گزشتہ چند عشروں کے دوران پاکستانی سیاست میں دو حسین احمد اُبھرے اور اپنا مقام بناتے چلے گئے۔ ایک کا تعلق صوبہ سرحد (اب خیبرپختونخوا) اور دوسرے کا تعلق (سابق ریاست) قلات کے ضلع مستونگ سے تھا۔ ایک کے ساتھ قاضی کا لاحقہ لگا ہوا تھا تو دوسرا حافظ کہلاتا تھا۔ پشتون اور بلوچ علاقوں سے نمایاں ہونے والے ان دونوں حضرات کے والد جمعیت العلمائے ہند سے وابستہ اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے ارادت مند تھے۔ دونوں نے اپنے بیٹوں کا نام ان کے نام پر رکھ دیا۔ ان حسین احمد صاحبان نے اپنے نام کی لاج رکھی‘ زندگی بھر اپنے آدرشوں اور اقدار کے ساتھ جڑے رہے۔ مولانا حسین احمد مدنی جمعیت العلمائے ہند کے سربراہ تھے‘ ان کے ہزاروں طالب علم اور عقیدت مند پورے برصغیر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مسئلہ قومیت پر ان کے ایک بیان کے حوالے سے بحث چھڑی تو ماہنامہ ترجمان القرآن کے نوجوان ایڈیٹر سید ابوالاعلیٰ مودودی کا قلم بھی تلوار ہو گیا۔ سید مودودی اور جمعیت العلمائے ہند کے متعلقین و متوسلین کے درمیان اس مناقشے نے ایسی تلخی پیدا کی جو برسوں سمیٹی نہیں جا سکی۔ خیبرپختونخوا کے ایک ممتاز ترین دیو بندی گھرانے میں پیدا ہونے والے حسین احمد نے بالآخر اس خلیج کو پاٹا‘ جماعت اسلامی کی امارت ان کے حصے میں آئی تو جمعیت العلمائے ہند کی جانشین جمعیت العلمائے اسلام کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کیے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جمعیت العلمائے ہند سے منسلک علما نے حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی کی جمعیت العلمائے اسلام میں پناہ لے لی تھی جس نے تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ دیو بند اور جماعت اسلامی دونوں قاضی حسین احمد کی ذات میں سمٹ آئے تو متحدہ مجلس عمل کی تشکیل ہوئی‘ عام انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا کی حکومت اس کے حصے میں آئی تو قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی قیادت بھی اسے نصیب ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر جو افتاد پڑی ہوئی تھی‘ اس نے ان کا حصہ محدود کر دیا۔ ایک ثقہ روایت کے مطابق قاضی حسین احمد پانچ چھ برس کے ہو چکے تھے لیکن بول نہیں پاتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی دورے پر آئے تو ان کے والد نے ان سے دعا کی درخواست کی‘ اُنہوں نے اپنا لعاب دہن ننھے حسین احمد کے منہ میں ڈالا اور دعا کیلئے ہاتھ اُٹھا لیے۔ کچھ ہی عرصہ بعد ننھا حسین احمد فر فر بولنے لگا‘ بعد ازاں اس کی خطابت نے اپنے آپ کو منوایا‘ مختلف زبانوں میں بات کرنے کا ملکہ حاصل ہوا اور اس کی باتوں سے گلوں کی خوشبو پھیلتی چلی گئی۔ قاضی صاحب جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل بنے۔ پندرہ سال تک امارت کے فرائض انجام دیے اور مخالف مذہبی حلقوں سے جماعت اسلامی کی دوری ختم کر دی۔ قاضی حسین احمد اب اس دنیا میں نہیں ہیں‘ لیکن جماعت اسلامی اور پاکستان کی سیاست پر ان کے اثرات اب بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔ حافظ حسین احمد کے والد جمعیت العلمائے اسلام کا حصہ تھے۔ وہ اللہ کو پیارے ہوئے تو حافظ حسین احمد نے ان کی مسند سنبھالی۔ جمعیت العلمائے اسلام کے ساتھ تعلق جوڑا اور بلوچستان کیا‘ پورے پاکستان میں اس کی آواز بن گئے۔ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے‘ سینیٹ کے رکن چنے گئے۔ بلوچ سرداروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے رہے۔ بلوچ علاقوں میں سیاسی شعور کو فروغ دینے اور سیاست کو سرداروں کے قبضے سے آزاد کرانے میں جمعیت العلمائے اسلام کی کاوشوں کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے جہاں پشتون علاقوں میں نسل پرستوں پر کاری ضرب لگائی‘ وہیں بلوچ علاقوں میں بھی پیش قدمی کی۔ اگر انتخابی عمل توانا رہتا تو آج بلوچ علاقوں کا منظر بھی مختلف ہوتا۔ حافظ حسین احمد مدرسے کے فارغ التحصیل تھے‘ سکہ بند مولوی بلکہ مولوی ابن مولوی‘ لیکن وسیع مطالعے اور مشاہدے نے انہیں قادر الکلام بنا دیا تھا۔ ان کی باتوں میں مزاح کی چاشنی ہوتی اور طنز کی تلخی بھی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوان ان کی موجودگی میں زعفرانِ زار بنے رہتے۔ نو برس پہلے گردوں کا مرض لاحق ہوا‘ نوبت ڈائیلسز تک پہنچی‘ سرگرمیاں محدود ہوتی گئیں لیکن ان کا رنگ پھیکا نہ پڑا‘ جب بھی زبان کھولتے‘ گلستاں کھل جاتے۔ برسوں پہلے نواز شریف حکومت کے دوران بجلی کے بلوں پر سرچارج لگایا گیا تو سرتاج عزیز وزیر خزانہ تھے‘ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی نور جہاں پانیزئی سینیٹ کے اجلاس کی صدارت کر رہی تھیں‘حافظ حسین احمد اُٹھ کر بولے‘ کیا وزیر خزانہ سرچارج عزیز بتانا پسند فرمائیں گے؟ اس پر سرتاج عزیز نے کہا کہ پہلے میرا نام درست لیں۔ حافظ صاحب فوراً بولے آج اخبار میں سرچارج کا ذکر پڑھا تھا‘ شاید میرے ذہن میں وہی اٹک گیا۔ سرتاج عزیز غصے سے گویا ہوئے ''میر انام سرتاج ہے سرتاج‘‘ یہ سنتے ہی حافظ صاحب نے کہا: محترمہ چیئر پرسن صاحبہ آپ انہیں ''سرتاج‘‘ (یعنی شوہر) کہہ سکتی ہیں تو ڈاکٹر نور جہاں بولیں‘ بالکل نہیں کہہ سکتی‘ اس پر حافظ صاحب بولے: اگر آپ انہیں سرتاج نہیں کہہ سکتیں تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں‘ اس پر پورا ہاؤس قہقہے لگانے لگا۔ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں تو ان کے وزیر داخلہ اعتزاز احسن کو قومی اسمبلی میں سوالوں کے جوابات دینا تھے‘ انہوں نے ایوان میں آتے ہی سپیکر سے کہا‘ حافظ حسین احمد سے کہیں وہ جلدی جلدی سوال پوچھ لیں۔ حافظ صاحب نے کہا‘ وزیر صاحب بتانا پسند کریں گے کہ کس بات کی جلدی ہے‘ انہوں نے جواب دیا‘ وزیراعظم مری جا رہی ہیں‘ حافظ صاحب نے پوچھا‘ کس پر؟ اس پر شور برپا ہو گیا‘ حکومتی پارٹی کے ارکان کا کہنا تھا کہ یہ جملہ قابلِ اعتراض ہے‘ اسے واپس لیا جائے‘ حافظ صاحب بولے‘ جناب میرا مطلب تھا کہ وہ ہیلی کاپٹر پر جا رہی ہیں یا بائی روڈ جا رہی ہیں؟ ان کی ایسی باتوں سے ایوان میں مسکراہٹیں بکھری رہتیں۔ وہ جسے نشانہ بناتے وہ بھی مزا لینے پر مجبور ہو جاتا۔
حافظ حسین احمد جمعیت العلمائے اسلام کے ترجمان رہے۔ اس کی صفِ اول میں نمایاں رہے‘ لیکن پھر وہ ہوا جو ہماری سیاست میں اکثر ہو جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کے درمیان فاصلہ پیدا ہو گیا۔ وہ اپنی ڈھب کے آدمی تھے‘ مولانا ان کو اپنی ڈھب پر نہ لا سکے۔ حافظ صاحب یوسفِ بے کارواں بن جاتے اگر مولانا کوئٹہ میں اُن کے گھر تشریف نہ لے جاتے۔ مولانا ان کے پاس پہنچے اور اُن کا دل ایک بار پھر مٹھی میں کر لیا۔ دونوں پھر ایک دوسرے کے ہو گئے۔ حافظ حسین احمد رخصت ہوئے ہیں تو ہر شخص نے اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے‘ اُن کی دیانت اور امانت کی گواہی دی ہے‘ وہ لالچ میں مبتلا ہوئے نہ ہوس کا شکار ہوئے۔ بڑے بڑے ایوانوں کی رونق رہے لیکن اپنی سیاست کو آلودہ نہ ہونے دیا۔ پاکستان کو اسلامی جمہوری ریاست بنانے کی جو لگن لگی ہوئی تھی‘ وہ آخر دم تک مدھم نہیں ہوئی۔ اُن کی وفات کی خبر سُن کر بے ساختہ زبان پر آیا... خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا... ان کی باتیں جب یاد آئیں گی‘ فضا معطر ہو ہو جائے گی۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)