بابل کے معلق باغات عجوبہ فن اور اساطیری حسن
اسپیشل فیچر
بابل کے معلق باغات دنیا کے سات قدیم عجائبات میں سے ایک ہیں جو اپنی شاندار تعمیراتی ہنر، غیر معمولی حسن اور پراسرار تاریخ کی وجہ سے آج بھی انسانی تخیل کو مسحور کیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان باغات کا کوئی ٹھوس آثارِ قدیمہ شواہد آج تک دریافت نہیں ہوا ہے لیکن یونانی مورخین کی تحریروں اور اساطیری داستانوں میں ان کا تذکرہ شاندار حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ ان باغات کو تقریباً 600 قبل مسیح میں میسوپوٹیمیا (جدید عراق) کے شہر بابل میں تعمیر کیا گیا تھا اور یہ عجوبہ بابل کے طاقتور حکمران نبوکدنزر دوم (Nebuchadnezzar ii) سے منسوب ہے جس نے 605 قبل مسیح سے 562 قبل مسیح تک حکومت کی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بادشاہ نے یہ باغات اپنی ملکہ امیٹیس آف میڈیا (Amytis of media) کو خوش کرنے کیلئے بنوائے تھے۔ ملکہ کا تعلق میڈیا کے پہاڑی اور سرسبز علاقوں سے تھا اور جب وہ بابل کے خشک اور میدانی ماحول میں آئیں تو اُداس رہنے لگیں۔ ان کی دلجوئی کیلئے بادشاہ نے فیصلہ کیا کہ وہ بابل کے مرکز میں مصنوعی پہاڑ اور اس پر لہلہاتے ہوئے باغات تعمیر کروائیں گے جو انہیں اپنے وطن کی یاد دلائیں۔ یہ اقدام بادشاہ کے اپنی ملکہ سے گہری محبت کے اظہار کے ساتھ بابل کی شان و شوکت کا مظہر بھی تھا۔
معلق باغات کی سب سے حیرت انگیز خصوصیت ان کا غیر معمولی تعمیراتی ڈیزائن اور آبپاشی کا پیچیدہ نظام تھا۔ چھتوں پر یا کئی منزلہ چھتوں پر لہراتے ہوئے درخت اور بیلیں تھیں۔ یہ باغات دیوہیکل، سیڑھی نما ڈھانچے پر مشتمل تھے، جو سیڑھی نما ہرمی عمارت کی طرح بلند ہوتے جاتے تھے۔ ہر سطح چھت کا کام کرتی تھی جس پر مٹی ڈال کر پودے اور درخت لگائے جاتے تھے۔ ممکنہ طور پر یہ ڈھانچہ چونے کے پتھر، پکی ہوئی اینٹوں اور اسفالٹ (Asphalt) کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا۔ سب سے بڑا چیلنج پانی کو چھتوں سے رسنے سے روکنا تھا۔ مورخین کے مطابق، کاریگروں نے مٹی اور پودوں کے نیچے سیسے کی موٹی چادریں یا تارکول اور سرکنڈوں کی تہیں بچھائی تھیں تاکہ پانی عمارت کو نقصان نہ پہنچائے۔
دجلہ اور فرات جیسی نہروں کے قربت کے باوجود، باغات کی بلندی تک پانی پہنچانا انجینئرنگ کا شاہکار تھا۔ سب سے مشہور نظریہ یہ ہے کہ پانی دریائے فرات سے پیچیدہ زنجیری ڈول (Chain Pumps)یا آرکی میڈیز سکرو (Archimedes Screw) جیسے آلات کے ذریعے اوپر کھینچا جاتا تھا۔ یہ نظام چوبیس گھنٹے کام کرتا تھا تاکہ اوپر کی سطحوں پر موجود درختوں اور پودوں کو مسلسل پانی ملتا رہے۔ یہ قدیم زمانے میں تکنیکی مہارت کا شاندار نمونہ تھا۔
یہ باغات دنیا کے مختلف حصوں سے لائے گئے غیر ملکی درختوں، پھولوں، پھلوں کے پودوں اور خوشبودار جڑی بوٹیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ دور سے یہ منظر سرسبز پہاڑ کا تاثر دیتا تھا جو بابل کے ریگستانی منظر نامے کے درمیان نخلستان کی حیثیت رکھتا تھا۔
اگرچہ روایتی طور پر یہ باغات بابل سے منسوب ہیں لیکن بیسویں صدی کے اواخر میں برطانوی ماہر آثارقدیمہ ڈاکٹر سٹیفنی ڈیلی (Stephanie Dalley) نے نیا اور متنازعہ نظریہ پیش کیا۔ ان کے مطابق بابل کے معلق باغات آشوری سلطنت کے شہر نینویٰ (Nineveh) میں تعمیر کیے گئے تھے اور ان کی تعمیر کا سہرا آشوری بادشاہ سِنحاریب (Sennacherib) کو جاتا ہے۔ ڈیلی کے اس دعوے کی بنیاد آشوری کتب اور نینویٰ میں دریافت ہونے والے وسیع آبپاشی کے نظام کے آثار ہیں جو پہاڑی علاقوں میں پانی پہنچانے کیلئے بنائے گئے تھے۔ تاہم اس نظریے کو بھی تمام ماہرین نے قبول نہیں کیا اور نبوکدنزر دوم کی بابل کے ساتھ وابستگی آج بھی زیادہ مقبول ہے۔ آثارِ قدیمہ کی عدم دستیابی نے اس بحث کو مزید تقویت دی ہے اور باغات کو مزید پراسرار بنا دیا ہے۔معلق باغات کی ثقافتی اور اساطیری اہمیت آج بھی مسلمہ ہے۔
یہ باغات انسانی عزائم اور فطرت کو اپنے تابع کرنے کی خواہش کا طاقتور اظہار تھے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ انسانی ذہانت اور محنت سے خشک زمین پر بھی جنت کا سماں پیدا کیا جا سکتا ہے۔پہلی صدی قبل مسیح میں یونانیوں نے دنیا کے سات سب سے شاندار اور غیر معمولی تعمیراتی شاہکاروں کی فہرست مرتب کی، جس میں معلق باغات کو بھی شامل کیا گیا۔ اس شمولیت نے ان باغات کو پوری دنیا کیلئے معیار بنا دیا۔ صدیوں سے معلق باغات مختلف فنون، شاعری اور ادب کا موضوع رہے ہیں۔ ان کی تصویر کشی شاندار، سرسبز اور جادوئی مقام کے طور پر کی گئی ہے جو وقت کی قید سے آزاد ہے۔
معلق باغات کا انجام بھی ان کی پیدائش کی طرح پراسرار ہے۔ یہ واضح نہیں کہ یہ باغات کب اور کیسے تباہ ہوئے۔ بابل کا خطہ زلزلوں کی زد میں رہا ہے اور یہ ممکن ہے کہ طاقتور زلزلے نے اس پیچیدہ اور بھاری ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہو۔ باغات کا آبپاشی کا نظام انتہائی حساس اور پیچیدہ تھا۔ اگر بادشاہوں کی سرپرستی ختم ہوئی ہو یا دریائے فرات کا رخ بدلا ہو تو پانی کی عدم دستیابی سے باغات خشک ہو گئے ہوں گے اور عمارت تباہ ہو گئی ہوگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ عمارتیں قدرتی طور پر بوسیدہ ہو کر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئیں اور بابل کے ریت کے نیچے دفن ہو گئیں۔
یہ عجوبہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قدیم تہذیبیں کس قدر تکنیکی طور پر ترقی یافتہ تھیں اور کس طرح وہ اپنے فن، عظمت اور حسن کو دائمی بنا سکتی تھیں۔ ان کا پراسرار وجود ہی انہیں قدیم دنیا کے سات عجائبات میں سب سے منفرد اور دلچسپ بناتا ہے۔ ان باغات کی تلاش آج بھی آثارِ قدیمہ کے ماہرین کیلئے خواب ہے جو ان اساطیری باغات کے حتمی راز کو جاننے کیلئے کوشاں ہیں۔