نئے میثاقِ جمہوریت کی ضرورت
سیاسی مذاکرات اور مفاہمت کی ضرورت واہمیت کو واضح کرنے والے سیاسی بیانات کا سلسلہ ہفتہ بھر سے جاری ہے۔ اس دوران حزبِ اختلاف کی جانب سے بھی کچھ پیشرفت ہوئی‘ اگرچہ اسے کافی قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم سرد مہری ٹوٹنے سے ضرور تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس دوران سیاسی رہنماؤں کی جانب سے مکالمے کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور نفرت کی سیاست ختم کرنے پر زور دینا بھی خوش آئند ہے۔ یوم قائداعظم پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ مسائل وسائل کی کمی سے نہیں سیاسی عدم استحکام‘ پالیسی میں عدم تسلسل‘ کمزور اداروں‘ تعلیم سے غفلت اور نظم وضبط کے فقدان سے پیدا ہوئے ہیں۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ روز نفرت کی سیاست ختم کرنے پر زور دیا‘ جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ڈ ائیلاگ اور مذاکرات ہی ہر مسئلے کا حل ہیں۔

سیاسی رہنما ؤں کی جانب سے مذاکرات اور مفاہمت کے حق میں بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی مسلسل ٹکراؤ کے اس ماحول سے نکلنا چاہتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اس کیلئے راہ ہموار کرنا سیاسی قیادت کیلئے چنداں مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ سبھی ایک دوسرے کے مزاج شناس اور رفقائے کار ہیں۔ مذاکرات کی راہ میں اگر کوئی مشکل ہے تو وہ سیاسی جماعتوں کے ارادے کی ہے۔ اگر بات چیت کی نیت ہو تو آگے بڑھنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف اس کیلئے کمیٹیاں تشکیل دے کر مکالمے کا سلسلہ شروع کر سکتے ہیں۔ اگر آغاز ہی میں بھاری مطالبات سامنے رکھیں جائیں گے تو اعتماد سازی میں مشکلات پیدا ہوں گی اس لیے بہتر ہوگا کہ فریقین اعتماد سازی کیلئے کچھ ایسے بامعنی اشارے دیں جن سے آگے بڑھنے میں آسانی ہو۔ دونوں جانب سے منفی بیان بازی کے سلسلے کی بندش اس سلسلے میں پہلا عملی قدم ہو سکتا ہے۔ حزبِ اختلاف کے اتحاد کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کو حتمی شکل دینا بھی ایک مثبت اشارہ ہے۔ اپوزیشن اتحاد نے تین روز قبل وزیراعظم کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کو قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس حوالے سے اپوزیشن اتحاد کے بیان میں کہا گیا تھا کہ پارلیمان‘ قانون کی بالادستی‘ انسانی حقوق کی پاسداری‘ آئینی اور جمہوری اقدارکی مضبوطی کیلئے مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی یہ آمادگی قابلِ ستائش ہے اور واضح کرتی ہے کہ بات چیت کا ماحول مناسب ہو تو یہ عمل ناممکنات میں سے نہیں۔ اب اصل میں گیند حکومتی کورٹ میں ہے کیونکہ حکومت کو بیان بازی کے علاوہ بھی بہت کچھ کرنے کا اختیار ہے۔ حکومت مذاکراتی عمل کیلئے عزم ظاہر کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس سلسلے میں پیشرفت نہ ہو۔ نتائج کا پتا تو وقت آنے پر ہی لگتا ہے مگر سیاسی قائدین کا ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنا بھی کم اہم نہیں۔ حکومت خود اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے‘ جس کا عقلِ سلیم انکار نہیں کر سکتی کہ ملک میں سیاسی استحکام سے جملہ امورِ سلطنت کو قوت فراہم ہو گی۔ 2025ء کے دوران معاشی شعبے میں جو کامیابیاں حاصل ہوئیں اور عالمی سطح پر پاکستان کو جو اثر ورسوخ حاصل ہوا آنے والے سال میں ان کامیابیوں کے ثمرات حاصل کرنے کیلئے ملک میں سیاسی امن اور ہم آہنگی کی ضرورت ہو گی‘ تاکہ سیاسی بکھیڑوں میں الجھنے کے بجائے ترقی کے ایجنڈے پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔ حالیہ دنوں سیاسی رہنماؤں کی جانب سے پائیدار ترقی اور مسائل کے حل کیلئے نئے میثاقِ جمہوریت کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ صائب تجویز ہے‘ مگر اس سے پہلے سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کیلئے اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت ہے ‘ جو باہمی احترام سے پیدا ہوگا ۔ میثاقِ جمہوریت سے پہلے نئے سیاسی محاورے کی ضرورت ہے۔