کافی:روایت،رجحان اور ثقافت
اسپیشل فیچر
دنیا میں روزانہ دو ارب 25 کروڑ کپ کافی پی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ دنیا میں سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔دنیا کی سماجی تاریخ پر کافی کے انمٹ اثرات ہیں۔ کہیں اس کا تعلق سماجی انقلاب سے ملتا ہے اور کہیں ترک تعلق اور اپنے آپ میں مگن ہونے کے ساتھ۔ یہ دونوں صورتیں اگرچہ متضاد ہیں مگر ان میں ایک طرز مشترک ہے ‘ کافی۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ کافی کی تاریخ کیا ہے اور یہ کن ادوار سے ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی ۔ اس تحریر میں ہم اسی کا جائزہ لیں گے اور دنیا میں کافی کی سرگزشت اور روایت کو کھوجنے کی کوشش کریں گے۔
کافی کی حقیقت ایتھوپیا کا افسانہ
ایتھوپیا کوکافی کی جنم بھومی سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ نے کی کافی کی کہانی کو گوگل کریں تو آپ کو یہ مشہور قصہ ضرور ملے گا کہ کس طرح ایتھوپیا میں کلدی نامی ایک چرواہے نے 800 عیسوی کے قریب کافی تلاش کی تھی۔کہتے ہیں کہ وہ اپنی بکریوں کے ساتھ تھا کہ اس نے انہیں عجیب و غریب سی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ ایک درخت سے بیر جیسے پھل کھانے کے بعد توانا اور پرجوش ہو گئی تھیں۔کلدی نے خود بھی ان بیروں کا ذائقہ چکھا توخود بھی توانا محسوس کرنے لگا۔کلدی ان بیروں کو ایک راہب کے پاس لے گیا۔راہبوں نے اسے 'شیطان کا کام‘ قرار دے دیااور اُن بیروں کو آگ میں پھینک دیا۔ ایسا کرتے ہوئے بھینی بھینی خوش ذائقہ خوشبو آنے لگی تو ان بیروں کو آگ سے نکال کر انگاروں میں کچل دیا گیا۔ راہبوں نے کچلے ہوئے بیروں پر پانی چھڑکا توخوشبو کا احساس مزید بڑھ گیا تو راہب اس پانی کا ذائقہ چکھنے پر مجبور ہو گئے۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا کیونکہ یہ سفوف ملا پانی جو دراصل کافی تھا،راہبوں کو رات کی عبادت اور دعاؤں کیلئے بیدار رہنے میں مدد دے رہا تھا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ صرف ایک کہانی ہو کیونکہ کافی کی تاریخ کو اورومو/گالا (Oromo /Galla) خانہ بدوش قبیلے سے بھی ملایا جاتا ہے۔
کافی کی تاریخ یمن سے
کافی کی روایت میں یمن کے بارے بھی کچھ کہانیاں مشہور ہیں۔ کافی کی ابتدا کے بارے میں یمن کا سب سے مشہور افسانہ ایتھوپیا کی کہانی سے ملتا جلتا ہے۔وہ اس طرح کہ ایک یمنی صوفی ایتھوپیا کا سفر کر رہا تھا جہاں اسے کچھ بہت متحرک اور پرجوش پرندے دکھائی دیے جو ایک پودے سے پھل کھا رہے تھے۔ سفر کے تھکے ہوئے صوفی نے بھی ان بیروں کو کھانے کافیصلہ کیا اور اسے محسوس ہوا کہ ان سے خاصی توانا ئی ملتی ہے۔مگر عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی کی پھلیاں ایتھوپیا سے یمن برآمد کی گئی تھیں۔ یمنی تاجر کافی کے پودوں کو اپنے وطن لائے تھے اور وہاں ان کی کاشت شروع کی۔جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی کی ابتدا ایتھوپیا میں ہوئی ، یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے 15 ویں صدی میں بحیرہ احمر کے پار شمال کی طرف یمن کی جانب اپنا راستہ بنایا اورپھر یہ یمنی علاقے میں بھی اگائی جانے لگی اور 16 ویں صدی تک یہ فارس، مصر، شام اور ترکی تک پہنچ چکی تھی۔یہ مشروب تازہ دم رہنے میں مدد کرنے کیلئے مقبول ہوا۔دنیا کا پہلا کافی ہاؤس 1475ء میں قسطنطنیہ(استنبول) میں کھولا گیا ۔ کافی روزانہ کے معمول کے طور پر گھروں میں اور مہمان نوازی کیلئے پیش کی جانے لگی۔ بیرون ِخانہ لوگوں نے نہ صرف کافی پینے بلکہ گپ شپ، موسیقی ، شطرنج کھیلنے اور اطلاعات حاصل کرنے کیلئے کافی ہاؤسز میں بیٹھنا شروع کر دیا۔یوں کافی ہاؤسز تیزی سے معلومات کے تبادلے اور حصول کا مرکز بن گئے۔ انہیں اکثر ''دانشمندوں کے مدرسے‘‘ کہا جاتا تھا۔
کافی ہندوستان کیسے پہنچی؟
ہندوستان میں بھی کافی کی داستان دلچسپ تاریخی روایتوں پر مبنی ہے۔ پندرہویں صدی میں کافی یمن کافی کی تجارت کا مرکز بن گیا اور وہاں سے یہ مشروب مکہ، مدینہ اور اسلامی سلطنت کے دیگر علاقوں میں پھیل گیا۔ہندوستان میں کافی کے داخلے کا سہرا صوفی بزرگ بابا بودن کے سر باندھا جاتا ہے، جن کا اصل نام حضرت شاہ جمال الدین تھا۔ روایت کے مطابق بابا بودن سترہویں صدی میں حج کی ادائیگی کیلئے گئے۔ اس زمانے میں عرب تاجروں نے کافی کے بیجوں کی برآمد پر سخت پابندی عائد کر رکھی تھی تاکہ اس کی کاشت دوسرے ملکوں میں نہ ہو سکے۔ کہا جاتا ہے کہ بابا بودن نے یمن سے کافی کے سات بیج چپکے سے حاصل کیے اور انہیں اپنی کمر بند میں چھپا کر ہندوستان لے آئے۔واپسی پر بابا بودن نے یہ بیج جنوبی ہندوستان کے علاقے چکماگلور (کرناٹک) کی پہاڑیوں میں بو دیے۔ یہاں کا موسم اور زمین کافی کی کاشت کیلئے موزوں ثابت ہوئے یوں ہندوستان میں پہلی بار کافی کی فصل اگائی گئی۔اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں برطانوی دورِ حکومت کے دوران کافی کی تجارتی بنیادوں پر کاشت شروع ہوگئی۔ انگریزوں نے بڑے بڑے کافی سٹیٹس قائم کیے اور یہاں کی پیداوار کو عالمی منڈیوں تک پہنچایا۔ اگرچہ بعد میں چائے کو زیادہ فروغ ملا لیکن جنوبی ہندوستان میں کافی اپنی ثقافتی شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔
کافی یورپ میں
پھر کافی کی تاریخ کا رُخ بدلنا شروع ہوا۔ اس مشروب نے یورپی مسافروں میں کافی مقبولیت حاصل کر لی تھی اور17 ویں صدی تک کافی نے یورپ کا راستہ بنا لیا تھا اور پورے یورپی براعظم میں تیزی سے مقبول ہو رہی تھی۔یورپی کافی کی تاریخ اٹلی سے شروع ہوتی ہے جہاں اسے سلطنت ِعثمانیہ سے درآمد کیا گیا تھا۔وینس کے تاجروں نے یورپی علاقوں میں کافی کی وسیع پیمانے پر مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا اور 1645ء میں وینس میں پہلا یورپی کافی ہاؤس کھولا گیا۔ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے انگلینڈ میں بھی کافی بہت مقبول ہوئی۔ انگلینڈ میں پہلا کافی ہاؤس 1651ء میں آکسفورڈ میں کھولا گیا۔ان کافی ہاؤسز میں لوگ کاروبار اور خبروں پر تبادلۂ خیال کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بہت سے کاروباری منصوبے اور آئیڈیاز لندن کے کافی ہاؤسز میں تخلیق ہوئے۔ اس کے بعد فرانس کے بادشاہ لوئس XIV کے دربار میں ترک سفیر سلیمان آغا نے 1669ء میں فرانس میں کافی متعارف کروائی۔دو سال بعد پاسکل نامی ایک آرمینیائی باشندے نے سینٹ گرمین کے میلے میں کافی کا ڈھابہ کھولا۔ اگلے 30 سالوں میں کافی آسٹریا، جرمنی، سپین اور باقی یورپ میں ثقافت کا حصہ بن چکی تھی۔
کافی بحر اوقیانوس کے اُس پار
ورجینیا کی کالونی کے بانی کیپٹن جان سمتھ نے 1607ء میں جیمز ٹاؤن کے دیگر آباد کاروں کو کافی متعارف کروائی۔ تاہم پہلے اسے خوشدلی سے قبول نہیں کیا گیا اور اس کے مقابلے میں چائے کو ترجیح دی گئی۔1670ء میں، ڈوروتھی جونزبوسٹن میں کافی فروخت کرنے کا لائسنس حاصل کرنے والی پہلی دکاندار تھیں۔ لیکن چائے اب بھی امریکہ کے لوگوں کا پسندیدہ مشروب تھی۔ چائے پر زوال اُس وقت آ یا جب برطانیہ کے خلاف بغاوت کی وجہ سے اسے پینا غیر محب وطن ہونے کی علامت سمجھا جانے لگا اور چائے سمندر میں پھینکی جانے لگی۔ اس کے بعد کافی تیزی سے مقبول ہوئی۔امریکہ کا گرم مرطوب موسم کافی کی کاشت کیلئے آئیڈئیل خیال کیاگیا اور کافی کے پودے تیزی سے پورے وسطی امریکہ میں پھیل گئے۔امریکہ میں کافی کی پہلی فصل کی چنائی 1726ء میں ہوئی۔لاطینی امریکی ممالک میں بھی کافی کی کاشت کیلئے مثالی ماحول تھا، جیسا کہ دھوپ اور بارش کا اچھا توازن اور مرطوب درجہ حرارت۔ اٹھارہویں صدی کے وسط تک لاطینی امریکہ کے ممالک کافی اگانے والے کچھ سرکردہ ممالک بن گئے۔ آج بھی برازیل دنیا کا سب سے بڑا کافی پروڈیوسر ہے۔