پاکستان کی برآمدات بڑھانے کے لیے معدنیات پر فوکس کیا جا رہا ہے۔ آٹھ ٹریلین ڈالرز کی معدنیات ملک کا اثاثہ ہیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے درست حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ فیلڈ مارشل ایک تقریر میں ذکر کر چکے ہیں کہ امریکہ یوکرین کی مدد کے عوض معدنیات کا مطالبہ کر رہا ہے‘ اگر امریکہ کو معدنیات چاہئیں تو وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ دنیا بھر میں جن معدنیات کو Rare Earth Elements کہا جاتا ہے‘ ان کی تعداد سترہ ہے۔ یہ وہ معدنیات ہیں جو جدید ٹیکنالوجی میں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ ایلیمنٹس موبائل فون‘ الیکٹرک گاڑیوں‘ میزائل سسٹم‘ سولر پینلز اور مصنوعی سیاروں کی تیاری میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سترہ ایلیمنٹس میں سے بارہ؛ سیریم (Ce)‘ لینتھنم (La)‘ نیوڈیمیم (Nd)‘ پراسیوڈیمیم (Pr)‘ سماریم (Sm)‘ گیڈولینیم (Gd)‘ ڈائسپروسیئم (Dy)‘ ٹربیئم (Tb)‘یٹریئم (Y)‘ اربیم (Er)‘ تھولیئم (Tm) اور ہولمیم (Ho) پاکستان میں بلوچستان‘ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ امریکہ پاکستان میں ریئر ارتھ ایلیمنٹس میں دلچسپی رکھتا ہے۔ امریکہ خطے میں چین کے بڑھتے اثر ورسوخ کے مقابلے میں دنیا کے سٹیج پر تجارتی بنیادوں پر واپسی چاہتا ہے؛ چنانچہ مستقبل میں بلوچستان کے نایاب منرلز اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ جب پاکستان کے پاس تقریباً آٹھ ٹریلین ڈالر کے معدنی ذخائر موجود ہیں تو چین ان سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتا؟ دراصل چین میں اس وقت ریئر ارتھ ایلیمنٹس کا استعمال بہت زیادہ ہے اور ان میں چین خودکفیل ہے۔ ریئر ارتھ ایلیمنٹس کی سپلائی کا 90 فیصد پہلے ہی چین کنٹرول کر رہا ہے‘ شاید اس لیے وہ پاکستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کرکے ان معدنیات کو حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ امریکہ ان معدنیات سے محروم ہے‘ لہٰذا پاکستان کے پاس موقع ہے کہ وہ مشرق (چین) اور مغرب (امریکہ) کے مابین تجارتی توازن قائم کرے۔ اب فیصلہ حکومت کے ہاتھ میں ہے کہ وہ پاکستان کی معدنیات کو برآمد کرنے کے منصوبے کو فائلوں سے نکال کر حقیقت میں بدلتی ہے یا نہیں۔ پاکستانی معدنیات کی برآمد محض ایک تجارتی پیشکش نہیں بلکہ پاکستان کے امریکہ اور یورپ سے تعلقات کے نئے معاشی باب کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر حکومت شفافیت‘ سکیورٹی اور سیاسی تسلسل کو یقینی بنائے تو آٹھ ٹریلین ڈالر کی معدنیات پاکستان کی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہیں۔ اگر ماضی کی طرح فیصلے تاخیر اور عدم استحکام کا شکار ہوئے تو شاید کھربوں ڈالرز کے ذخائر کتابوں اور کہانیوں میں ہی رہ جائیں۔
مقامی برآمد کنندگان اور بین الاقوامی کمپنیاں پہلے ہی پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کر رہی ہیں‘ اب ایک مقامی ٹیکسٹائل گروپ نے بھی برآمدات کا شعبہ بند کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ کمپنی تقریباً 500 ملین ڈالرز کی ایکسپورٹ کرتی تھی۔ پاکستان تقریباً 17 ارب ڈالرز کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کرتا ہے اور مذکورہ کمپنی کا حصہ تقریباً 2.5 فیصد تھا۔ اب اس کی جگہ بھارتی یا بنگالی ٹیکسٹائل کمپنیاں لے سکتی ہیں۔ یہ کمپنی تقریباً تیس ہزار ملازمین کو روزگار دیتی ہے‘ اس فیصلے سے وہ بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ گیس‘ بجلی کی کھپت کم ہونے سے حکومت کو انرجی سیکٹر میں مزید نقصان ہو سکتا ہے۔ ٹیکس اہداف حاصل کرنا بھی مشکل ہو سکتا ہے۔ پہلے ہی ایف بی آر 198 ارب روپے کا سہ ماہی ہدف حاصل نہیں کر پایا‘ دوسری جانب وزیر خزانہ نے ٹیکس محصولات جی ڈی پی کے 11 فیصد تک لے جانے کا اعلان کیا ہے۔ جب کوئی نئی انڈسٹری نہیں لگ رہی‘ بڑی اور پرانی کمپنیاں کاروبار سمیٹنے کا اعلان کر رہی ہیں تو یہ اہداف حاصل کرنا کیسے ممکن ہو گا؟ اس وقت سب سے زیادہ خرچ مہنگی بجلی کا ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی گردشی قرضے کم کرنے پر زور دیا ہے۔ حکومت نے آئی پی پیز کو ادائیگیوں کے لیے اٹھارہ بینکوں کے کنسورشیم سے تقریباً 1.22 ٹریلین روپے کے معاہدے کیے ہیں لیکن یہ ایک عارضی حل ہے۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ تو پورا ہو جائے گا لیکن ان کی ادائیگی عوام سے لے کر کی جائے گی‘ نتیجتاً بجلی مزید مہنگی ہو گی اور صنعتیں چلانا مزید مشکل ہو جائے گا۔ حال ہی میں امریکہ کی ایک بڑی کنزیومر گڈز کارپوریشن نے پاکستان میں مینوفیکچرنگ یونٹس بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وہ اپنی مصنوعات پاکستان میں بیچنا چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان دنیا کی آٹھویں بڑی کنزیومر مارکیٹ ہے‘ اس مارکیٹ کو چھوڑنے کا نقصان بہت زیادہ ہے لیکن کمپنی اپنی مصنوعات پاکستان میں تیار کرنے سے گھبرا رہی ہے کیونکہ ہمسایہ ممالک میں کاسٹ آف پروڈکشن پاکستان سے آدھی ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کے معیارِ زندگی کو متاثر کیا ہے۔ ملک میں بیروزگاری کی شرح آٹھ فیصد تک پہنچ چکی ہے‘ تقریباً 45 فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ دو سال قبل کمپنی کی مصنوعات‘ معیاری ہونے کی وجہ سے مہنگی ہونے کے باوجود بکتی تھیں‘ لیکن اب غربت بڑھنے سے عوام سستے متبادل استعمال کرنے لگے ہیں‘ جس کی وجہ سے کمپنی کا منافع تقریباً ڈیڑھ ارب روپے کم ہوا ہے اور متبادل کمپنی کا منافع تقریباً ایک ارب روپے بڑھ گیا ہے۔ 1991ء سے پاکستان میں فعال مذکورہ کمپنی کی مینوفیکچرنگ بند ہونے سے ٹیکس کی مد میں تقریباً 15 سے 20 ارب روپے کمی آسکتی ہے۔ پیکیجنگ‘ کیمیکل‘ پلاسٹک‘ ٹرانسپورٹ‘ پرنٹنگ اور لوکل ایڈورٹائزنگ کمپنیوں سمیت کئی دیگر کمپنیوں کے آرڈر رکنے سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو بھاری نقصان ہو سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ ہزار بلاواسطہ اور تقریباً 20 سے 25 ہزار خاندان بالواسطہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس نقصان کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے۔
پاکستان میں کمپنیاں انرجی کا متبادل سورس تلاش کر رہی ہیں۔ ان میں سولر انرجی سرفہرست ہے۔ پہلے سولر انرجی سے بجلی کی پیداوار 14 فیصد تھی جو اَب تقریباً 25 فیصد ہو چکی ہے‘ جس سے گردشی قرضہ مزید بڑھنے کے امکانات ہیں۔ حکمرانوں نے عجب صورتحال بنا رکھی ہے۔ اگر ایک کام میں سہولت نظر آتی ہے تو اسی کام کے مضمرات بھی سامنے آ جاتے ہیں۔ لیکن آئی پی پیز والا معاملہ عوام اور ملک کے ساتھ آخری درجے کی ناانصافی اور ظلم ہے۔ اگر تمام فیکٹری مالکان سولر پر منتقل ہو جائیں تو حکومت غیر استعمال شدہ اور نہ پیدا کردہ بجلی کا خرچ بھی صارفین پر ڈال دے گی جس سے بجلی کا خرچ ایک مرتبہ پھر بڑھ جائے گا۔ سولر لگانے کا فائدے سے زیادہ نقصان ہو جائے گا۔ بیورو کریسی اور سیاستدانوں نے ملک کو ایک ایسے جال میں پھنسا رکھا ہے جس سے جان بچا کر نکلنا مستقبل قریب میں مشکل دکھائی دیتا ہے۔
ان حالات میں ایک اچھی خبر آئی ہے۔ بلوم برگ کے مطابق پاکستان کی کارکردگی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔ پہلے نمبر پر ترکیہ کو رکھا گیا ہے۔ تقریباً اڑھائی سال قبل پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی خبریں گردش کر رہی تھیں اور آج پاکستان کو ابھرتی معیشتوں میں دوسرا نمبر ملنا یقینا بڑی کامیابی ہے۔ اس کی ایک وجہ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد کے ساتھ ملکی سٹاک ایکسچینج میں بہتری‘ ڈالر ریٹ میں استحکام‘ ترسیلاتِ زر میں اضافہ‘ مہنگائی میں کمی اور شرح سود میں کمی کے ساتھ سیاسی استحکام ہے۔ پاکستان نے ہر سہ ماہی میں بہتری دکھائی ہے۔ پرائمری خسارے کو سرپلس میں بدلا گیا اور صوبوں کو کیش سرپلس میں تبدیل کیا گیا۔ بظاہر ایسا ممکن نہیں تھا۔ جب آئی ایم ایف نے یہ شرائط لاگو کی تھیں تو اکثریت کی رائے تھی کہ یہ شاید ناممکن ہے لیکن سخت معاشی پالیسیوں سے یہ ممکن بنایا گیا۔ اگر بین الاقوامی ادارے پاکستان کے بارے میں مثبت خبریں دیتے رہے تو ملکی معیشت میں بیرونی سرمایہ کاری آنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔