"AHC" (space) message & send to 7575

قرآن، انسان اور تمام جاندار

اللہ تعالیٰ کا انعام ہے‘ ماہِ رمضان ہے‘ اسی مہینہ میں نزولِ قرآن ہے۔ گزشتہ کالم میں وعدہ کیا تھا کہ سائنس کی دنیا میں معروف اور معتبر ترین میگزین نیچر میں‘ جو 7 نومبر 2024ء کو آن لائن شائع ہوا تھا‘ نیویارک سٹی یونیورسٹی کی جو جدید تحقیق چھپی ہے‘ اس موضوع پر لکھوں گا۔ اس ریسرچ میں کہا گیا کہ
Humans, sea slugs, kidney cells: we all learn the same way.
انسان‘ سمندری گھونگوں سے نکلنے والے نرم ونازک قسم کے بے شمار اقسام پر مشتمل جاندار اور ہمارے گردے (اور دیگر اعضاء کے خلیات) ایک ہی طریقے سے سیکھتے ہیں۔ یعنی ہر خلیہ (cell) ایک دماغ رکھتا ہے جس کے ذریعے وہ Learn کرتا ہے۔ قارئین کرام! نیویارک سٹی یونیورسٹی کے کلینکل پروفیسر (ایسوسی ایٹ) جناب نیکولے کوکُوشکن (Nikolay Kukushkin) مزید لکھتے ہیں:
ہم خیال کیا کرتے تھے کہ ہم اپنے دماغوں کے ذریعے سیکھتے ہیں۔
But our new study shows that all cells in our body, even kidney cells can learn.
''مگر ہماری نئی ریسرچ نے (ہمیں لیبارٹری تجربات کے دوران) دکھایا کہ ہمارے جسم کے تمام خلیات حتیٰ کہ گردوں کے خلیات بھی سیکھ سکتے ہیں‘‘۔ پروفیسر صاحب نے اپنی ریسرچ میں مزید بتایا کہ
They receive information in the form of chemical patterns spread in time.
وہ (دماغی نیورونز ہوں یا جسمانی خلیات‘ سب کے سب) کیمیائی انداز میں معلومات حاصل کرتے ہیں جو 'وقت‘ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک دوسرے مقام پر پروفیسر صاحب نے اسے ''!Learning is spaced in time‘‘ کہا ہے؛ یعنی سیکھنے اور حاصل کرنے کا عمل اس ٹائم (وقت) میں ہے جو 'سپیس‘ میں رکھا گیا ہے۔
سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ اپنے ایک رسول حضرت ہود علیہ السلام کی مبارک زبان سے انسانیت کو آگاہ فرماتے ہیں ''کوئی جاندار (دآبۃ) ایسا نہیں کہ جس کی پیشانی کو وہ (اللہ) پکڑے ہوئے نہ ہو۔ بے شک میرے رب (کا ہر کام) سیدھے راستے پر ہے‘‘ (ھود: 56)۔ جی ہاں! اسی سورۂ مبارکہ کے ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ''زمین میں کوئی ایسا جاندار (دآبۃ) نہیں کہ جس کی تمام ضروریات اللہ کے ذمہ نہ ہوں۔ وہ (زمین میں) اس کے ٹھہرنے کی جگہ اور (موت کے بعد آخرت میں) اس کے سونپے جانے کی جگہ کو جانتا ہے۔ سب کچھ ایک واضح کتاب (لوحِ محفوظ) میں موجود ہے‘‘ (ھود: 6)۔ قرآنِ مجید میں ربِ کائنات تیسرا مقام بیان فرماتا ہے‘ ملاحظہ ہو۔ ''زمیں میں جس قدر بھی چلنے پھرنے والے جاندار (دآبۃ) ہیں یا اپنے پروں کے ساتھ اڑنے والے (پرندے) ہیں (اے انسانو!) سب تمہاری طرح کی امتیں (انواع) ہیں۔ ہم نے کتاب ( لوحِ محفوظ) میں کسی بھی شے کو درج کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دی۔ آخرکار یہ سب (مخلوقات) اپنے رب کی جانب (قیامت کے دن) اکٹھی کی جائیں گی‘‘ (الانعام: 38)۔
لوگو! واضح ہو گیا کہ تمام مخلوقات کا تعلق اپنے خالق کے ساتھ ہے۔ دماغ کے ہر نیورون کا تعلق اپنے خالق کے ساتھ ہے۔ جسم کے ہر خلیے کا تعلق اپنے خالق کے ساتھ ہے۔ خشک زمین پر چلنے اور بھاگنے دوڑنے والے ہر جاندار کا تعلق اپنے رب کے ساتھ ہے۔ آسمان کی فضائوں میں اڑنے والے ہر پرندے کے دماغ کا تعلق اپنے رب کے ساتھ ہے۔ دنیا بھر کے پرندے برف شروع ہونے سے پہلے گرم علاقوں کی طرف اڑان بھرتے ہیں تو اپنے دماغ کے اردگرد واقع GPS سسٹم کو کام میں لا کر ہزاروں کلومیٹر دور کسی مقام کو ہجرت گاہ بناتے ہیں اور پھر چند ماہ وہاں گزارنے کے بعد واپس اپنے دیس کو آ جاتے ہیں۔ یہ سب اپنے اللہ کی دی ہوئی رہنمائی میں جاتے ہیں۔ اللہ کا ہر کام سیدھے راستے پر ہے لہٰذا یہ پرندے نہیں بھولتے۔ اسی طرح سمندر کا ہر جاندار وہ slug ہو‘ مچھلی کی کوئی قسم ہو یا دیگر سمندری جانداروں میں سے کوئی ہو‘ ان سب کا بھی تعلق اپنے رب سے ہے۔ سمندری مخلوقات اور مچھلیاں لاکھوں کی تعداد میں یکدم سمندر سے اٹھتی ہیں اور فضا میں بلند ہو کر ترچھیلا پن اختیار کرتے ہوئے واپس سمندر میں غوطہ زن ہو جاتی ہیں مگر مجال ہے جو آپس میں ٹکرا جائیں۔ یوں یہ سب اللہ کی رہنمائی میں ہوتی ہیں۔ جی ہاں! یہ سب Learn کرتے ہیں تو space-time سے آنے والے سگنلز سے سیکھتے ہیں۔ یہ بالکل درست چلتے ہیں۔ صحیح راستے پر چلتے ہیں۔ صرف انسانوں نے نہیں بلکہ تمام مخلوقات نے قیامت کے دن حشر کے میدان میں اکٹھے ہونا ہے۔ مذکورہ آیت کے علاوہ سورۃ التکویر میں بھی اس کا بیان ہوا ہے‘ فرمایا: ''اور (بروزِ حشر) جب (تمام) جنگلی جانور اکٹھے کیے جائیں گے‘‘۔ (التکویر: 5)۔
ان تمام جانداروں میں انسان ایسا جاندار ہے جو تخلیقی صلاحیتوں کا مالک بنایا گیا ہے۔ وہ اپنے ہر دماغی نیورون اور ہر جسمانی خلیے کے ذریعے اپنے خالق سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ مزید رہنمائی کے لیے اس کے پاس رسول اور نبی بھی بھیجے گئے ہیں۔ رسولوں کو کتابیں بھی دی گئیں۔ انسانیت کے لیے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کو بھیجا گیا۔ ان کے ذریعے انسانیت کو آخری کتاب قرآن مجید عطا کی گئی۔ اس پر انسان چلے گا تو سیدھے راستے پر رہے گا۔ اس کے لیے اس دنیا میں ایک آزمائش بھی رکھی گئی ہے۔ یہ ابلیس اور اس کے چھوڑے اور پھیلائے ہوئے شیطانوں کی آزمائش ہے۔ یہ شیاطین انسان کے خون میں دوڑتے ہیں۔ نیورونز اور خلیات میں گھستے ہیں۔ وساوس پیدا کرتے ہیں۔ صراطِ مستقیم سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گمراہ کرتے ہیں۔ انسانیت کو قتل اور خونریزی پر ابھارتے ہیں۔ ان کا مشن انسانیت کی تباہی ہے۔
قرآنِ مجید ایک ایسی رہنما کتاب (Guide Book) ہے جو سال کے بارہ مہینوں میں سے ایک ایسے مہینے میں نازل ہوئی ہے جو ماہِ رمضان ہے۔ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ اس آسمانی کتاب کو حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ مل کر ہر رمضان میں مکمل پڑھا کرتے تھے۔ حضور کریمﷺ کی حیاتِ پاک کا جو آخری رمضان تھا‘ اس میں آپﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ مل کر دو بار قرآن مجید ختم فرمایا۔ رمضان کے مہینے میں قرآن مجید کا ختم اس کے ساتھ تعلق کو بہت مضبوط کرتا ہے۔ مگر یہ تعلق وہی مضبوط کرے گا جو سارا سال قرآن مجید سے تعلق جوڑے رکھتا ہے۔ تعلق یوں جڑے گا کہ گیارہ مہینوں میں کم از کم ایک بار قرآن مجید ختم کیا جائے۔ اسے ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھا جائے۔سوچ سمجھ کر پڑھا جائے۔ دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں سے ایک یا نصف گھنٹہ قرآن کی تفہیم کو دیا جائے۔ گیارہ مہینوں کے بعد جب رمضان کا بارہواں مہینہ شروع ہو تو اس مہینے کے تیس دنوں میں ہر روز ایک پارہ پڑھ لیا جائے۔ ساری زندگی اس مشق کی پابندی کر لی جائے تو ہمارا معاشرہ اسلامی بنے گا‘ تمیز و تہذیب کا آئینہ دار اور آبگینہ بن جائے گا۔ ایسا انسان قیامت کے دن اٹھے گا تو ممتاز بن کر اپنے رب کریم کا کرم حاصل کرے گا۔ وگرنہ قرآن کے فیصلے کے مطابق: جانداروں کے مقام سے گر کر بدترین جانور بن جائے گا۔ آئیے! پاک وطن کے معاشرے کو قرآن مجید کا مطلوب معاشرہ بنانے کی جدوجہد کریں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں