ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

فلسطینی قیدیوں سے اسرائیل کی بدسلوکی … (1)

تحریر: راجا عبدالرحیم

سخت سردی میں برہنہ حالت میں ایمان لوباد بھی ان درجنوں فلسطینی مردوں‘ جوانوں اور بچوں کے ساتھ جھکا ہوا تھا جنہیں شمالی غزہ میں ان کے گھروں سے حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ سب اسرائیلی فوجیوں کے نرغے میں تھے۔ یہ دسمبر کا مہینہ تھا اور ان کی بنائی ہوئی فوٹوز اور وڈیوز میں نظر آتا ہے کہ ایمان اور دیگر قیدی صرف زیر جامہ پہنے قطار میں کھڑے تھے۔ ان کے ارد گرد اسرائیلی فوجی کھڑے تھے۔ ایک وڈیو میں اسرائیلی فوجی میگا فون پر چیختا ہے کہ ’’ہم نے پورے غزہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ تم یہی کچھ چاہتے تھے نا! تم حماس کو اپنے ہاں رکھنا چاہتے تھے؟ مجھے یہ مت کہو کہ تم حماس سے کوئی تعلق نہیں رکھتے‘‘۔

کچھ قیدی ننگے پاؤں تھے اور اپنے ہاتھ سروں سے اوپر اٹھائے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک چلا چلا کر کہہ رہا تھاکہ ’’میں ایک مزدور ہوں‘‘۔ اسرائیلی فوجی چلایا ’’شٹ اَپ!‘‘۔ غزہ سے پکڑے ہوئے قیدیوں پر پچھلے تین مہینوں سے دورانِ تفتیش تشدد کیا جا رہا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے ان قیدیوں میں سے کئی ایک کے ساتھ انٹرویو کیا تو سب نے یہی کہانی سنائی۔ فلسطینی قیدیوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم نے بھی اسی سے ملتی جلتی رپورٹ دی ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ سویلینز کے ساتھ امتیازی اور غیرانسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی فورسز نے غزہ پر حملہ کر دیا تھا اور وہاں سے ہزاروں مردوں‘ جوانوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا تھا۔ کئی ایک کو گھروں سے باہر نکلنے کا حکم دیا گیا اور پھر انہیں گرفتارکر لیا گیا۔ جو لوگ اپنی جانیں بچا کر بھاگ رہے تھے انہیں بھی حراست میں لے لیا گیا۔ یہ سب لوگ کسی محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں پیدل جا رہے تھے کیونکہ انہیں اسرائیلی اتھارٹیز نے اپنے گھر خالی کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ غزہ کے فوٹو گرافروں نے جو تصاویر لی ہیں ان میں صاف نظر آتا ہے کہ رہا کیے گئے قیدیوں کا ہسپتالوں میں علاج کیا جا رہا تھا۔ کئی ہفتوں کی حراست کے دوران کلائیوں پر گہرے زخم لگنے سے ان کے ہاتھوں کی جلد اتری ہوئی تھی۔

پچھلے ہفتے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کا فلسطینی قیدیوں کے ساتھ سلوک تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کا اندازہ ہے کہ ہزاروں سویلینز کو حراست میں لیا گیا ہے اور انہیں رہا کرنے سے پہلے انتہائی خوفناک حالات میں رکھا گیا ہے۔ کئی مرتبہ ان کے جسم پر کوئی کپڑا نہیں ہوتا صرف ایک ڈائپر ہوتا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی طرف سے سوالات پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے اسرا ئیلی فوج نے کہا ہے کہ حراست میں لیے گئے افراد پر شبہ ہے کہ وہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں جو کلیئر ہو جاتے ہیں انہیں رہا کر دیا جاتا ہے۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ زیر حراست افراد کے ساتھ بین الاقوامی قانون کے مطابق سلوک کیا جا رہا ہے۔ بچوں اور جوانوں کو برہنہ کرنے کے الزام پر اس کا کہنا ہے کہ ایسا اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ کسی نے دھماکا خیز مواد یا اسلحہ اپنے کپڑوں میں نہ چھپایا ہوا ہو۔ فوج کا مزید کہنا تھا کہ ضروری کارروائی کے بعد زیر حراست افراد کو ان کا لباس واپس دے دیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے علمبردار کہتے ہیں کہ غزہ میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی سے جنگ کے حوالے سے انٹرنیشنل قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ فلسطینی پرزنرز کمیشن اینڈ ایڈامیر سمیت انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کئی فلسطینی گروپس نے جو رپورٹس جاری کی ہے‘ ان کے مطابق ’’جب سے غزہ پر اسرائیلی فضائیہ کی بمباری اور زمینی فوج کا حملہ شروع ہوا ہے‘ اسرائیلی فوج نے بڑے وحشیانہ انداز میں سینکڑوں فلسطینی سویلینز کو گرفتار کیا ہے اور ان کی جو تصاویر شائع ہوئی ہیں یا جو وڈیوز جاری ہوئی ہیں‘ ان میں صاف نظر آتا ہے کہ زیر حراست فلسطینی شہریوں کے ساتھ انتہائی غیرانسانی سلوک کیا جا رہا ہے۔ ان رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اب تک اسرائیل نے غزہ سے گرفتار کیے گئے سویلینز کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے حوالے سے معاملے کو چھپایا ہے۔ ان کی درست تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا‘ انسانی حقوق کے وکلا اور ریڈ کراس کے سٹاف کو بھی زیر حراست افراد کے ساتھ ملاقات کا موقع نہیں دیا گیا۔ انٹر نیشل ریڈکراس کمیٹی کے ایک ترجمان ہشام مہنہ کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم کو غزہ کی فیملیز کی طرف سے اپنے اہلِ خانہ میں سے کئی اراکین کی حراست کے بارے میں روزانہ رپورٹس موصول ہو رہی ہیں۔ ریڈ کراس اس وقت غزہ کے ایسے چار ہزار سے زائد کیسز پر کام کررہا ہے جو غائب ہیں اور ان میں سے نصف کے بارے میں گمان کیا جارہا ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کی حراست میں ہیں۔

یہ گروپ زیر حراست افراد کو درپیش حالات کے بارے میں جاننے اور ان کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے اور یہ بھی جاننے کی کوشش جاری ہے کہ ان قیدیوں کو کہا ں کہاں رکھا گیا ہے اور یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ میڈیا کو ان مقامات کا دورہ کرایا جائے۔ ہشام مہنہ کا کہنا ہے کہ ان ہزاروں کیسز میں سے صرف مٹھی بھر کیسز کے بارے میں یہ ثبوت ملا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک سابق لیگل ایڈوائزر اور ایک ریسرچ آرگنائزیشن انٹرنیشنل کرائسس گروپ سے منسلک ایک تجزیہ کار برائن فینوچین کا کہنا ہے کہ زیر حراست غیر مسلح سویلینز سے متعلق انٹر نیشنل قانون بہت بلند معیار رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک روا رکھا جائے۔

غزہ کی جنگ کے پہلے مہینے میں ہی اسرائیلی فوج نے متنبہ کردیا تھا کہ جب سے غزہ کو خالی کرنے کا حکم جاری کردیا گیا ہے‘ اس کے بعد اگر کوئی بھی فرد یا خاندان غزہ کو خالی کرنے سے انکار کرتا ہے تو اسے یا اس کے خاندان کو حماس کا ساتھی اور پارٹنر ہی تصور کیا جائے گا۔ پچھلے مہینے اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان ایلون لیوی نے کہا تھا کہ اسرائیلی فوج اس علاقے میں صرف ان لوگو ں کو ہی حراست میں لے رہی ہے جو فوج میں بھرتی ہونے کے اہل دکھائی دیتے ہیں۔

غزہ میں مقیم فلسطینی سویلینز کی کل تعداد بیس لاکھ سے اوپر ہے۔ امریکی اور دیگر مغربی انٹیلی جنس رپورٹس اور تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت تک یعنی جنگ شروع ہونے سے قبل تک حماس کے پاس بیس ہز ار سے لے کر چالیس ہزار تک اعلیٰ تربیت یافتہ جنگجو موجود ہیں۔ مسٹر برائن فینو چین کا کہنا تھا کہ ’’یہ مفروضہ انتہائی تکلیف دہ ہے کہ فوج میں بھرتی ہونے کے اہل تمام فلسطینی سویلینز حماس کے جنگجو ہیں‘‘۔ (جاری)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement