تازہ اسپیشل فیچر

سولر پینلز کی قیمتوں میں کمی کی وجوہات اور بحرانی کیفیت

سولر پینلز کی قیمتوں میں کمی کی وجوہات اور بحرانی کیفیت

خصوصی تحریر

بجلی کی بڑھتی قیمتوں نے صارفین کو سولر منتقلی پر مجبور کیا

گزشتہ ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق 11 سو میگاواٹ کے حامل لوگ سسٹم سے نکل چکے ہیں اور اس میں بغیر وقفے اضافہ جاری ہے، بجلی صارفین کا سولر پر منتقلی کا عمل تیزی سے جاری ہے جس نے بجلی مارکیٹ کے سرمایہ کاروں، وزرات توانائی اور اس کے حکام کو تشویش میں ڈال دیا ہے، صارفین کے سولر پر منتقلی میں تیزی کی وجہ سے کس بحران کا خدشہ ہے اس پر بھی بات کریں گے لیکن آج کل جہاں بجلی کے آسمان کو چھوتے ہوئے نرخ اور وزارت توانائی کے متعلقہ محکموں کے رویوں نے صارفین کو سولر پر منتقل ہونے پر مجبور کیا ہے وہیں سولر پینلز کی گرتے ہوئے نرخ بھی ایک بڑی وجہ ہیں، گزشتہ چند عرصے سے پاکستان میں سولر پینلز کے ریٹس تسلسل سے گر رہے ہیں، پہلے فی واٹ ریٹ 120 روپے سے 130 روپے تک پر تھا وہ آج 40 سے 50 روپے فی واٹ ہے۔

سولر پینلز کی گرتی ہوئی قیمتوں کی کئی وجوہات ہیں جن میں کچھ عالمی وجوہات ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ مقامی وجوہات بھی ہیں جس کی وجہ سے قیمتیں کم ہو رہی ہیں، سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ سولر میں استعمال ہونے والے سلیکون عالمی مارکیٹ میں سستے ہو رہے ہیں، سولر پینلز جن سیلز سے بنتے ہیں اس میں سلیکون ویفر کے ہوتے ہیں جو عالمی مارکیٹ میں سستا ہو رہا تو ایک اس کا امپیکٹ آ رہا ہے، دوسری جانب سولر پینل بنانے کی ٹیکنالوجیز میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے اور دنیا جدید ترین آلات کی جانب بڑھ رہی ہے۔

سولر کمپنیاں ہیٹرو جیکشن ٹیکنالوجی کی جانب بڑھ رہی ہیں

اس سے قبل سولر پینلز بنانے کیلئے پولی کرسٹلائن ٹیکنالوجی استعمال ہوتی تھی جس کی بعد مونو پارک ٹیکنالوجی آئی اور اب موجودہ وقت سولر پینلز مینوفیکچرنگ کیلئے این ٹائپ کی ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے، این ٹائپ ٹیکنالوجی میں اب ٹاپ کون اور ہیٹرو جیکشن استعمال ہو رہا ہے، سولر بنانے والی کمپنیوں میں جو صف اول کے کارخانے ہیں وہ این ٹائپ میں ہیٹرو جیکشن ٹیکنالوجی کی جانب بڑھ رہے ہیں، یہ کمپنیاں اپنے مستقبل کو مد نظر رکھ کر پرانی ٹیکنالوجیز سے شفٹ ہو رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پرانے مال کو فروخت کر کے ختم کیا جا رہا ہے اس کی وجہ سے قیمتوں میں کمی آئی ہے۔

پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے میں سولر کی درآمد پر سختی سے پابندی تھی جس دوران بااثر کاروباری حضرات نے سولر درآمد کرکے سٹاک کیا اور اس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا، اب جیسے ہی امپورٹ پر پابندی نرم ہوئی ہے تو مارکیٹ میں پڑا ہوا سٹاک ختم کیا جا رہا ہے، یہ تو قیمتوں میں مسلسل کمی کی وجوہات تھیں لیکن سولر پر جس رفتار سے صارفین منتقل ہو رہے ہیں وہیں پر بجلی مارکیٹ کے سرمایہ کار پریشان ہیں اور ان کے ساتھ وزرات توانائی بھی بے چین ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اب تک نہ انرجی منسٹری، نہ نیپرا اور نہ کسی اور ادارے نے اس پر کوئی سٹڈی کی ہے کہ اس کا حل کیا نکالا جائے۔

طلب میں کمی کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ

صارفین تو بجلی کے بلوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ان کا حق بھی ہے لیکن یہاں پر ہم بحرانی کیفیت کی طرف جا رہے ہیں کیونکہ جو پاور پلانٹس پاکستان میں لگائے گئے ہیں ان کے ساتھ معاہدوں کے تحت ہم نے وہ پیسے ادا کرنے ہیں جن کو کیپسٹی پیمنٹ کہا جاتا ہے جو لوگ نیشنل گرڈ سے بجلی نہیں خرید رہے ان کی تو جان چھوٹ رہی ہے لیکن بوجھ سارا باقی صارفین پر آئے گا، دوسری بات یہ ہے کہ بجلی کی طلب میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جس سے قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے، لہٰذا ان صارفین پر اور بوجھ ڈالا جائے گا جو نیشنل گرڈ سے بجلی خرید رہے ہیں۔

وزرات توانائی حکام کے مطابق مارچ میں بجلی کی طلب میں کمی مجموعی طور پر ساڑھے 7 فیصد ہوئی اور فروری میں 12 فیصد تک کمی ہوئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ صارفین نے بجلی کے استعمال میں خاطر خواہ کمی لائی ہے، حکام نے یہ بھی بتایا ہے کہ بجلی کی طلب میں کمی ریفرنس اہداف سے بھی کم ہوئی یعنی جو تخمینہ لگایا گیا تھا اس سے بھی نیچے گراف گرا ہے، اعداد شمار کے مطابق نیٹ میٹرنگ سے 55 ملین یونٹس بجلی خریدی گئی اور سولر کے استعمال سے طلب اور امپیکٹ پر ایک بڑا فرق آیا ہے، اس سے بجلی نظام کو ایک اور بڑے مسئلے کا سامنا ہے۔

اہلکاروں نے بتایا ہے کہ سورج غروب ہوتے ہی ایک دم بجلی کا لوڈ بڑھتا ہے جس کی وجہ سے پھر بند پاور پلانٹس کو چلانا پڑتا ہے لیکن اس تمام تر صورتحال میں مزے کی بات یہ ہے کہ نہ وزیر توانائی نہ ان کی ٹیم اس بابت کوئی غور و فکر کر رہی ہے کہ اس کا حل کیا نکالا جائے نہ اس پر کوئی سٹڈی کی جا رہی ہے، ہاں البتہ ایک بات ہے جب پانی سر سے گزر جائے گا تو پھر تیزی میں کوئی ایسا فیصلہ کیا جائے گا جس کا خمیازہ سالوں تک عوام کو بھگتنا پڑے گا۔