سیاسی کشیدگی میں اضافہ، اہم فیصلے متوقع
اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) ملک میں ایک اور سیاسی بھونچال آتا دکھائی دے رہا ہے، سیاسی گرما گرمی بڑھ رہی ہے، حکومت اور اس کے اتحادیوں کی توپوں کا رُخ ایک مرتبہ پھر پاکستان تحریک انصاف اور اس کے بانی کی جانب ہو چکا ہے۔
ریاستی اداروں کی جانب سے بھی بانی پی ٹی آئی اور ان کے طرزِ سیاست اور افواج مخالف بیانیے پر شدید رد عمل دیا گیا ہے، پریس کانفرنسز میں ہونے والی گفتگو اور لہجہ بتا رہا ہے کہ کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے اور اس کے لئے سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے،بانی پی ٹی آئی کی اڈیالہ جیل میں موجودگی اور ان کی ملاقاتوں کا معاملہ بھی حکومت کو تنگ کر رہا ہے۔
پنجاب اسمبلی نے بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کو اینٹی پاکستان قرار دے کر ان پر پابندی کے لئے قرار داد منظور کر لی ہے، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو غیر فعال کر کے گورنر راج لگانے کے آپشن پر بھی سنجیدگی سے غور کیا گیا ہے اور اس حوالے سے کئی آپشنز اب بھی زیر غور ہیں۔
چند روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے پریس کانفرنس میں بانی پی ٹی آئی کا نام لئے بغیر کہا کہ اس شخص کا بیانیہ قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں نہیں تو کچھ نہیں، کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ عوام کو فوج کے خلاف بھڑکائے، یہی فوج ہے جو ملک کی ڈھال ہے، فتنہ الخوارج، فتنہ الہندوستان ، بھارت اور عوام کے درمیان یہی فوج کھڑی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز علما کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افواج پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا ناقابل برداشت ہے، معرکہ حق میں علما اور قوم کی دعاؤں سے پاکستان کو اہم کامیابی ملی، مسلح افواج کی جرأت سے بھارت کو شرم ناک شکست ہوئی، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں فوج نے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کو معاشی ترقی کی طرف لے جانے کے لئے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں مگر دہشت گردی اور یہ کوششیں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں، ملک کو ترقی دینے کے لئے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے، دشمن حیران اور دوست خوش ہیں کہ پاکستان نے نہ صرف دشمن کے خلاف معرکہ جیتا بلکہ دوست ممالک اسے اپنی فتح سمجھتے ہیں اور ہمیں مبارک باد دیتے ہیں مگر یہاں اگر زہر آلود پروپیگنڈا کیا جائے تو اسے مسترد کرنا صرف ہماری نہیں سب کی ذمہ داری ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے بیان دیا ہے کہ ایک سیاسی جماعت سیاسی دجال کا کام کر رہی ہے، وہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی کے حق میں نہیں مگر پاکستان تحریک انصاف خود ایسے حالات پیدا کر رہی ہے کہ اس پر پابندی لگے، خیبر پختونخوا میں سیاسی جماعت دہشت گردوں کی سہولت کار بنی تو گورنر راج مجبوری بن جائے گا، صوبے میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں خلل ڈالا گیا تو مسائل بنیں گے، پیپلز پارٹی گورنر راج اور کسی بھی جماعت پر پابندی کے حق میں نہیں تھی مگر اب اسے بھی یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ایسا کرنے پر مجبور کر رہی ہے تو اس سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اب تو کہا جانے لگا ہے کہ لکیر کھینچی جا چکی ہے کس نے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ چلنا ہے اور کس نے پاکستان کے ساتھ چلنا ہے، اور آنے والے چند دنوں میں کوئی بڑا قدام اٹھایا جا سکتا ہے، چند گھنٹے قبل وزیر اعظم کے کوآرڈینیٹر برائے اطلاعات اور امور خیبر پختونخوا اختیار ولی نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے تمام دروازے بند ہو چکے ہیں، کوئی بھی جمہوری قیادت تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار نہیں، بانی اور پاکستان کے عشق میں واضح لکیر کھینچ دی گئی ہے، بانی پی ٹی آئی کی اڈیالہ جیل سے منتقلی پر غور ہو رہا ہے۔
تحریک انصاف سے متعلق صورتحال اس وقت زیادہ خراب ہوئی جب 2 دسمبر کو بانی پی ٹی آئی سے ان کی بہنوں کی ملاقات کرائی گئی، یہ ملاقات تقریباً ایک ماہ کے بعد کرائی گئی تھی، اس ملاقات میں تاخیر کی وجہ بانی پی ٹی آئی کے اداروں کے خلاف بیانات تھے، کچھ وزراء کی جانب سے سیاسی کشیدہ صورتحال میں کمی کیلئے تجویز دی گئی تھی کہ یہ ملاقات کرا دی جائے مگر اس کا نتیجہ الٹ نکلا، ملاقات کا مشورہ دینے والے وزراء بیک فٹ پر گئے اور اب حکومت نے بانی پی ٹی آئی سے نا صرف ملاقاتوں سے متعلق بلکہ ان کی منتقلی سے متعلق بھی بظاہر اہم فیصلے کر لئے ہیں۔
2 دسمبر کو ہونے والی ملاقات کی اجازت اس شرط پر دی گئی تھی کہ اس ملاقات کے دوران یا اس کے بعد کسی قسم کی سیاسی گفتگو یا سرگرمی نہیں کی جائے گی بصورت دیگر اس فیصلے پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے، مگر بانی پی ٹی آئی کی بہن عظمیٰ خان اور وکیل سلمان صفدر سے ہونے والی ملاقات کے بعد ان کے ایکس ہینڈل سے ریاستی اداروں کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والی پوسٹس شائع کی گئیں اور ان میں وہ الفاظ استعمال کئے گئے جو کسی سیاسی لیڈر یا جماعت کو زیب نہیں دیتے۔
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری اور حکومت اور ریاست کو مجبور کر دیا کہ وہ اس پر کڑا ردعمل دیں، اس پراپیگنڈا کے بعد اب یہ طے ہو چکا ہے کہ بس بہت ہو چکا اب مزید ایسی مہم کی نہ تو اجازت دی جائے گی اور بانی پی ٹی آئی کی ملاقاتیں بھی اب پہلے جیسی نہیں ہو سکیں گے، دو روز قبل بانی پی ٹی آئی کی بہنیں ملاقات کیلئے آئیں مگر اس مرتبہ ملاقات نہیں ہوئی۔
بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کی جانب سے صبح تین بجے تک اڈیالہ جیل کے باہر دھرنا دیا گیا جس کے بعد ان پر واٹر کینن کا استعمال کیا گیا اور آپریشن کے ذریعے دھرنا ختم کرایا گیا، حکومتی وزراء کی جانب سے میراتھن پریس کانفرنسز بتا رہی ہیں کہ آنے والے دنوں میں پاکستان تحریک انصاف سے متعلق کچھ اہم فیصلے سامنے آسکتے ہیں، حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی کے لئے بیانیہ بنایا جا رہا ہے مگر حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
اس سے قبل ٹی ایل پی پر جب پابندی لگائی گئی تو وہ بطور تنظیم لگائی گئی نہ کہ سیاسی جماعت، اگر تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا فیصلہ ہوا تو یہ الیکشن ایکٹ اورآئین کے آرٹیکل 17 کے تحت ہو سکتا ہے، مگر اس کے لئے حتمی فیصلہ وفاقی آئینی عدالت کرے گی، ستائیسویں آئینی ترمیم سے قبل سیاسی جماعت پر پابندی کا اختیار سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس تھا۔
آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت اگر وفاقی حکومت یہ قرار دے دے کہ کوئی سیاسی جماعت ملک کی سالمیت کے خلاف کام کر رہی ہے تو وفاقی حکومت ایک ڈیکلریشین جاری کرے گی، پندرہ روز کے اندر یہ ڈیکلریشن ریفرنس کی صورت میں وفاقی آئینی عدالت میں جائے گا جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔