ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

ماحولیاتی اعداد و شمار پر عوام کا استحقاق …(2)

تحریر: جسٹن مینکن

ماحولیاتی انفارمیشن کی نجکاری نے پہلے ہی میری پروفیشنل کمیونٹی کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے کیونکہ سائنسدان زیادہ تنخواہوں کے لالچ میں اور کنسلٹنگ جابز حاصل کرنے کے لیے تعلیمی اداروں اور سائنسی لیبز کو چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ظاہری طور پر اسے ایک دانشمندانہ اقدام ہی سمجھا جائے گا۔ تعلیمی ادارے اور سائنسی لیبز اس سمت میں انتہائی سست روی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور تشویشناک بات یہ ہے کہ وہ محتاط اور قدامت پسند سائنس کے فروغ کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور ہم کلائمیٹ اثرات پر جس طرح اپنی بے چینی کا اظہار کر رہے ہیں‘ ان کا یہ اقدام اس عجلت پسندی سے متصادم نظر آتا ہے۔ لیکن ہم نجی شعبے کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل ڈھونڈنے والے سائنسدانوں سے عین اس وقت محروم ہو رہے ہیں جب سرکاری شعبے کو ان کی قیمتی خدمات کی اشد ضرورت ہے۔

اگر میں اپنی بات کروں تو ایک سائنسدان کے طور پر میرے لیے سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ نجی فرموں کی سائنس اس سکروٹنی سے محروم ہوتی ہے جس سطح کی سکروٹنی کسی سرکاری شعبے کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔مثال کے طور پر فلڈ رسک اسیسمنٹس میں بہت سے افراد کو لاحق سیلاب کے خطرے کو حقیقت کو کہیں گھٹا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن ان سوالات کا جواب یہ بھی نہیں ہے کہ نجی شعبے کے فلڈ رسک ماڈل کا سہارا لے کرسائنس کو ہائوسنگ مارکیٹ کی ویلیو ایشن سے روک دیا جائے۔ میرے نزدیک اس سوال کا درست جواب یہ ہے کہ عوام کو سرکاری طور پر دستیاب انفارمیشن مہیا کی جائے۔ ماحولیاتی رسک انفارمیشن‘ خاص طور پر ایسی انفارمیشن جو کمیونٹیز کو سیلاب یا جنگلات میں لگنے والی آگ کے اثرات سے نبرد آزما ہونے میں مدد کرے‘ یہ بھی اسی طرح آسانی سے مہیا ہونی چاہئے جس طرح سرکاری سطح پر موسم کی صورتحال عوام کو فراہم کی جاتی ہے۔ حکومت کو اس ضمن میں بھاری وسائل فراہم کرنے چاہئیں تاکہ اس انفارمیشن کو حاصل کرنے کے بعد پہلے اس کی اسیسمنٹ کی جائے اور پھر اگلے مرحلے پر عمل درآمد کے لیے عوام کو فراہم کر دی جائے۔ ایسا کرنا نہ صرف عوام کی صحت بلکہ ان کی سیفٹی اور اجتماعی بہبود کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ اس انفارمیشن کو عوام کی فلاح اور بہتری کے نقطۂ نظر سے سوسائٹی کے ہر رکن کو مہیا کرنا ضروری ہے جبکہ اس مقصد کیلئے نجی شعبے کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی فوری مطلوبہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

عالمی سطح پر 200 سے زائد ممالک‘ جنہوں نے اقوام متحدہ کی اعانت سے 2015ء کے پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ کی توثیق کر رکھی ہے‘ اس بات کی نشاندہی خود یو این او نے کی ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے اجتماعی کوششوں کو مضبوط کرنے کیلئے کوشش کریں گے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کے تمام ممالک پیرس معاہدے کی پیروی کریں اور ان تبدیلیوں کے اثرات کو روکنے میں ہاتھ بٹائیں اور ان کے مضر اثرات کو کم سے کم سطح پر رکھنے کیلئے اجتماعی کوششیں کریں۔ اس طرح کے عہد اور عزم کا تقاضا ہے کہ ان اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ماحولیاتی انفارمیشن کا حصول انسانیت کا بنیادی حق مانا جائے۔ اگر سال بہ سال ماحولیا ت کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے عمل میں تیزی آتی گئی تو عالمی برادری کو عوام کے اس بنیادی حق کی نہ صرف توثیق کرنا ہو گی بلکہ ہر سال اس انفارمیشن کو شیئر کرنے کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔ وفاق کی سطح پر بھی ضروری ہے کہ فوری طور پر ایک قومی اڈاپٹیشن پلان وضع کیا جائے اور پھر سالانہ بنیادوں پر اس کا جائزہ لیا جائے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ امریکہ کے اردگرد موجود کمیونٹیز کو اس رسک اسیسمنٹ تک منصفانہ رسائی حاصل رہے جس کی روشنی میں وہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور بجلی کی سپلائی لائنز کو پہنچنے والے نقصانات سے بچنے کیلئے سرمایہ کاری کر سکیں۔ عوام کو کم از کم اس حد تک تو رسائی حاصل ہونی چاہئے کہ وہ جس علاقے میں رہتے ہیں‘ اس کے حوالے سے فوری طور پر کلائمیٹ رسک اسیسمنٹ کے بارے میں جان سکیں اور اس انفارمیشن کے حصول کیلئے انہیں اپنے کریڈٹ کارڈ سے کسی فیس کی ادائیگی نہ کرنی پڑے۔ اس سطح تک صرف اسی صورت میں پہنچا جا سکتا ہے اگر وفاقی حکومت ایپلائیڈ کلائمیٹ رسک سائنس کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرے، نیز یہ کہ سرکاری فنڈز کی مدد سے کوئی ایسی معیاری ریسرچ منعقد کرائی جائے جس کے نتائج تک سب کو رسائی حاصل ہو۔

آخر میں بس میں یہی کہنا چاہوں گا کہ جن یونیورسٹیوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کسی قسم کی بھی مہارت یا ایکسپرٹیز حاصل ہیں‘ انہیں چاہئے کہ وہ فوری طور پر ایسے کلائمیٹ اڈاپٹیشن کلینکس قائم کریں جہاں ان کے اردگرد کی کمیونٹیز آسانی سے براہِ راست رابطہ کر سکیں۔ یہ کام لینڈ گرانٹ یونیورسٹیز کے زرعی توسیعی پروگرام کے ماڈل پر بھی کیا جا سکتا ہے جو مقامی کمیونٹیزکو زراعت، بزنس ڈویلپمنٹ اور صحت کے میدانوں میں ہر طرح کی سپورٹ فراہم کرتا ہے۔ اس میں اضافی فائدہ یہ ہو گا کہ آپ ایسے سائنس دانوں کی خدمات بھی مستعار لے سکتے ہیں جو کسی تعلیمی ادارے یا قومی لیب کے اندر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے حوالے سے ان کا کوئی پائیدار حل ڈھونڈنے کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ جیسے جیسے نجی شعبہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں انفارمیشن جمع کرنے کی کوشش میں تیزی لاتا ہے تاکہ فوری طور پر انسانی ضروریات کو پورا کیا جا سکے تو اس کے لیے حکومت کو ہرسطح پر ایسی کوششوں کو وسعت دینے کی ضرورت ہو گی جس میں کلائمیٹ رسک اسیسمنٹس اور اڈاپٹیشن کی حکمت عملی ہر لیول پر عوام کی دسترس میں ہو، نیز یہ عوام کی اکثریت کو آسانی سے سمجھ بھی آ سکے۔ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق ہر طرح کی دستیاب انفارمیشن کو عوام کے لیے کسی قیمت یا ادائیگی کے بغیر شیئر کیا جائے گا تو اس کی بدولت ہزاروں لاکھوں انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں