تازہ اسپیشل فیچر

زکوٰۃ کے شرعی مسائل

لاہور: (مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان) قرآن مجید اور احادیث میں نماز کے ساتھ اور نماز کے بعد جس عبادت کا سب سے زیادہ ذکر کیا گیا ہے وہ زکوٰۃ ہے، زکوٰۃ کی وجہ سے معاشرے کے امیر اور سرمایہ دار طبقہ اور معاشرے کے نادار فقراء ومساکین غرباء کے درمیان توازن پیدا ہوتا ہے۔

زکوٰۃ کا معنی

لغت میں زکوٰۃ کا معنی پاکیزگی، بڑھنا، برکت اور مدح ہے، یہ تمام معنی قرآن وحدیث میں استعمال ہوئے ہیں (نہایہ، ج2، ص307)، زکوٰۃ کا شرعی معنی سال گزرنے کے بعد معین نصاب سے زکوٰۃ کی نیت سے کسی غریب کو ایک حصہ ادا کرنا زکوٰۃ کہلاتا ہے۔ (عمدۃ القاری، ج8، ص223)

واجب ہونے کی شرائط
جس شخص پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اس میں درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، مسلمان ہونا، بالغ ہونا، عقلمند ہونا، آزاد ہونا، مقروض نہ ہونا، نصاب حاجت اصلیہ سے فارغ ہو (جیسے مکان، کپڑا، سواری، گھریلو سامان وغیرہ)، زکوٰۃ کے نصاب پر مکمل سال گزرنا۔

زکوٰۃ کے اموال
وہ مال جس پر زکوٰۃ فرض ہے درج ذیل ہیں۔ معدنیات، زرعی پیداوار، جانور، سونا، چاندی، مال تجارت۔

مختلف مالوں پرزکوٰۃ کی شرح
رسول اللہﷺ نے نہایت حکیمانہ طریقہ سے پیداوار کی مختلف قسموں پر شرح زکوٰۃ مقرر فرمائی ہے، سب سے پہلے پیداوار کی ان اقسام پر زکوٰۃ مقرر فرمائی جو کچھ عرصہ تک محفوظ رہ سکتی ہے تاکہ ان سے مرضی کے مطابق نجی اور کارباری فائدہ اٹھایا جا سکے جیسے زرعی پیداوار وغیرہ، جن چیزوں میں ترقی اور نشوونما کی صلاحیت نہیں ہے ان پر زکوٰۃ مقرر نہیں کی گئی، جیسے مشینری، آلات وغیرہ۔

جس مال کو حاصل کرنے میں مالک کی محنت نہیں بلکہ وہ خاص عطیہ خداوندی ہے اس پر شرح سب سے زیادہ ہے اور جس مال کو حاصل کرنے، محفوظ رکھنے کیلئے محنت اور کوشش زیادہ ہے اس میں زکوٰۃ کی شرح کم رکھی گئی ہے، معدنیات کی شرح زکوٰۃ 1/5، بارانی زمین جو بارش سے سیراب ہو اس پر 1/10، غیر بارانی زمین یعنی جسے سیراب کرنے پر مشقت اور خرچ آئے اس پر 1/20، سونا،چاندی اور مال تجارت پر 1/40 زکوٰۃ کی شرح مقررکی گئی ہے۔

زکوٰۃ کے ضروری مسائل
معدنیات: اس کیلئے کوئی نصاب مقرر نہیں بلکہ جو زمین سے نکلے اس کا پانچواں حصہ زکوٰۃ ادا کرنا ہوگا۔

زرعی پیداوار: اس کا بھی کوئی نصاب مقرر نہیں، پیداوار تھوڑی ہو یا زیادہ زمین کے حساب سے اس پر زکوٰۃ (عشر) ہوگی۔

سونا، چاندی: اس کا نصاب ساڑھے 7 تولہ سونا ہے جبکہ چاندی کا نصاب ساڑھے 52 تولہ ہے۔

مال تجارت: خام مال یا تیار شدہ مصنوعات جب ان کی قیمت ساڑھے 52 تولہ چاندی کے برابر ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔

جانور: اونٹ کا نصاب 5 اونٹ ہیں، گائے بھینس کا نصاب 30 جانور ہے، بھیڑ بکریوں کا نصاب 40 جانور ہے۔

نصاب کی مقدار پر سال کا گزرنا ضروری ہے، البتہ سال کا گزرنا صرف نصاب کی مقدار پر ضروری ہے، نصاب کی مقدار سے زائد مال اگرچہ کچھ دن پہلے ہی صاحب نصاب کے پاس آیا ہو تو اس پر زکوٰۃ کی ادائیگی لازمی ہوگی۔

٭: سونے اورچاندی کی زکوٰۃ سونے چاندی سے بھی ادا کی جا سکتی ہے، ساڑھے سات تولہ سونا کی زکوٰۃ 2 ماشے ہے جبکہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی زکوٰۃ 1 تولہ 3 ماشے 6 رتی ہے اور ان کی زکوٰۃ قیمت سے بھی ادا کی جا سکتی ہے۔

٭: سونے چاندی کی موجودہ مالیت لگوائی جائے اور اس حساب سے چالیسواں حصہ 2.5 فیصد بطور زکوٰۃ ادا کیا جائے۔

٭: اسی طرح مال تجارت کی بھی اوسط نکال کر موجودہ مالیت کے اعتبارسے زکوٰۃ ادا کی جائے۔

٭: نقد رقم جو ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو وہ بھی مال زکوٰۃ ہے اور اس پر بھی زکوٰۃ فرض ہوگی۔

٭: جن زیورات کی مالکہ عورت ہو خواہ ماں باپ کی طرف سے ملے ہوں یا سسرال کی طرف سے ان کی زکوٰۃ ادا کرنا عورت کے ذمہ فرض ہے، البتہ اگر شوہر بھی ادا کر دے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی، اگر عورت کے زیورات صرف پہننے کیلئے دیئے گئے ہوں اسے مالک نہ بنایا گیا ہو مالک شوہر ہو تو زکوٰۃ ادا کرنا شوہر کے ذمہ ہوگا۔

٭: جو اشیاء کرایہ پر دی جاتی ہوں مثلاً گاڑیاں، دریاں، کرسیاں، میزیں، ٹینٹ وغیرہ اسی طرح مکانات اور دوکانیں اگر ان سے حاصل ہونے والی آمدنی نصاب کی مقدار کے برابر ہو اور اس پر سال گزر جائے تو اس آمدنی پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔

٭: جسے زکوٰۃ کا مال دیا جائے اسے اس کا مالک بھی بنایا جائے تاکہ وہ اسے مرضی سے خرچ کر سکے۔

اسلام نے غرباء اور ضرورت مندوں کی مدد کیلئے اخلاق اور قانون دونوں سے کام لیا ہے، زکوٰۃ کی صورت میں نقد اور عشر کی صورت میں زمین سے پیدا ہونے والی اجناس پر مقرر و متعین شرح سے آمدنی کا ایک حصہ صاحب ثروت لوگوں سے قانوناً لے کر ضرورت مندوں کی کفالت کا بندوبست کیا اور یہ کام اسلامی حکومت کے اوّلین فرائض میں شامل کر دیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہ لوگ کہ اگر ہم ان کو زمین میں اختیار و اقتدار دیں تو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں‘‘(الحج، 22: 41)۔

مصارفِ زکوٰۃ
زکوٰۃ کا مال جن لوگوں پر خرچ کیا جا سکتا ہے ان کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’زکوٰۃ تو صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو محتاج اور نادار (مسکین) ہوں، اور جو اس کی تحصیل پر مقرر ہیں، اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے (اسلام کی طرف مائل کرنا ہو)، اور (مملوکوں کی) گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا (مقرر شدہ) ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘ (التوبہ: 60)۔

اس آیت مبارکہ میں آٹھ مصارفین کا ذکر موجود ہے، فقراء، مساکین، عاملین زکوٰۃ (زکوٰۃ اکٹھی کرنے والے)، مؤلف القلوب، غلام کی آزادی، مقروض، فی سبیل اللہ،مسافر، قرآن کریم میں زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف ذکر ہوئے ہیں، احناف کے نزدیک ان میں سے کسی بھی مصرف میں زکوٰۃ دینے سے ادائیگی ہو جائے گی اور دینے والا دینی فریضہ سے سبکدوش ہو جائے گا۔ (ہدایہ، ج2، ص215)، ذیل میں مصارف زکوٰۃ کی اختصار کے ساتھ کچھ تفصیل بیان کی جاتی ہے:

فقیر و مسکین : فقیر اور مسکین دونوں ہی مالی ضروریات کیلئے دوسروں کے مالی تعاون کے محتاج ہیں دونوں کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔

والعاملین علیہا : وہ لوگ جو زکوٰۃ و عشر جمع کرنے پر مامور ہوں، ان سب کو زکوٰۃ فنڈ سے اجرت یا تنخواہ دی جائے گی خواہ امیر ہوں خواہ غریب۔

مؤلفۃ القلوب : زکوٰۃ وعشر کا چوتھا مصرف مؤلفۃ القلوب ہیں یعنی وہ لوگ جن کی تالیف قلب مقصود ہے، تالیف قلب کا مطلب ہے دل موہ لینا، مائل کرنا، مانوس کرنا، اس حکم خداوندی کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں اور مال دے کر ان کی مخالفت ختم کی جا سکتی ہے یا ایسے نادار کافر جن کی مالی امداد کر کے ان کو اسلام کی طرف مائل کیا جاسکتا ہے، یا وہ لوگ جو نئے نئے مسلمان ہوں اور ان کی مناسب مالی مدد نہ کی گئی تو امکان ہے کہ وہ اپنی کسمپرسی اور کمزوری کی بناء پر پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔

فی الرقاب: گردنیں چھڑانے میں اسلام سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک میں غلامی کا دور دورہ تھا، کمزور، نادار اور پسماندہ انسانوں کو طاقتور لوگ اپنا غلام بنا لیتے تھے، یونہی لڑائیوں اور جنگوں میں غالب قوم، مغلوب قوم کو اپنا غلام بنا کر ان کے گھر بار زمین جائیداد یہاں تک کہ ان کی جانوں کی مالک بن جاتی تھی، اسلام نے انسانی غلامی کو جرم قرار دیا، ان کو قانوناً و اخلاقاً کئی طریقوں سے آزاد کرنے کا دروازہ کھول دیا، جس کے نتیجہ میں تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا اس لعنت سے پاک ہوگئی۔

الغارمین: ’’والغارمین‘‘ یعنی مال زکوٰۃ سے قرض داروں کے قرض بھی ادا کئے جا سکتے ہیں۔

فی سبیل اللہ: ’’اور اللہ کے راستے میں‘‘ امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مجاہدین مراد لئے ہیں اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ عازمین حج جو راستے میں مالی مدد کے محتاج ہوں، کچھ علماء کے نزدیک طالب علم مراد ہیں، امام کاسانی حنفیؒ نے فرمایا ہے: فی سبیل اللہ سے مراد ہے تمام نیکی کے کام، اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ کی اطاعت اور نیک کاموں میں تگ ودو کرے۔ جب کہ (زکوٰۃ کا) حاجت مند ہو۔ (بدائع الصنائح، 2: 45)

ابن سبیل: زکوٰۃ کا آٹھواں مصرف مسافر ہے، خواہ گھر میں مالدار ہو مگر سفر میں تنگدست ہو جائے اور مالی تعاون کا محتاج ہو، تو زکوٰۃ سے اس کی مالی مدد کی جائے گی، اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے وسائل واسباب گھر ٹھکانہ اور مال سے دور سفر میں ہونے کی وجہ سے اس کی دسترس سے باہر ہیں، اس کو مال زکوٰۃ سے دیا جائے گا اگرچہ اپنے شہر میں امیر ہو۔ (الجامع الاحکام القرآن للقرطبی، 8: 119)

جنہیں زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی
اپنی اصل (باپ، ماں، دادا، دادی، نانا، نانی) اپنے فروع (بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی) کو زکوٰۃ، صدقہ فطر، منت نذر اور کفارہ نہیں دیا جا سکتا، اصول و فروع کے علاوہ باقی رشتہ دار بھائی، بہن ان کی اولاد، چچا، پھوپھی اور ان کی اولاد، ماموں، خالہ اور ان کی اولاد، اگر یہ مستحق ہوں تو ان کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے بلکہ انہیں زکوٰۃ دینے کا دُگنا اجر ہے، ایک صلہ رحمی کا اور دوسرا زکوٰۃ ادا کرنے کا۔

مقروض پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی بشرطیکہ قرض وجوب زکوٰۃ سے پہلے ہو، البتہ وہ قرض جو صنعتی یا کاروباری ادارے کے خام مال یا مصنوعات پر زکوٰۃ کیلئے مانع نہ ہوگا بلکہ ان پر زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہوگی، اسی طرح وہ قرض جس کی ادائیگی یکمشت نہ ہو بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے ادا کیا جائے تو تب بھی قرض زکوٰۃ کی ادائیگی سے مانع نہ ہوگا۔

٭: زکوٰۃ ساری اکٹھی بھی دی جاسکتی ہے اور تھوڑی تھوڑی کر کے بھی دی جا سکتی ہے، اسی طرح وقت سے پہلے بھی زکوٰۃ کی ادائیگی جائز ہے۔

٭: دینی طلباء پر ایک روپیہ خرچ کرنا، باقی امور میں لاکھوں صدقہ و خیرات کرنے سے افضل ہے کیونکہ یہ لوگ شریعت کے حامل ہیں اور اس کی ترویج و اشاعت کرنے والے ہیں۔ (مکتوبات، ج1، ص160)

مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 35 مقالے بھی شائع ہوچکے ہیں۔