کرپٹو فنانسنگ، ترسیلاتِ زر اور قرضے

پاکستان ورچوئل ایسَٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین بلال بن ثاقب نے کہا ہے کہ کرپٹو کرنسی کے حوالے سے قانون سازی نہ کی گئی تو پاکستان ایک مرتبہ پھر فیٹف کی گرے لسٹ میں آ سکتا ہے کیونکہ تقریباً چار کروڑ پاکستانیوں کے تقریباً 35 ارب ڈالرز کرپٹو کرنسی اور ورچوئل شکل میں موجود ہیں‘ انہیں سسٹم میں لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بلال بن ثاقب کا یہ کہنا بالکل درست ہے‘ اس وقت پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر تقریباً 14 ارب ڈالر ہیں اور ان میں سے بیشتر غیر ملکی قرضوں پر مشتمل ہیں۔ کرپٹو کرنسی کو اگر زرمبادلہ ذخائر کا حصہ بنا دیا جائے تو اس سے روپے پر دباؤ کم ہو سکتا اور ملکی معیشت میں بہتری آ سکتی ہے۔ حکومت نے اس حوالے سے اقدامات شروع کر رکھے ہیں اور موجودہ غیر معمولی معاشی حالات میں دنیا کی سب سے بڑی کرپٹو ایکسچینج بائنانس کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی کئے گئے ہیں۔ اس مفاہمت کے تحت تقریباً دو ارب ڈالر مالیت کے سرکاری اثاثوں کو ڈیجیٹل ٹوکن میں تبدیل کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا جائے گا۔ ایسے وقت میں جب معیشت شدید دباؤ میں ہے‘ یہ سوال فطری طور پر جنم لیتا ہے کہ پاکستان نے یہ راستہ کیوں اختیار کیا؟ پاکستان پہلا ملک نہیں ہے جس نے اس قسم کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔ دبئی‘ امریکہ‘ بھارت اور سنگاپور سمیت کئی ممالک بائنانس کی خدمات لے رہے ہیں۔ کرغزستان نے بائنانس کے ساتھ ایک نیشنل سٹیبل کوائن لانچ کیا ہے جو ملک کی کرنسی روبل سے بیکڈ ہے اور اسے سرکاری استعمال کے لیے جاری کیا گیا ہے۔ یہ ایک حقیقی ملک کے اثاثے؍ کرنسی کی ڈیجیٹل ٹوکنائزیشن کی بڑی مثال ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر محدود اور زیادہ تر قرض پر مبنی ہیں‘ اس لیے کرپٹو اور ڈیجیٹل ٹوکنائزیشن کے ذریعے سرمایہ سسٹم میں لانا معیشت کے لیے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر یہ عمل شفاف قانون سازی‘ صارفین کے تحفظ اور منی لانڈرنگ کے خلاف سخت اقدامات کے ساتھ کیا گیا تو نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ سکتے ہیں بلکہ نوجوانوں کے لیے روزگار‘ ترسیلاتِ زر میں بہتری اور فراڈ میں کمی جیسے فوائد بھی ممکن ہو سکتے ہیں۔
پاکستانی معیشت کا ذکر ہو اور ترسیلاتِ زر کا حوالہ نہ آئے یہ ممکن نہیں۔ بھارت‘ میکسیکو‘ چین اور بنگلہ دیش کے ساتھ پاکستان دنیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جنہیں سب سے زیادہ ترسیلاتِ زر موصول ہوتی ہیں۔ بیرونِ ملک پاکستانی ہر سال تقریباً 38 ارب ڈالر وطن بھیجتے ہیں‘ جو نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیتے ہیں بلکہ روپے پر دباؤ کم کرنے‘ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سنبھالنے اور عام آدمی کی زندگی کو رواں رکھنے میں بنیادی کرداربھی ادا کرتے ہیں۔ ایسے میں آئی ایم ایف کی جانب سے ترسیلاتِ زر کے نظام پر اعتراض کئی سوالات کو جنم دیتا ہے ۔ یہ اعتراض آخر ہے کیا اور کیا اس کا خمیازہ اوورسیز پاکستانیوں کو بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے؟
آئی ایم ایف کا اعتراض بالواسطہ سبسڈی سے متعلق ہے۔ حکومت اور سٹیٹ بینک بینکوں اور بیرون ملک کرنسی ایکسچینجر ز کو ملک میں زرمبادلہ لانے کے لیے سبسڈی کمیشن دیتے ہیں۔ کمیشن کے لیے کم سے کم رقم کی حد پہلے ایک ہزار ڈالر تھی جو بعد میں پانچ سو اور پھر سو ڈالر ہو گئی۔ اس سے ہوا یہ کہ رقم بھیجنے والے فرد کے بجائے بینکوں اور کمپنیوں کو فائدہ ہونے لگا کیونکہ وہ ایک ہزار ڈالر متعدد ٹرانزیکشنز کے ذریعے بھیجتے۔ یعنی ایک ہزار کو دس ٹرانزیکشنز میں بھیجتے اور ہر ٹرانزیکشن پر کمیشن وصول کرتے۔ پاکستان نے گزشتہ مالی سال کے دوران ترسیلاتِ زر حاصل کرنے کے لیے کی گئی ادائیگیوں کی مد میں 100 ارب روپے کمرشل بینکوں اور بیرونِ ملک موجود منی ٹرانسفر کمپنیوں کو کمیشن کی مد میں دیے۔ آئی ایم ایف کو خدشہ ہے کہ اس کی لاگت آئندہ چند برسوں میں ڈیڑھ ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ دوسری جانب اگر سٹیٹ بینک ترسیلات پر کوئی سہولت نہیں دیتا تو اس کا اثر قومی خزانے پر پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف اسے قلیل مدتی فائدہ مگر طویل مدتی نقصان سمجھتا ہے۔ اس کا مؤقف ہے کہ ترسیلات کا نظام اسی وقت پائیدار ہوگا جب وہ سرکاری سہاروں کے بغیر خود اپنے پیروں پر کھڑا ہو۔ آئی ایم ایف نہ تو ترسیلات پر پابندی لگانے کی بات کر رہا ہے اور نہ ہی بیرونِ ملک پاکستانیوں پر کوئی نیا ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے اس سے براہِ راست متاثر ہونے کے امکانات کم ہیں۔ وہ پہلے کی طرح بینکوں‘ ڈیجیٹل ایپس اور ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے رقم بھیج سکیں گے۔
دوسری جانب ورلڈ بینک نے پاکستان کے لیے 700 ملین ڈالر کے ایک قرض کی منظوری دی ہے جس کا مقصد ٹیکس نظام میں بہتری‘ بجٹ شفافیت اور گورننس کو مضبوط بنانا بتایا جاتا ہے۔ یہ قرض ایسے وقت میں دیا گیا جب پاکستان کی معیشت دباؤ میں ہے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح انتہائی کم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل بھی ورلڈ بینک 470 ملین ڈالر کا قرض انہی اصلاحات کے لیے دے چکا مگر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو ئے۔ ٹیکس نیٹ وسیع نہیں ہو سکا اور ایف بی آر اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کا خود بھی اعتراف کر رہا ہے۔ اس کے باوجود دوبارہ ایک نیا اور بڑا قرض ملنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ حکومت ٹیکس اصلاحات اور اخراجات میں کمی کی بات کر رہی ہے مگر عملی فیصلے اصلاحاتی دعوؤں کو کمزور کر رہے ہیں۔ اصل مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ مؤثر عملدرآمد اور سیاسی عزم کا فقدان ہے۔ یہ قرض اسی صورت میں فائدہ مند ہو سکتا ہے جب ٹیکس اصلاحات نافذ کی جائیں اور اشرافیہ کو دی گئی رعایتیں ختم ہوں۔ بصورتِ دیگر یہ بھی ماضی کے قرضوں کی طرح صرف عارضی سہارا ثابت ہو گا جس کا بوجھ ایک مرتبہ پھر عوام ہی اٹھائیں گے۔
حکومت نے اگلے چار برس میں پاکستان کی برآمدات 63 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس کے بغیر آئی ایم ایف اور بیرونی قرضوں سے نجات ممکن نہیں۔ اصولی طور پر یہ بات درست ہے‘ مگر زمینی حقائق اس ہدف کے حصول کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ رواں مالی سال میں برآمدات پہلے ہی کمی کا شکار ہیں‘ جبکہ سرمایہ کاری اور گورننس کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ اس ہدف کے لیے آئندہ دس برس میں 200 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لانے کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں مگر موجودہ حالات میں نجی اور غیر ملکی سرمایہ کاری انتہائی نچلی سطح پر ہے۔ پاکستان اب بھی قرض اور درآمدات پر مبنی معیشت کے جال میں پھنسا ہوا ہے‘ جہاں ہر سال دوست ممالک سے اربوں ڈالر کے قرض رول اوور کرانا پڑتے ہیں۔ سیاسی اورعسکری قیادت اصلاحات پر متفق ہے مگر اصل چیلنج عملدرآمد کا ہے۔ جب تک توانائی‘ ٹیکس‘ صنعت اور گورننس کے شعبوں میں بنیادی اصلاحات نہیں کی جاتیں‘ برآمدات کی مد میں بڑی چھلانگ ممکن نہیں۔ اگر یہ روڈمیپ عملی شکل اختیار نہ کر سکا تو پاکستان کو دوبارہ آئی ایم ایف کی طرف جانا پڑسکتا ہے اور یہ ہدف محض ایک دعویٰ بن کر رہ جائے گا۔ حکومت 2027ء تک آئی ایم ایف پروگرام سے نکلنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے‘ مگراس کے لیے معاشی نمو بڑھانا ضروری ہے اور معاشی نمو بڑھانے سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ سکتا ہے جبکہ آئندہ چند برس میں 12 ارب ڈالر سے زائد اضافی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے برآمدات‘ ترسیلاتِ زر اور براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ کیسے ہو گا‘ اس بارے ابھی تک کوئی مربوط منصوبہ بندی اور حقیقی لائحہ عمل سامنے نہیں آ سکا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں