ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

امریکی میڈیا کے مخدوش حالات …(2)

تحریر: مائیکل گرِن بام

واشنگٹن پوسٹ اور دی لاس اینجلس ٹائمز کو ٹیک انڈسٹری کے ارب پتی مالکان نے خرید لیا تھا؛ چنانچہ دونوں اخبارات نے بڑے پیمانے پر ملازمتیں فراہم کیںاور اس دوران انہیں پلٹزر پرائز بھی ملے۔ لیکن پچھلے سال ان دونوں اخبارات کو کروڑوں ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اسی مہینے دی لاس اینجلس ٹائمز کے انتہائی معتبر ایڈیٹر کیون میریڈا نے اخبار کے مالک ڈاکٹر پیٹرک سون شیونگ کے ساتھ سخت اختلاف کے بعد استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس کے بعد ملازمین کی برطرفی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جب ان برطرفیوں کی خبر پھیلی تو این پی آر کے ایک شو کی میزبان میری لوئی کیلی نے ایکس پر لکھا کہ ’’اگر آپ کو صحافت کا خیال ہے یعنی مقامی خبروں، قومی خبروں اور بین الاقوامی خبروں کا‘ تو آپ کے لیے ہر وارننگ لائٹ کو سرخ ہونا چاہئے‘‘۔

اسی طرح ’’دی پوسٹ‘‘ بھی ا پنے کھرب پتی مالک ایمیزون کے جیف بیزوس کی ہدایات کی روشنی میں اپنے اخراجات میں بھاری کٹوتیاں کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے دور میں اس اخبار کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا تھا لیکن پھر یہ اپنے سبسکرائبرز کی تعداد بڑھانے میں ناکام رہا۔ نیا سال شروع ہونے سے کچھ دن قبل اخبار نے اعلان کیا کہ اس کے240 ملازمین نے اخبار کے حصص خرید لیے ہیں۔ ریاست میری لینڈ کے سب سے بڑے اخبار دی بالٹی مور سَن کو بھی ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چنانچہ اسی ماہ ایک بزنس مین ڈیوڈ سمتھ‘ جو ایک قدامت پسند براڈکاسٹ گروپ چلاتے ہیں‘ نے دی بالٹی مور سَن کو بھی خرید لیا ہے۔ اخبار کے کئی رپورٹرز کو تشویش لاحق ہے کہ ڈیوڈ سمتھ اخبار پر اپنے سیاسی مفادات کو مسلط کریں گے کیونکہ انہوں نے حال ہی میں یہ تسلیم کیا ہے کہ انہوںنے گزشتہ چالیس برسوں کے دوران شاید ہی کبھی اخبار پڑھا ہو۔

میگزین کی دنیا بھی زیادہ مزاحمت نہیںکر سکی۔ پچھلے ہفتے سپورٹس السٹریٹڈ‘ جسے سپورٹس جرنلزم کا ستون سمجھا جاتا تھا اور جس کے کور پیج پر نظر آنا دنیا کے ہر بڑے ایتھلیٹ کا خواب ہوا کرتا تھا‘ نے کہا ہے کہ وہ اپنے سٹاف کی ایک بڑی تعداد کو ملازمت سے برخاست کر رہا ہے۔ اس کا مستقبل بھی اب مخدوش ہو چکا ہے کیونکہ اس کے مالکان اپنی پراپرٹی کو نئے انویسٹرز کے حوالے کرنے کے بارے میںسوچ رہے ہیں۔ چند روز پہلے ہی کونڈے ناسٹ نے اپنے موسیقی کے کنگ میکر ’’پچ فورک‘‘ کو ایک جی کیو میگزین میں تبدیل کر دیا ہے اور اپنے ایڈیٹر انچیف سمیت سارے سٹاف کو ملازمت سے برخاست کر دیا ہے۔ منگل کے روز سارے سٹاف نے کونڈے ناسٹ کے خلاف واک آئوٹ کے بعد ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں واقع اپنے ہیڈ کوارٹر پر سخت احتجاج کیا۔ 

ٹائم میگزین کے ارب پتی مالک مارک بینی اوف‘ جو سیلز فورس کے بھی بانی ہیں‘ نے اس ہفتے سٹاف کی چھانٹی شروع کر دی ہے۔ ایک لحاظ سے بری خبریں پچھلے سال کا ہی تسلسل ہے۔ 2023ء میں بزنس انسائیڈر، دی لاس اینجلس ٹائمز اور این پی آر نے کم از کم اپنے دس فیصد سٹاف کی چھانٹی کی تھی، بز فیڈ کے نیوز روم کو بند کر دیا گیا تھا، نیو ز کارپ نے اپنے بارہ سو پچاس ملازمین کو برطرف کر دیا تھا، نیشنل جیوگرافک نے اپنے باقی ماندہ سٹاف رائٹرز کو بھی برخاست کر دیا ہے، واکس میڈیا نے دو مرتبہ اپنے ملازمین کو لے آف کیا ہے۔ وائس میڈیا نے قرقی کا کیس فائل کر دیا ہے، پاپولر سائنس نے اپنا آن لائن میگزین بند کر دیا ہے، ای ایس پی این، کونڈے ناسٹ اور یاہو نیوز‘ ان سب نے ملازمتوں میںکمی کر دی ہے۔ ایک معروف میڈیا تجزیہ کار کین ڈاکٹرکا کہنا ہے کہ ’’بڑے میڈیا گروپس‘ جن میں کھرب پتی پرنٹ میڈیا مالکان بھی ہیں اور بعض ہائی پروفائل ڈیجیٹل میڈیا مالکان بھی شامل ہیں‘ نے ایک عشرہ پہلے ہی اس بات کا نوٹس لے لیا تھا مگر اب انہیں ایک نئی حقیقت کا بھی سامنا ہے‘‘۔ 

اب ذرائع ابلاغ کی روایتی صنعت کو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی وجہ سے ٹیکنالوجی کی نئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کئی نیوز آئوٹ لیٹس نے اپنی اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اے آئی الگورتھم‘ جو اپنے قارئین کے سوالات کے فوری جواب دے دیتے ہیں‘ وہ کرنٹ ایونٹس کے سورسز کے طور پر آن لائن نیوز سائٹس کی جگہ لے سکتے ہیں۔

نیویارک ٹائمز نے کاپی رائٹس کے نام پر اوپن اے آئی کے خلاف کیس کر دیا ہے کیونکہ اس کا موقف ہے کہ اس نے آٹومیٹڈ چیٹ باٹس کو ٹریننگ دینے کے لیے اس کے لاکھوں آرٹیکلز کا استعمال کیا ہے اور اب وہ انفارمیشن پرووائیڈرز کے طور پر اس کے ساتھ ہی مسابقت کر رہے ہیں۔ ایکس سپرنگرز جیسے پبلشرز نے اوپن اے آئی کے ساتھ سالانہ معاوضے کی ادائیگی کے معاہدے کر لیے ہیں جس کے بدلے میں وہ اسے اپنے ڈیجیٹل آرکائیوز کو استعمال کرنے کی اجازت دیں گے۔ سی بی ایس کے سابق صدر اور کئی نیوز آئوٹ لیٹس کے کنسلٹنٹ مسٹر ہیورڈ کہتے ہیں کہ ’’اگر کوئی روشن امید نظر آتی ہے تو وہ لوکل ٹی وی نیوز ہیں۔ اگرچہ مقامی ٹی وی نیوز سٹیشنز کو اپنے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن میں سب سے سنگین رپورٹرز کا بوجھ ہے جنہیں بھاری تنخواہیں دینا ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ لوکل ٹی وی سٹیشنز کے رپورٹرز لوکل اخبارات کے رپورٹرز کے مقابلے میں ایک بہتر لائف سٹائل رکھتے ہیں۔ لوکل ٹی وی نیوز کو کئی طرح سے لوکل اخبارات پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ حقیقت میں مقامی ٹی وی نیوز کی ہر سائز کی مارکیٹ تین یا چار نیوز رومز پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ مقامی اخبارات کے ساتھ بالکل متضاد صورتِ حال ہوتی ہے جہاں مارکیٹ کے پاس ایک بھی نیوز روم ہو‘ تو اسے غنیمت سمجھا جاتا ہے اور کوئی دوسرا نیوز روم ہو بھی تو پہلے کا حصہ ہی ہوتا ہے‘‘۔

2022ء میں گیلپ اور نائٹ فائونڈیشن نے ایک سروے کرایا تھا جس کے مطابق امریکی شہری کسی بھی قومی سطح کی نیوز آرگنائزیشن کے مقابلے میں کسی مقامی نیوز سورس پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ اسی ہفتے گیلپ نے ایک سروے کے نتائج جاری کیے ہیں جس کے مطابق صرف 19 فیصد امریکی شہریوں نے رپورٹرز پر زیادہ اور بہت اعلیٰ اعتماد کا اظہار کیا ہے اور یہ شرح چار سال پہلے کے مقابلے میں 9 پوائنٹس کم ہو گئی ہے۔ مسٹر ہیورڈ کا مقامی نیوز آئوٹ لیٹس کے بارے میں کہنا ہے کہ ’’ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مقامی ٹی وی سٹیشنز کی دی ہوئی خبریں جھوٹی ہوتی ہیں۔ اگر کسی جگہ ٹریفک کی کوئی لائٹ ٹوٹی ہوئی ہے تو اس علاقے کے لوگ بھی اس بات کو جانتے ہیں اور ایسی خبر کی کوئی متبادل خبر بھی نہیں ہو سکتی۔ امریکی شہریوں کو دو خبروں میں کوئی مشترکہ گرائونڈ تلاش کر نے میں کافی دقت پیش آتی ہے لیکن کسی مقامی مارکیٹ میں انہیں ایسی مشترکہ وجہ مل ہی جاتی ہے‘‘۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement