میاں منظور احمد وٹو کے انتقال سے جہاں قومی سیاست ایک معتدل اور مدلّل سیاستدان سے محروم ہو گئی وہاں حلقۂ احباب میں ایک بڑا خلا بھی پیدا ہو گیا۔ ان کی سیاست سے تو کوئی علاقہ نہیں تھا‘ وہ مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل رہے‘ ان کے حلیف اور حریف بدلتے رہے‘ اپوزیشن کے ویرانے میں بھی ہچکولے کھاتے رہے‘ اقتدار کے ایوانوں میں بھی ان کا نام گونجتا رہا۔ ان کی سیاست سے اختلاف اور اتفاق کے مواقع پیدا ہوتے رہے۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال میں پڑھتے رہے تھے‘ اس کے طلبائے قدیم کی ایسوسی ایشن کے سرپرست تھے‘ اس رشتے نے برادرم سعید آسی کی طرح ان سے باندھ رکھا تھا۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال کے پرنسپل ڈاکٹر ممتاز احمد وٹو اور المنائی ایسوسی ایشن کے آئرلینڈ میں مقیم صدر عاطف محمود اسے مضبوط تر کرتے چلے جا رہے تھے۔ چار برس پہلے دل کی تکلیف ہوئی‘ علاج کے لیے امریکہ لے جایا گیا‘ جسٹس رانا ارشد نے رفاقت کا حق ادا کیا‘ خوش و خرم واپس آئے لیکن خون کے ایک پیچیدہ مرض نے آن گھیرا۔ خون میں سرخ ذرات (ریڈ سیلز) کم ہونے لگے‘ وقفے وقفے سے انجکشن لگائے جاتے‘ بیرون اور اندرون ملک علاج جاری رہا لیکن نقاہت بڑھتی چلی گئی۔ وہ سکڑتے چلے جا رہے تھے۔ مختلف الخیال احباب کا ایک فورم تشکیل دے رکھا تھا‘ ماہانہ نشستیں ہوتیں‘ حالاتِ حاضرہ پر تبادلۂ خیال ہوتا اور بعض اوقات پریس ریلیز بھی جاری کر دی جاتی۔ توانائی کم ہوئی تو یہ نشستیں بھی ماند پڑ گئیں‘ اس کے باوجود حلقۂ تعارف کی غمی خوشی میں شریک ہوتے رہے۔ ایک عزیز کے جنازے میں اس طرح شرکت ہوئی کہ اپنی لینڈ کروزر ہی میں بیٹھ کر نماز ادا کی۔ یہ تصویر وائرل ہوئی‘ سوشل میڈیا پر طرح طرح کے تبصرے ہوئے لیکن اس وصف کی داد تو کیا‘ اس کا ادراک کرنے والے بھی کم تھے کہ نقاہت دوسروں کا دکھ بانٹنے کے جذبے کو مغلوب نہیں کر سکی تھی۔ انتقال کی خبر ملی تو دل اضطراب سے بھر گیا۔ خیال تھا نمازِ جنازہ کا لاہور میں اہتمام ہو گا‘ اس کے بعد انہیں وساوے والا لے جا کر دوبارہ نماز ادا کر کے سپردِ خاک کر دیا جائے گا لیکن براہِ راست گاؤں لے جانے کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ موسم کی خرابی اور طبیعت کی ناسازی کے باوجود دل انہیں الوداع کہنے کیلئے بے تاب تھا۔ آخری رسومات میں شرکت سے محرومی گوارا نہیں تھی۔ برادران سلمان غنی اور محمد اسلم ڈوگر بھی آمادۂ سفر ہو گئے۔ دونوں کا ان سے قریبی تعلق تھا کہ اول الذکر اوکاڑوی ہونے کے ناتے ان کے ہمسائے تھے جبکہ ثانی الذکر ان کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران ڈائریکٹر تعلقاتِ عامہ کے طور پر فرائض ادا کرتے رہے تھے۔ وساوے والا روانہ ہوئے تو دیپالپور کے قریب گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کا کارواں بھی مل گیا‘ سفر کا آخری مرحلہ ان کی بدولت آسان ہو گیا۔ اس علاقے کے سرگرم و توانا اخبار نویس عامر نذیر کمبوہ فون پر مسلسل رابطے میں تھے‘ انہوں نے بھی آسانیاں فراہم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ہزاروں افراد نمازِ جنازہ ادا کر رہے تھے کہ ہم بھی ان میں جا شامل ہوئے۔ نماز کے بعد ہجوم کو چیرتے پھاڑتے میّت تک پہنچے‘ آخری بار ان کے زرد چہرے کی زیارت کی اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیے۔
مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات کے نمائندے موجود تھے‘ سوالات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔ مرحوم کی شخصیت اور سیاست کے حوالے سے پوچھا جا رہا تھا۔ ہر شخص کا ایک ہی جواب تھا کہ وٹو صاحب شعلہ نہیں شبنم تھے۔ دھیمے لہجے میں بات کرتے‘ ٹھہر ٹھہر کر بولتے۔ وہ بولنے سے پہلے ایک نہیں کئی بار تولنے کے قائل تھے۔ اب تو بولنے سے پہلے کیا بولنے کے بعد بھی تولنے کا رواج نہیں رہا۔ ایک دوسرے کی بے عزتی کرنے کو باعثِ عزت سمجھا جاتا ہے۔ منظور وٹو سے اختلاف کرنے والے بہت تھے‘ ان پر شدید تنقید کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی‘ لیکن وٹو صاحب کی لغت اپنی تھی‘ الفاظ اپنے تھے۔ لہجہ اپنا تھا‘ انداز اپناتھا‘ انہوں نے اس پر سمجھوتہ نہیں کیا۔
پاکستان بنا تو آٹھ برس کے تھے۔ 14اگست ان کا جنم دن بھی تھا‘ ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تو عسرت میں زندگی گزارنا پڑی۔ ان کے دادا وسیع زرعی اراضی کے مالک تھے لیکن انہیں ابتدائی طور پر ساڑھے بارہ ایکڑ زمین الاٹ ہوئی۔ کہنے کو ستلج کے ایک کنارے سے اٹھ کر دوسرے کنارے آئے تھے لیکن نئے صبح و شام پیدا کرنا پڑ گئے۔ بھارت میں چھوڑی ہوئی زمین کا متبادل ملتے ملتے کئی برس لگے‘ یوں بچپن اور جوانی کا بڑا حصہ عسرت میں گزرا۔ وکیل بننا چاہتے تھے لیکن خاندانی ضروریات آڑے آئیں۔ اسلامیہ کالج لاہور سے گریجوایشن کر کے واپس پہنچے اور سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا۔ کونسلر کے الیکشن سے آغاز ہوا‘ ڈسٹرکٹ کونسل سے ہوتے ہوئے صوبائی اور قومی اسمبلی تک پہنچے۔ پنجاب اسمبلی کے سپیکر بنے‘ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے‘ وفاقی وزیر رہے۔ پیپلز پارٹی‘ تحریک استقلال‘ مسلم لیگ(ن)‘ مسلم لیگ چٹھہ اور جناح‘ تحریک انصاف غرض سب کا مزا چکھا‘ نوابزادہ نصر اللہ خان کی ہم نشینی کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ اپوزیشن اتحاد کو توانا کرتے رہے لیکن ان کے طور طریقے نہیں بدلے۔ دھیمے دھیمے آگے بڑھتے رہے‘ پیچھے بھی ہٹنا پڑا‘ اقتدار کا لطف اٹھایا‘ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں‘ پیپلز پارٹی کا ساتھ دے کر وزیراعلیٰ بنے تھے۔ مسلم لیگ(ن) اپوزیشن میں تھی۔ ان کے اپنے ارکان چند تھے‘ پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد بہت زیادہ تھی لیکن انہوں نے پورے طمطراق سے حکومت کی۔ پیپلز پارٹی کی بھاری اکثریت پیچ و تاب کھاتی رہی لیکن وزیراعلیٰ کو ''کٹھ پتلی‘‘ نہ بنا پائی۔ وہ اپنی ترجیحات کے مطابق قدم بڑھاتے اور دونوں جماعتوں کی ''دشمنی‘‘ سے بھرپور استفادہ کرتے رہے۔ مسلم لیگ(ن) کو اقتدار سے محروم رکھنے کیلئے محترمہ کو ان کے ناز اٹھانے میں کوئی عار نہیں تھی۔ یہ کولیشن ٹوٹ گئی‘ اختلافات پیدا ہوئے لیکن محترمہ نے خود اعتراف کیا کہ ان سے شخصی احترام کا رشتہ ہمیشہ قائم رہا۔ وٹو صاحب نے اسیری کے دوران اپنی خود نوشت ''جرمِ سیاست‘‘ لکھ ڈالی‘ اس کے حوالے سے اظہارِ رائے کرتے ہوئے نوابزادہ نصر اللہ خان نے جو الفاظ ادا کیے تھے‘ وہ آج بھی اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ''کاش ''موجودہ حکومت‘‘ بھی اس کا احساس کر لے کہ سیاسی جماعتیں اگر اپنی قیادت سے محروم کر دی جائیں تو عوام میں نظم و ضبط برقرار رکھنا اور ملک کو انارکی اور انتشار سے بچانا بے حد مشکل ہو جاتا ہے‘‘۔ 25سال پہلے کے یہ الفاظ آج بھی ترو تازہ ہیں‘ نوابزادہ نصر اللہ خان اس وقت منظور احمد وٹو کی اسیری کا ذکر رہے تھے‘ آج کسی اور کی اسیری کا تذکرہ ہے۔ نام بدل گئے ہیں بلکہ یہ کہیے کہ صرف نام بدل گئے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)