ادارتی صفحہ - ورلڈ میڈیا
پاکستان اور بیرونی دنیا کے اہم ترین ایشوز پر عالمی اخبارات و جرائد میں چھپنے والی تحریروں کا ترجمہ
WhatsApp: 0344 4450229

فلسطینی قیدیوں سے اسرائیل کی بدسلوکی …(2)

تحریر: راجا عبدالرحیم

فرانسیسکا البانیز‘ جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے لیے نمائندہ خصوصی ہیں‘ کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں جن شہریوں نے اپنے گھر خالی نہیں کیے تھے انہیں دہشت گردی کا مجرم قرار دینا نہ صرف اجتماعی سزا سنانے کے مترادف ہے بلکہ اسے نسلی کشی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی فوج سے منسلک صحافیوں اور اسرائیلی فوجیوں نے جو تصاویر اور وڈیوز بنائی ہیں‘ ان میں نظر آتا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کے ہاتھ ان کی پشت پر بندھے ہوئے تھے اور ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور انہوں نے صرف زیر جامہ ہی پہنے ہوئے تھے۔ سخت سردی میں وہ کھلی فضا میں کھڑے تھے۔ غزہ سٹی کے سٹیڈیم میں بنائی گئی ایک وڈیو میں درجنوں مرد‘ جنہیں اسرائیلی فوجیوں نے محاصرے میں لے رکھا تھا‘ نے صرف نیکریں پہنی ہوئی تھیں‘ ان کو قطاروں میں کھڑا کیا گیا تھا یا وہ کھیتوں میں مارچ کر رہے تھے۔ ان میں سے کچھ کے بال سفید تھے اور زیادہ تر نوجوان تھے۔ خواتین اور لڑکیاں بھی تھیں؛ البتہ وہ پورے لباس میں تھیں۔

ایک قیدی لڑکی کا نام حدیل الدائودو تھا، اس کی عمر بائیس برس تھی۔ اس کی تصویر ایک ماہ قبل بھی شائع ہوئی تھی جس میں وہ ایک ٹرک میں برہنہ لوگوں کے ساتھ نظر آ رہی تھی۔ تصویر میں اس کی آنکھوں پر سفید پٹی بندھی نظر آ رہی تھی اور اس کے سر پر سکارف بھی نہیں تھا۔ وہ اور اس کے شوہر رشدی الطحہ‘ دونوں کا تعلق غزہ سٹی سے تھا۔ اس کے شوہر نے بتایا کہ انہیں پانچ دسمبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ رشدی‘ جو ان درجنوں قیدیوں میں سے ایک تھا جنہیں اسرائیلی فوجیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا‘ نے بتایا کہ وہ اپنے اسلحے سے ہمارے سروں پر مارتے تھے۔ وہ جس طرح مجھے مار رہے تھے اسی طرح میری بیوی پر بھی تشدد کر رہے تھے۔ وہ اسے چیخ کر شٹ اَپ کہہ رہے تھے اور غلیظ گالیاں بک رہے تھے۔ مسٹر رشدی نے بتایا کہ پچیس روز بعد اسے تو رہا کر دیا گیا تھا مگر اس کی بیوی آج بھی لاپتا ہے۔

سات دسمبر کو جس روز ایمان لوباد کو حراست میں لیا گیا تھا‘ اس نے بتایا کہ اس روز وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ اپنے والدین کے گھر پر موجود تھا۔ چند ہفتے قبل ہی اس کی بیوی کے ہاں تیسرے بچے کی ولادت ہوئی تھی۔ انہیں باہر سڑک پر فائرنگ اور ٹینکوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور پھر ایک اسرائیلی فوجی میگا فون پر چیخ کر بولا کہ تمام مرد گھروں سے باہر آ جائیں اور اپنے ہتھیار پھینک دیں۔ جونہی وہ باہر نکلا اسے بازوئوں سے پکڑ لیا گیا۔ اسے ایک فوجی نے دبوچ لیا جس نے اسے کپڑے اتار کر جھک جانے کا حکم دیا۔ دسمبر کی شدید سردی میں اسے ایک پچھلی قطار میں کھڑا کر دیا گیا جہاں دیگر فلسطینی مرد اور لڑکے بھی موجود تھے۔ سب نے صرف زیر جامہ پہن رکھے تھے اور بعض ننگے پائوں تھے۔ ایمان لوباد‘ جو خود بھی فلسطینی سنٹر برائے انسانی حقوق کا ایک متحرک کارکن تھا‘ نے بتایا کہ اسے ایک ہفتے تک زیر حراست رکھا گیا۔ جب مجھے گرفتار کیا گیا تو میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اسرائیلی فوجی جو بھی کہیں گے‘ میں اس کی تعمیل کروں گا۔ اس نے بتایا کہ ہمیں کچھ علم نہیں تھا کہ آگے چل کر ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔ اس کے ہاتھوں کو ایک رسی سے باندھا گیا تھا جس نے جلد ہی اس کی جلد کو زخمی کر دیا۔ قیدیوں کو زبردستی ایک ٹر ک میں بیٹھنے پر مجبور کیا گیا، ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی گئیں اور ہاتھوں کو بھی جکڑ دیا گیا تھا۔ جب اسرائیلی فوجی ان پر تشدد کر رہے تھے اس وقت سب لوگ زیر جامہ ہی میں ملبوس تھے۔ پھر انہیں کئی گھنٹے تک اسرائیل کے اندر ہی گاڑیوں میں گھمایا گیا۔ جب وہ جنوبی اسرائیل کے ایک شہر بیئر شیوا پہنچے جہاں انہیں ایک جیل میں منتقل کرنے کے بعد پہننے کے لیے کپڑے دیے گئے۔ یہ ٹریک سوٹ تھے۔ ہر قیدی کو نیلے ٹیگ والا ایک نمبر الاٹ کر دیا گیا اور سکیورٹی گارڈز انہیں نام کے بجائے ان نمبروں سے پکارتے تھے۔

ایمان لوباد کو تین روز تک ایک بڑی بیرک میں قید رکھا گیا۔ پانچ بجے سے نصف شب تک سب قیدیوں کو اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھنے کے لیے کہا گیا۔ اس پوزیشن میں بیٹھنا بہت تکلیف دہ تھا۔ لوباد نے بتایا کہ جو قیدی ذرا سی بھی پوزیشن بدلتا اسے سخت تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اس نے بتایا کہ اگلے کئی روز تک اس سے کوئی تفتیش نہیں کی گئی تھی۔ پھر اسے یروشلم میں ایک اور حراستی مرکز شفٹ کر دیا گیا۔ تفتیش کار اس سے یہی پوچھتے رہے کہ سات اکتوبر کو وہ کہاں موجود تھا۔ کیا اس کے پاس حماس کے کسی رکن کے بارے میں انفارمیشن ہے۔ ان سے ایک دوسرے مزاحمتی گروپ‘ اسلامک جہاد کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔ اس کے علاوہ شہر میں موجود سرنگوں اور حماس کی پوزیشنز کے بارے میں بھی سوالات پوچھے گئے۔ جب اس نے بار بار یہی کہا کہ میرے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں ہیں کیونکہ میں سارا دن گھر پر ہی کام کرتا ہوں‘ تو تفتیش کار غصے میں آ جاتے اور پھر وہ اس کی آنکھوں کے گرد مکے مارتے۔ بعد ازاں اس کے ہاتھ پشت کی طرف باندھ دیے گئے جن سے اسے سخت تکلیف ہو رہی تھی۔ اسے مزید کئی روز تک قید میں رکھا گیا مگر پھر کوئی تفتیش نہیں کی گئی۔ چودہ دسمبر کی صبح ایمان لوباد کو بھی دوسرے قیدیوں کے ہمراہ ایک بس میں سوارکرا کے غزہ کی جنوبی سرحد پر چھوڑکر آگے پیدل جانے کا حکم دے دیا گیا۔

بہت سے دیگر قیدیوں نے بھی کچھ اسی طرح کے حالات سنائے۔ پچاس سالہ ماجدی الدیرینی‘ جو چار بچوں کا باپ اور ایک ریٹائرڈ سول سرونٹ تھا‘ نے بتایا کہ اسے چالیس روز تک حراست میں رکھا گیا اور اس دوران اس کے ہاتھ مسلسل بندھے رہے۔ اس نے بتایا کہ ’’اس سارے عرصے میں آپ کے ہاتھ بندھے رہتے ہیں اور آنکھوں پر پٹیاں ہوتی ہیں اور آپ کو گھٹنوں کے بل بیٹھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ آپ کو دائیں بائیں حرکت کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی‘‘۔ اس نے بتایا کہ اسے نومبر کے وسط میں حراست میں لیا گیا تھا جب وہ اپنا گھر چھوڑ کر اپنی فیملی کے ہمراہ جنوب کی طرف جا رہا تھا کیونکہ انہیں گھر خالی کرنے کا حکم ملا تھا۔ ’’انہوں نے ہمارے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا، وہ ہمیں ڈنڈوں سے مارتے تھے اور ساتھ غلیظ گالیاں بکتے تھے‘‘۔

الطحہ رشدی‘ جسے بیوی کے ہمراہ گرفتار کیا گیا تھا‘ اسے پچیس روز تک اذیت برداشت کرنا پڑی۔ جیل کاایک گارڈ اس کے پاس آیا اور بولا کہ کیا تم بھاگ سکتے ہو؟ اسے گارڈ کی بات سمجھ نہ آئی۔ رات کے دو بجے اس کا نام پکارا گیا اور اسے ایک بس پر سوار کرا دیا گیا جو اسے کیرک شیلوم کے بارڈر کراسنگ پر لے گئی۔ جونہی وہ بس سے اترا تو ایک اسرئیلی فوجی بولا کہ ہم سنائپر ہیں اور تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ اب تم دس منٹ تک مسلسل بھاگتے رہو۔اس نے بتایا کہ ہم مڑکر دیکھے بغیر دس منٹ تک مسلسل بھاگتے رہے۔

(بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

(ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement