سوء ادب:والد صاحب

اسپیشل فیچر
والد صاحب
ایک لڑکا کسی کے باغ میں ایک درخت پر چڑھا آم چرا رہا تھا کہ اس کا مالک بھی آ دھمکا اور بولا ،'' تم نیچے اترتے ہو کہ تمہارے والد کو بلاؤں ؟ ‘‘
جس پر لڑکے نے جواب دیا، '' انہیں بلانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ساتھ والے درخت پر چڑھے ہوئے ہیں ‘‘۔
حساب پڑھاتے ہوئے استاد نے تیسری جماعت کے طالب علم سے پوچھا ، '' اگر تمہارا باپ مجھ سے 150 روپے ادھار لے جائے اور 50 روپے واپس کر دے تو اس کے ذمے کتنے پیسے باقی رہے ؟ ‘‘۔
طالب علم نے کہا کچھ بھی نہیں ۔
'' اس کا مطلب ہے کہ تم حساب نہیں جانتے‘‘ جس پر طالب علم بولا : '' جناب میں تو حساب جانتا ہوں آپ میرے باپ کو نہیں جانتے‘‘۔
ہیکل
یہ ہمارے عزیز دوست اقتدار جاوید کا مجموعہ غزل ہے جس کا ٹائٹل شاکر گرافکس کا تیار کردہ ہے جبکہ کمپوزنگ شہزاد شاکر طور نے کی ہے۔ انتساب محترمی عطاالحق قاسمی صاحب کے نام ہے۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر اور عطاالحق قاسمی کی رائے درج ہے،جو اس طرح سے ہے ''اقتدار جاوید سے طویل ملاقاتوں سے پہلے میں انہیں محض شاعر سمجھتا تھا ،جب ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کی شخصیت کی کئی پرتیں نظر آئیں۔ میرے یہ دوست بہت پڑھے لکھے ہیں، مذہب ، ثقافت اور سیاست پر ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ انہوں نے بہت سی مختلف زبانوں کی شاعری کے تراجم بھی کئے ہیں، انہیں تاریخ سے بھی گہرا شغف ہے، میرے اور ان کے درمیان کئی باتوں پر اتفاق اور کئی باتوں پر اختلاف ہے۔ میں نقاد نہیں ہوں اور ان کی شاعری پر اپنے تاثرات کا اظہار ہی کر سکتا ہوں۔ پہلا تاثر یہ ہے کہ اس وقت اردو دنیا میں ہزاروں شاعر پائے جاتے ہیں مگر اثر آفرینی کے لحاظ سے اقتدار جاوید کا شمار گنے چنے شعرا میں ہوتا ہے۔ دوسرا تاثریہ ہے کہ ان کی شاعری نئی شاعری سے بھی مختلف ہے کہ نئی شاعری اب بہت پرانی ہو چکی ہے۔ اقتدار جاوید کے موضوعات بھی علیحدہ ہیں اور پیرایہ اظہار بھی مختلف ہے۔ اقتدار جاوید بنیادی طور پر نظم نگار ہیں کہ ان کی آزاد نظم کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور چوتھا مجموعہ آرام باغ زیر ترتیب ہے مگر ان کی تخلیقی سر گرمی کو محض نطم نگاری تک محدود کرنا قدرے زیادتی ہے کہ ان کی پنجابی شاعری کے تین مجموعے بھی اپنے قارئین کا ایک خاص حلقہ بنا چکی ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ رزمیہ شاعری پر ان کی کتاب ''پؤدی وار‘‘ تو کلاسیک میں شمار ہونی چاہیے۔ ''چار چفیرے‘‘ ان کی طویل پنجابی غزل کی کتاب ہے جو ایک ہزار مصرعوں پر مشتمل ہے اور ہر فعل پر شعر موجود ہے۔ جدید عربی نظم ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔
''ہیکل‘‘ کی شاعری عام اور دستیاب اردوغزل سے الگ ہے اور اہم تخلیقی تجربہ ہے۔ ہیکل کی غزل ایسا اسلوب بنانے میں کامیاب ہوئی ہے جو اقتدار جاوید کو کسی خاص لمحے میں قدرت سے عطا ہوا ہے۔ ایسی تخلیقی عطا پر شاعر ہر درجہ شکر گزار ہے کہ یہی شکر گزاری تخلیقی سوتے خشک نہیں ہونے دیتی۔
ہیکل ایک الگ جہان ہے الگ جہان شاعری ہے۔ ''ہیکل‘‘ میں اقتدار جاوید کے جہان شاعری میں کئی کہکہشائیں آباد ہیں۔ اندرونی فلیپ فرخ یار نے لکھا ہے اس کے علاوہ شاعر کی دیگر تصانیف کی تفصیل ہے اور عارفہ شہزاد کی رائے ہے۔ ہمارے یہ دوست ہرفن مولا کہلانے کے بھی پورے مستحق ہیں اردو و پنجابی نظم و غزل کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جبکہ تنقیدی بصیرت سے بھی مالا مال ہیں۔ گیٹ اپ عمدہ اور ٹائٹل دیدہ زیب۔ کتاب میں کل 84 غزلیں ہیں اور قیمت 900 روپے ہے ۔اور اب آخر میں اسی مجموعہ میں سے یہ غزل!
غزل
بیچ میں ہے چمکیلی ڈوری
پھول کی لال و لال کٹوری
پھول کی لال و لال کٹوری
ناک پہ چمکا کوئی موتی
اتنی دھوپ اور اتنی گوری
نیچے ہے اوپر تک میٹھی
مٹھی مٹھی کھانڈ کی بوری
عین اندھیرے میں ظاہر ہو
پچھل پیری چوری چوری
پیڑہ پیڑہ گھی اور میدہ
شکر خورہ شکر خوری
قاشوں قاشوں ہونٹ کو چاٹے
کھٹی مھٹی چاٹ چٹوری
گاڑھا نشہ محبت والا
ایک نشیلے کی منہ زوری
ایک زمانہ ایک خزانہ
صبح کی گھٹی رات کی لوری
رات حروف کی گڈ مڈ گڈ مڈ
صبح فلک ہے تختی کوری
آج کا مطلع
یوں بھی نہیں کہ میرے بلانے سے آگیا
جب رہ نہیں سکا تو بہانے سے آگیا