بند ہے۔ افغانستان میں تقریباً 700 اور پاکستان میں تقریباً 350 ٹرک سرحد پر کھڑے ہیں‘ جن میں تقریباً 250 ٹن مال موجود ہے۔ یہ مال خراب ہو رہا ہے۔ ہر روز تقریباً ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ خیبر پختونخوا کے پانچ اور بلوچستان کے دو سرحدی پوائنٹس ہیں لیکن 80 فیصد تجارت چمن اور طورخم بارڈر سے ہوتی ہے۔ ان بارڈر ایریاز میں ٹرانسپورٹ سمیت افغان تجارت سے تقریباً 10 لاکھ لوگ براہِ راست منسلک ہیں۔ ان علاقوں میں نہ تو فیکٹریاں ہیں اور نہ ہی زراعت۔ اگر معاملات جلد نہ سنبھلے تو ان علاقوں میں بیروزگاری اور بدامنی بڑھنے کے خدشات ہیں۔ اس معاملے پر دونوں اطراف سے سنجیدگی دکھائے جانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سے متعدد اشیا افغانستان برآمد کی جاتی ہیں‘ جن میں ادویات اور سیمنٹ سرفہرست ہیں۔ پاکستان فارماسوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ایک ذمہ دار نے مجھے بتایا کہ افغانستان کی ادویات امپورٹ کا تقریباً 30 فیصد پاکستان پر انحصار ہے اور پاکستان کی ادویہ برآمدات کا تقریباً 35 فیصد افغانستان سے جڑا ہے۔ پاکستان کی ادویات کا برآمدی حجم تقریباً ساڑھے چار سو ملین ہیں‘ جن میں سے تقریباً 186ملین کی ادویات افغانستان بھیجی جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک غیر قانونی طریقے سے بھی ادویات کی تجارت ہوتی تھی جو اَب بند ہو چکی ہے۔ ادویات کی مجموعی فروخت کا صرف 4.5 فیصد افغانستان سے جڑا ہے لہٰذا اگر افغانستان کو ادویات ایکسپورٹ نہ ہوں تو انڈسٹری کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن ڈالر ذخائر متاثر ہو سکتے ہیں۔ اگر سیمنٹ سیکٹر کی بات کریں تو ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں استعمال ہونے والے سیمنٹ میں پاکستان کا حصہ تقریباً 30 فیصد ہے اور تجارت بند رہنے سے سیمنٹ سیکٹر کو تقریباً 400 ملین ڈالرز کا نقصان ہو سکتا ہے۔ پاک افغان آفیشل سالانہ تجارت تقریباً دو ارب ڈالر ہے۔ مشرقی خطہ تقریباً ڈھائی سو سالوں سے افغانستان کو برآمدات کر رہا ہے اور اس وقت تقریباً 25 صنعتیں افغان برآمدات سے جڑی ہیں۔ افغانستان لینڈ لاکڈ ملک ہے اور اسے پاکستان یا ایران کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ افغانستان کا محاذ جلد بند ہونا ناگزیر ہے‘ بصورت دیگر ایران اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتا اور پاکستان ایک برآمدی مارکیٹ سے محروم ہو سکتا ہے۔
میں نے پچھلے کالموں میں سونے کی درآمد و برآمدکے حوالے سے ایس آر او 760 کی معطلی ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اب حکومت نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سونے کی بین الاقوامی تجارت پرپابندی ختم کر دی ہے۔ آئندہ چند ماہ میں پاکستان سے ساٹھ ارب روپے کا سونا برآمد کیا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ چھ ماہ تک جن پارٹیوں کا اربوں روپے کا مال پھنسا رہا کیا وہ دوبارہ پاکستان کے ساتھ کاروبار کریں گی۔