دل کا سکون: انسان کی سب سے بڑی خواہش
لاہور: (مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جہاں کہیں اللہ کے بندے اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو لازمی طور پر فرشتے ہر طرف سے ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور ان کو گھیر لیتے ہیں اور رحمت الہٰی ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکینہ کی کیفیت نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے معتبر ملائکہ میں ان کا ذکر فرماتا ہے‘‘۔
دل کا سکون کون نہیں چاہتا ۔ہر دور میں ہر انسان کی یہ چاہت رہی ہے کہ مجھے دل کا چین اور اطمینان مل جائے، اس اطمینان کو انسان نے جگہ جگہ تلاش کیا، کسی نے مختلف رسالوں اور کتابوں کے پڑھنے میں سکون پایا، کسی نے سیرو تفریح کے مقامات میں جا کر اطمینان پایا، کسی نے باغات میں جا کر درختوں اور پودوں کے درمیان گھوم پھر کر اور پھولوں کے رنگ و بو میں سکون تلاش کیا، کسی نے کھیل کود اور جدید تفریحی آلات کے ذریعہ سکون و اطمینان پانے کی کوشش کی۔
لیکن انسان نے خود سے جتنے راستے سکون حاصل کرنے کیلئے تلاش کئے ان میں وقت برباد ہوا، کہیں پیسہ ضائع ہوا، کہیں ایمان و اخلاق کی خرابی آگئی اور کبھی صحت کو بھی کھو دیا، یہ درست ہے کہ ان چیزوں میں بھی وقتی طور پر سکون ملتا ہے، لیکن خالق کائنات جس نے ہمارے جسم کی مشین کو بنایا اس ذات حکیم و خبیر نے ہمیں رسول اکرمﷺ کی سیرت مبارکہ کے ذریعہ سکون حاصل کرنے کی بہترین تعلیم عطا فرمائی، سورۂ رعد کی 28 ویں آیت میں فرمایا: ’’آگاہ رہو اللہ کی یاد سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔
اطمینان قلب ایک بہت بڑی نعمت ہے اسے دولت سے نہیں خریدا جا سکتا، مادیت پرستی کی دوڑ میں انسان سکون کیلئے بے قرار ہے، اس نعمت کو حاصل کرنے کا آسان طریقہ اللہ سے تعلق قائم کرنا اور اس کی یاد دل میں بسا لینا ہے۔
رسول اکرمﷺ جب دیکھتے کہ معاشرے میں پریشانی آسکتی ہے تو آپﷺ نماز میں مشغول ہو جاتے، تیز آندھی آتی تو آپﷺ نماز کی طرف متوجہ ہو جاتے، بارش نہ آتی، خشک سالی ہو جاتی تو صلوٰۃ الاستسقاء (بارش کے وقت کی نماز) ادا فرماتے، سورج گرہن یا چاند گرہن لگتا تو نماز کسوف اور نماز خسوف ادا فرماتے۔
جب نبی کریمﷺ کے گھر والوں پر کسی قسم کی تنگی اور پریشانی آتی، دل بے سکون ہوتا تو آپﷺ ان کو نماز کا حکم فرمایا کرتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے ’’وامر اہلک بالصلوٰۃ واصطبر علیہا لا نسئلک رزقا‘‘، ترجمہ ’’ آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرتے رہیے اور اس کی پابندی فرماتے رہیے ہم آپ سے رزق کا مطالبہ کرنا نہیں چاہتے‘‘، یعنی رزق دینے والا اللہ ہے اور اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
رسول اکرمﷺ نے اپنی سیرت طیبہ کے ذریعہ یہ تعلیم دی کہ انسان اللہ سے غافل ہو کر دنیا کی دولت میں کبھی اطمینان و سکون نہیں پا سکتا۔
آپﷺ فرماتے ہیں کہ ’’ اگر آدمی کے پاس دو وادیاں مال کی بھری ہوئی ہوں تو وہ چاہے گا کہ میرے پاس تیسری وادی بھی مال سے بھری ہوئی ہو اور ابن آدم کا پیٹ تو صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے‘‘، اور پھر فرمایا کہ ’’ جو لوگ اپنا رخ اللہ کی طرف کر لیں تو ان پر اللہ کی خاص عنایت ہوتی ہے اور ان کو اللہ اس دنیا میں اطمینان قلب عطا فرما دیتا ہے پھر اس دنیا میں ان کی زندگی بڑے مزے کی اور بڑے سکون سے گزرتی ہے‘‘۔
رسول اکرمﷺ نے ہمیں اپنی سیرت مبارکہ سے بہت واضح طور پر یہ سمجھایا کہ دل کا چین اور اطمینان قناعت سے حاصل ہوتا ہے، حرص اور لالچ سے کبھی سکون حاصل نہیں ہوتا، رحمت اللعالمینﷺ نے زندگی کے ہر مرحلہ میں یہ تعلیم دی کہ دنیا کے سازوسامان اور اس کی دولت میں سکون تلاش کرنا بے فائدہ ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ فرماتے ہیں ’’جس کی نیت اور اس کا مقصد اپنی تمام تر کوشش سے طلب آخرت ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو دل کی بے نیازی یعنی مخلوق کا محتاج نہ ہونا اور دل کا اطمینان نصیب فرما دیتے ہیں‘‘۔
جن چیزوں سے دل کا سکون رخصت ہو جاتا ہے ان میں ایک اہم چیز حسد ہے، یعنی دوسرے کے پاس نعمت دیکھ کر دل میں جلن محسوس کرنا دوسرے کی خوش حالی دیکھ کر دل میں کڑھنا اور یہ چاہنا کہ دوسرے انسان کو یہ چیز کیوں ملی، معاشرہ میں رہتے ہوئے آپس میں حسد کرنے سے ذہنی سکون ختم ہو جاتا ہے۔
رسول اکرمﷺ نے اپنی سیرت پاک کے ذریعے امت کو تعلیم دی کہ اگر دل کا سکون اور اطمینان چاہیے تو مثبت خیالات اور پاکیزہ سوچ کو اپنائیں، آپﷺ نے ایسا معاشرہ ترتیب دیا جس میں خود کھا کر اتنا اطمینان نہیں ملتا جتنا دوسرے کو کھلا کر سکون نصیب ہوتا ہے، اپنی مرضی اپنی چاہت پوری کرنے کے بجائے ایثار کی تعلیم دی اور یہ سکھایا کہ نفسانفسی کے عالم میں سکون نصیب نہیں ہوتا بلکہ احسان کر کے، خدمت کر کے، آپس کی ہمدردی اور غمخواری کے ذریعہ دل کا سکون نصیب ہوتا ہے۔
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور اور چیئرمین قرآن بورڈ پنجاب ہیں۔