مردوں کا عالمی دن، ساڈا حق ایتھے رکھ!
19 نومبر کو دنیا بھر میں ’انٹر نیشنل مینز ڈے‘ یعنی کہ مردوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، اس دن کو منانے کا آغاز سال 1999سے کیا گیا، اس دن کو منانے کا مقصد مردوں اور بچوں کی صحت پرفوکس کرنا اور صنفی تعلقات بہتر بنانا ہے۔
سب کے حقوق پورے کرنے والا اپنے ہی حقوق مانگنے سے کیوں کتراتا ہے؟ آج دنیا بھر میں مردوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے لیکن مرد ہی بے خبر ہے کہ آج اس کے لیے بھی کوئی دن مقرر ہے، مرد عموماً کوئی مطالبہ بھی نہیں کرتے، وہ بس اپنی ذمہ داریاں نبھاتے چلے جاتے ہیں لیکن ان کے حقوق کون پورے کرے گا؟
مرد کے حوالے سے یہی تاثر ہوتا ہے کہ وہ سخت جان ہے، حالات اور مصائب کا بآسانی مقابلہ کر سکتا ہے، اس کو ہمدردی کی ضرورت نہیں، وہ سربراہ ہے اور محافظ ہے اس لیے اس کو عموماً وہ توجہ بھی نہیں مل پاتی جس کا وہ حق دار ہے۔
مرد کی آنکھ میں آنسو نہیں آتے کیونکہ وہ باہر کی دنیا سے آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنوں کو ہر طرح کے دکھ درد سے بچاتا ہے اور خود کو مضبوط ظاہر کرتا ہے تاکہ اس کے پیاروں کو ذرا سا بھی دکھ نہ ملے۔
مرد باپ ہے تو شجر ہے، بھائی ہے تو محافظ ہے، شوہر ہے تو ہم راز ہے، بیٹا ہے تو دل کا سکون ہے لیکن مرد کے متعلق مسائل کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
کئی ایسے تصورات بھی ہیں جن کے بارے میں بات تک نہیں کی جاتی، حتیٰ کہ مرد اپنی ذہنی، دماغی اور جسمانی صحت کے متعلق تک بات نہیں کرتے، مضبوط اور توانا نظر آنے کے لیے وہ اپنے مسائل کو نظر انداز کر کے بس مشینی انداز میں زندگی گزارتے چلے جاتے ہیں۔
مرد اپنے دکھ درد کو بھی اپنے اندر پالتے رہتے ہیں، اسی سے متعلق ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ مردوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بڑھاپے میں تنہائی کا سامنا کر رہی ہے، مردوں کے حوالے سے ایسی دقیانوسی سوچ بھی ہے کہ جہاں یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ مرد بہت کم روتے ہیں اور کبھی سب کے سامنے رونا پڑ جائے تو ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ خود کو جلدی ٹھیک کر لیں۔
اسی وجہ سے مردوں کو بچپن سے ہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ سخت انداز اور مزاج اپنائے، یہی وجہ ہے کہ مرد ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس مرض کی علامات کا انہیں خود کبھی معلوم نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں زیادہ تر مردوں کے خودکشی کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مرد حضرات کی ضروریات اور ان کے احساسات کا خیال کریں اور ان سے بات چیت کر کے انہیں قائل کریں کہ بحیثیت مرد ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنے جذبات چھپائے رکھیں، حالات کا جبر تنہا جھیلتے رہیں، انہیں قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی پریشانیاں اپنوں کے ساتھ شیئر کریں اور ان کے اہل خانہ ان کو ان پریشانیوں سے نبرد آزما ہونے میں بھرپور مدد کریں۔
رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے "مردوں کے مثبت رول ماڈلز" یعنی اس دن کا مقصد یہ ہے کہ مردوں کو ان کی ذمہ داریاں، مثبت کردار، مثبت سوچ اور اقدار کے حوالے سے منایا جائے، ان کے چیلنجز، احترام، ان کی سوچ اور ثقافت کو مثبت انداز میں فروغ دیا جائے تاکہ دقیانوسی تصورات کا خاتمہ ہو اور مردوں کی شراکت، کامیابیوں سے معاشرے میں مثبت رویے جنم لیں تا کہ مثبت مردانہ رول ماڈل سے دنیا میں مسائل کو بہتر حل کرنے اور ان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کو فروغ ملے۔
اس کے لیے اپنوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مردوں کے حقوق کا خیال رکھیں، دنیا کی سختیاں، رویے اور تلخ لہجے برداشت کرنے والے مردوں پر تھوڑی محبت اور توجہ کے پھول نچھاور کریں، یقین کیجیے یہی مثبت توانائی لوٹ کر آپ کو ملے گی۔
مرد بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ جن کے لیے دھوپ، بارش، گرمی اور سردی میں اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر سائبان کی صورت شفقت و محبت کا پیکر بنتا ہے ان کی توجہ اور محبت اس کا حق ہے، یقین کیجیے جب یہ سائبان چھن جاتا ہے تو پھر معاشرے کے تلخ رویے اور بدلتے لہجے دنیا کے عجیب ہی رنگ دکھاتے ہیں، اس لیے جو مرد سب کے حقوق پورے کرتا ہے اس کے حقو ق دیجیے۔
باہر سے کرخت، اندر سے نرم، سب کے حقوق پورے کرنے والا اپنے حقوق سے نابلد، پھر ایک ہی نعرہ بچتا ہے، ساڈا حق ایتھے رکھ!