اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مذاکرات کی پیشکش

وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دے کر سیاسی حوالے سے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جائز اور آئینی نکات پر مذاکرات آگے بڑھائے جا سکتے ہیں‘ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے تمام سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ سیاست میں تلخیاں کم کرنے کیلئے مذاکرات کا عندیہ خوش آئند ہے۔ اگلے روز لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے اور اسلام آباد میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اس کیلئے آمادگی کا اظہار کیا جبکہ گزشتہ روز کابینہ اجلاس سے خطاب کے دوران وزیراعظم کے الفاظ کو اس پر مہر تصدیق سمجھنا چاہیے۔ بادی النظر میں سیاست کے دونوں فریق مکالمے کیلئے تیار دکھائی دیتے ہیں‘ دیکھنا یہ ہے کہ اس نیک کام کیلئے پہل کس جانب سے ہوتی ہے۔ البتہ یہ واضح ہے کہ فریقین حسب سابق اپنی انا کے خول میں رہے یا مذاکرات کی دعوت کو دوسرے فریق کی کمزوری سمجھ لیا گیا تو مثبت تاثرات کے اظہار سے پیدا ہونیوالا یہ موقع بھی ضائع جائے گا‘ جیسا کہ ماضی میں کئی بار دیکھنے میں آیا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کی تلخیوں کا درجہ نیچے آیا اور قریب تھا کہ بات چیت کا باقاعدہ عمل شروع ہو جائے مگر پھر معاملات خرابی کی طرف مائل ہونے لگے۔

گزشتہ دسمبر میں سپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں بات چیت کا عمل شروع ہوا تھا اور رواں سال کے شروع میں مذاکرات کے دو‘ تین دور ہوئے مگر بات اس سے آگے نہ بڑھ سکی۔ سال بھر کے وقفے سے ایک بار پھر مذاکرات کی بات چلی ہے تو یہ دیکھنا ہے کہ سیاسی تلخیاں کم کرنے کی غرض سے کوئی عملی پیش رفت ممکن ہوتی ہے یا پہلے کی طرح سیاسی الجھاؤ سے پیچھا چھڑانے میں کامیابی نہیں ملتی۔ بہرکیف یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سیاسی جماعتیں ہمیشہ اختلافات کی کیفیت میں نہیں چل سکتیں اور مذاکرات کا کوئی متبادل نہیں۔ دونوں جانب سیاسی مفادات پر لگے ہوئے ہیں۔ حکومت پر اپنی ذمہ داریاں ہیں جن کی جوابدہی اسی سے ہو گی اور حزبِ اختلاف کی جماعت کیلئے سیاسی بات چیت کی اہمیت اپنی جگہ واضح ہے۔ سیاسی جماعتیں ہمہ وقت تناؤ کے ماحول میں کام نہیں کر سکتیں نہ ہی سیاسی کارکنوں کو ہر وقت جلسے جلوس کیلئے آمادہ کیا جا سکتا ہے؛ ہر سرگرمی کا ایک موسم ہوتا ہے اور رواں سال کے شروع میں مذاکرات کا سلسلہ توڑنے کے بعد حزبِ اختلاف کی جماعت نے بھی دیکھ لیا ہے کہ وہ عوامی طاقت سے حکومت کو دباؤ میں نہیں لا سکتی۔ حکومت کیلئے قابل غور حقیقت یہ ہے کہ ملک سیاسی تناؤ سے نکل کر ہی معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

اس غرض سے حکومتی کد وکاوش اپنی جگہ مگر اس حقیقت کا کوئی بھی انکار نہیں کرے گا کہ معیشت اعتماد اور امن کے ماحو ل میں پروان چڑھتی ہے۔ رواں برس جنوری میں سیاسی مذاکرات کا جو عمل شروع ہوا تھا‘ نتیجہ خیز ثابت ہوتا تو یقینی بات ہے کہ اس کے مثبت اثرات معیشت اور سیاست پر بھی نظر آتے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے تشخص میں مزید بہتری آتی۔ سیاسی جماعتوں نے سال کے آغاز میں جو سلسلہ ادھورا چھوڑ دیا تھا سال کے آخر میں اس کی جانب رجوع اور بات چیت کیلئے آمادگی یہ ثابت کرتی ہے کہ سیاسی قیادت اس حقیقت کو سمجھ رہی ہے کہ بات چیت کے سوا دوسرا راستہ نہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے مذاکرات کی دعوت کا پی ٹی آئی کس طرح جواب دیتی ہے یہ بہت جلد واضح ہو جائے گا۔ ماضی میں پیشگی شرائط مذاکرات کی راہ کی رکاوٹ بنیں اور یہ سلسلہ برقرار نہ رہ سکا۔ اس تجربے سے فائدہ اٹھانا ہو گا تاکہ مذاکرات کے عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے میں پہلے جیسی رکاوٹیں پیدا نہ ہوں۔ سیاسی فریقین ایک دوسرے کے اعصاب کا خوب امتحان لے چکے‘ مگر یہ صورتحال کسی کیلئے بھی فائدہ مند نہیں‘ نہ سیاسی جماعتوں کی قد بڑا ہوا ہے اور نہ ملک اور عوام کیلئے اس میں کوئی منفعت ہے۔ سیاسی مفاہمت اور ہم آہنگی قومی استحکام کی ضرورت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں