"AHC" (space) message & send to 7575

مقتول کی ماں کا درد

اللہ تبارک وتعالیٰ نے لاتعداد تخلیقی شاہکار پیدا فرمائے ہیں مگر ''ماں‘‘ ایک ایسا شاہکار ہے جو دھرتی پر لاجواب ہے۔ دھرتی کا ہر جاندار ''ماں‘‘ کے جسم میں اپنی پیدائش کا آغاز کرتا ہے۔ ماں کا دل اور اس کے جسم میں پرورش پانے والے کا دل ایک ہی خون سے دھڑکتا ہے‘ دونوں کی زندگی کا سرچشمہ ایک ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے جب دونوں جسم ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں تو نومولود پرورش کے ایک نئے دور میں داخل ہو جاتا ہے۔ اب وہ ماں کے دودھ پر پلنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ دودھ بھی ماں کے خون سے بنتا ہے۔ اے کاش! قاتل جب کبھی کسی کے لختِ جگر کو قتل کرنے لگے‘ کسی کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے لگے‘ کسی ماں کے خون سے بننے والے انسان کو آگ کی نذر کرنے لگے تو ایک پل کے لیے یہ بھی سوچے کہ جسے میں دنیا سے ختم کرنے جا رہا ہوں‘ اس کے ساتھ مقتول کی ماں کے لیے بھی یہ دنیا جہنم بنانے جا رہا ہوں۔ میں بھی قتل ہو سکتا ہوں‘ تب میری ماں کا کیا بنے گا؟ سب مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ماں‘ مسلم ہو یا غیر مسلم‘ ماں ماں ہوتی ہے۔ اللہ کی قسم! یہ سبق ایک ایسی ہستی نے پڑھایا ہے جن کا نام مبارک حضرت محمد کریمﷺ ہے۔ آپ سرکارِ مدینہ ہیں۔ مدینے میں ایک یہودی خاتون کا جنازہ گزرا‘ اسی طرح ایک یہودی شخص کا جنازہ گزرا‘ حضور نبی کریمﷺ دونوں مواقع پر احتراماً کھڑے ہو گئے۔ ''صحیح بخاری، کتاب الجنائز‘‘ میں ہے‘ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضورﷺ سے گزارش کی: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ جنازہ تو ایک یہودی کا تھا۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا ''جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو‘‘۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
سعودی عرب کے مفتی اعظم سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن بازؒ سے پوچھا گیا: کیا غیر مسلم کے جنازے کو دیکھ کر کھڑا ہونا شرعی مسئلہ ہے؟ انہوں نے بخاری ومسلم کی مندرجہ بالا حدیث پڑھی اور فرمایا: اس میں عموم ہے لہٰذا جنازہ کسی کا بھی ہو‘ کھڑا ہو جانا چاہیے۔ شیخ ابن باز نے (صحیح بخاری‘ صحیح مسلم اور مسند احمد) کے حوالے سے حضور کریمﷺ کا فرمان بتایا ''کیا یہ جان نہیں ہے‘‘۔ یعنی اس کا مذہب کچھ بھی ہو‘ انسان تو بہرحال ہے لہٰذا انسانیت کا احترام ضروری ہے۔ مندرجہ بالا تینوں حوالوں کے ساتھ حضورﷺ کا یہ بھی فرمان ہے ''موت ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر صورت ایک زبردست گھبراہٹ پیدا کرتی ہے‘‘۔ اللہ اللہ! ثابت ہوا کہ ہمارے پُررحمت رسولﷺ ہر موت پر اس کے عزیزوں کی گھبراہٹ کو محسوس فرماتے ہیں۔ لہٰذا غیر مسلموں کے جنازوں اور میتوں کا بھی احترام کرکے لواحقین کی گھبراہٹوں اور غموں کو کم کرنے کی کوشش فرماتے ہیں۔ لوگو! یہ ہے نبوت کی حکمرانی جس میں رحمت ہی رحمت ہے۔ ہمدردی ہی ہمدردی ہے۔ جنازہ کسی بچے یا جوان کا ہے‘ اس کی ماں کو خبر ملے گی کہ تیرے لختِ جگر کے احترام میں سرکار مدینہ اور آپﷺ کے اصحابؓ احتراماً کھڑے ہو گئے تھے تو اس ماں کے دل کا غم یقینا ہلکا ہو گیا ہو گا کہ ہم اگرچہ غیر مسلم ہیں مگر ہمارے حکمران حضورﷺ ہیں اور یقینا آپﷺ رحیم و کریم ہیں۔ الغرض! حضورﷺ کا پُررحمت پیغام میت کے ساتھ جڑے ہر رشتے کے لیے ہے خواہ وہ رشتہ باپ‘ بھائی‘ بہن‘ بیوی‘ خاوند کا ہو یا کوئی اور ہو۔
کراچی میں 23 سال کا ایک نوجوان قتل ہو گیا۔ اس مظلوم بچے کا نام مصطفی تھا۔ ظلم یہ ہے کہ مقتول مصطفی کی ماں کئی دن سرکار کے در ودیوار پر دستک دیتی رہی۔ اپنے جگر گوشے کے لیے ترلے منتیں کرتی رہی۔ سرکار کی مضبوط چوکھٹوں پر اپنا سر ٹکراتی رہی۔ آخرکار میڈیا میں شور مچا‘ تب جا کر مقتول بیٹے کا سراغ ملا۔ قتل کی کہانی سامنے آ چکی۔ جس دوست نے اسے قتل کیا‘ اپنے گھر میں کیا۔ لوگوں کے سامنے کیا۔ اس کا خون قالین پر بہتا رہا۔ پھر مصطفی ہی کی کار میں قاتل نے زخموں سے چور چور مصطفی کو ڈگی میں بند کیا اور تین سو کلومیٹر کا سفر طے کیا۔ مصطفی کی ماں جب رات کو سونے لگی ہو گی تو تین سو کلومیٹر تک ڈگی میں بند زخمی مصطفی کے لیے سوچتی ہو گی کہ میرا جگر‘ میرے دل کا ٹکڑا جانے کس حال میں ہو گا‘ اسے پیاس لگی ہو گی۔ ادھر زخموں سے چور‘ دردوں سے برا حال ہوا ہو گا تو مصطفی کو ماں یاد آتی ہو گی۔ وہ اپنے رب کو یاد کرتا ہو گا۔ پرُرحمت نبی کا کلمہ پڑھتا ہوگا... اور پھر اللہ کی پناہ! تین سو کلومیٹر دور جا کر سفاک قاتل نے اس کی گاڑی کو اور نعش کو آگ کی نذر کر دیا۔ اس عالم میں اسے جلا دیا کہ جب وہ زندہ تھا۔ حکمرانو! یہ کوئی قتل ہے؟ قتل تو یہ تھا کہ گولی مارتا اور لاش ماں کو مل جاتی۔ ملزم کے بیان کے مطابق وہ پہلے ٹاس کرتا اور پھر گولی مارتا۔ یہ تو بدترین دہشت گردی ہے۔ یہ ہزار قتلوں سے بڑھ کر قتل ہے۔
30 سالہ ملزم ارمغان کو گرفتار کرنے پولیس اس کی رہائش گاہ پر جاتی ہے تو ارمغان اور اس کے 40 گارڈز نے چار گھنٹے تک پولیس سے مقابلہ کیا۔ پولیس پر فائرنگ کی گئی۔ دو پولیس والے اس دوران زخمی ہوئے۔ یعنی یہ بنگلہ ریاست کے اندر ایک ریاست بنا ہوا تھا جو جنگ کے لیے کھڑا ہو گیا۔ یہ تو دہشت گردی بھی نہیں‘ بلکہ ریاست کے خلاف بغاوت ہے۔ ملزم کے دفتر میں بہنے والا خون‘ جلی ہوئی لاش کا ڈی این اے اور مقتول مصطفی کی ماں کے خون کا ڈی این اے میچ کر گیا ہے۔ سبحان اللہ! پیدا کرنے والے نے ماں بیٹے کا رشتہ ایسا بنایا ہے کہ قبر میں جلی پڑی لاش نے لیبارٹری میں دہائیاں دے کر کہا کہ یہ جلا ہوا وجود اسی ماں کا لختِ جگر تھا۔ ماں کے خون نے بول کر اہلِ دنیا کو بتایا کہ یہ اسی کا لختِ جگر ہے۔ ملزم کے دفتر میں خون نے اعلان کرکے کہا کہ یہ لال رنگ کا جو خون ہے اس خاتون کا ہے جس نے اپنے خونِ جگر سے مصطفی کی پرورش کی تھی۔ لوگو! میں نے ملزم کے والد کی پریس کانفرنس بھی دیکھی۔ مذاق اور ہنسی بھی دیکھی۔ میرا دل یہ سب دیکھ کر خون کے آنسو رو دیا۔ آہ! کھربوں پتی پتھر دل ہو گئے ہیں۔ جی ہاں! وہ کھربوں پتی جن کی دولت کا ذریعہ حرام ہے‘ جوا ہے‘ منشیات ہے‘ ہزاروں گھروں کا اجاڑ اور بربادی ہے‘ وہ پتھر دل نہ ہوں تو کیا ہوں؟
30سالہ ملزم ناجائز دھندوں سے ڈیڑھ سال میں کھربوں پتی بن گیا۔ اس کے پیچھے ایک مضبوط مافیا کھڑا ہے‘ جس کا تعلق انٹرنیشنل مافیا سے ہے۔ انڈیا کے ڈیپ ڈان کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ بہرحال! ملکی سلامتی کی خاطر اس کی مکمل اور شفاف جانچ پڑتال ہمارے اداروں کا کام ہے۔ عدل کے ساتھ اس مقدمے کو انجام تک پہنچانا پولیس اور عدلیہ کا کام ہے۔ یاد رہے! جو دنیا سے چلا گیا‘ دنیا میں اس کی فائل بند ہو گئی۔ 23 سالہ نوجوان مصطفی اچھا نوجوان تھا‘ یہ باتیں بھی موجود ہیں۔ اس میں کچھ غلط تھا‘ یہ باتیں بھی موجود ہیں‘ مگر یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ وہ قاتل نہیں بلکہ مقتول تھا۔ وہ ظالم نہیں تھا‘ مظلوم تھا۔ مظلومیت بھی ایسی کہ جو انتہا درجے کی تھی۔ عمر کیا تھی؟ وہ تو محض 23 سال کا تھا جبکہ انتہائی بے بسی اور کسمپرسی کے عالم میں اس کی موت انتہائی مظلومانہ تھی۔ اس مظلومیت کا اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ اس نے موت کو کئی گھنٹے تک قریب سے دیکھا۔ کیا خبر اس آخری سفر میں اس کو کتنی بار توبہ کا موقع ملا ہو۔ اسے کتنی بار کلمہ پڑھنے کا موقع ملا ہو۔ رحمان مولا نے اس کے ساتھ کیا کیا‘ یہ سب اللہ کے علم میں ہے۔ ہم اس کے اعلیٰ درجات کے لیے اللہ کے حضور دعا کرتے ہیں۔ اس کے ماں باپ کے لیے صبر کی دعا کرتے ہیں۔ حکومت سے عرض کرتے ہیں کہ ایسے قتل کے کیسوں کو الگ کر کے دیکھا جائے۔ بیہمانہ قتل‘ دہشت گردی اور بغاوت پر قاتلوں کو سرعام سزا دی جائے جبکہ دیگر جرائم کو الگ کرکے ان کے مجرمین سے نمٹا جائے۔ اس کیس کو دوسرے کیسوں کے ساتھ خلط ملط نہ کیا جائے۔ وگرنہ ہمارا معاشرہ جو پہلے ہی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے‘ گراوٹوں میں گرتا چلا جائے گا۔ اللہ کرے عدل کی راہ میں ہم اس مقتول کی ماں کے درد کو ریاستی ماں کا درد بنا دیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں