اللہ تعالیٰ نے ''غزۂ ہاشم‘‘ کے دنوں کو بدلا‘ جنگ بندی کا معاہدہ ہوا‘ رفح کراسنگ اور جبالبہ سے فلسطینی مظلوم واپس اپنے گھروں کو دوڑے۔ دو‘ تین دنوں میں پانچ لاکھ لوگ اپنے کھنڈر نما گھروں کے باہر تھے۔ سارے غزہ میں رمضان کے پہلے روزے کی سحری بھی کھائی گئی۔ افطاری کا منظر دیدنی تھا۔ لوگوں نے جھنڈیاں لگائیں‘ جن کے پاس خیمے نہ تھے انہوں نے اپنے گھروں کے ملبے کی دیواروں کے ساتھ پرانی چادریں باندھ کر گزارہ کیا۔ دنیا کی مختلف تنظیموں نے افطاری کا ایک نظام بنا رکھا تھا۔ افطاری کا سب سے بڑا پروگرام غزہ شہر کے محلہ ''الشجاعیۃ‘‘ میں منعقد کیا گیا۔ یہاں ایک فلسطینی اپنے گھر کی ٹیڑھی دیوار پر روغن کر رہا تھا۔ اس پر لکھ رہا تھا ''رمضان کریم‘‘۔ الجزیرہ کی ٹیم نے لوگوں کے انٹرویوز کیے تو لوگ اپنے شہدا کو یاد کر رہے تھے مگر صبر کا اظہار کر رہے تھے۔ واپسی پر ان کے چہروں پر خوشی کے جذبات تھے۔ یاد رہے! غزہ شہر میں محلہ الشجاعیۃ وہی محلہ ہے جس میں حضرت محمد کریمﷺ کے جد امجد کی قبر مبارک ہے۔ یہ حضرت ہاشم ہیں‘ جن کی قبر کے ساتھ مدرسہ سید ہاشم ہے۔ اسی طرح قریب ہی ایک مسجد ہے جس کا نام مسجد سید ہاشم ہے۔ ہمارے حضور نبی کریمﷺ ہاشمی قبیلے میں پیدا ہوئے۔ حضور کریمﷺ خود فرماتے ہیں ''مجھے اولادِ آدم علیہ السلام میں بہترین لوگوں کے اندر ایک صدی کے بعد دوسری صدی میں منتقل کیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ مجھے اس صدی میں مبعوث کیا گیا جس میں مَیں اب موجود ہوں‘‘ (صحیح بخاری)۔
اللہ کے رسولﷺ نے مزید فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے (میری بعثت کے لیے) اسماعیل علیہ السلام کا انتخاب فرمایا۔ اولادِ اسماعیل سے کنانہ (قبیلے) کا انتخاب فرمایا اور کنانہ کی اولاد (کے مختلف قبائل سے) قریش کا انتخاب کیا۔ (قریش کے بہت سارے قبائل میں سے) بنو ہاشم کا انتخاب کیا اور بنو ہاشم سے مجھے چن لیا‘‘ (صحیح مسلم)۔
قارئین کرام! بنو ہاشم وہ قبیلہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد کریمﷺ کو پیدا فرمایا۔ یہ قبیلہ دنیا بھر میں عزت وعظمت اور شرافت ورفعت کے لحاظ سے ممتاز مقام کا حامل ہے۔ اس قبیلے کے بانی یا جدِّ امجد حضرت ہاشم ہیں۔ حضرت ہاشم ہمارے حضور حضرت محمدﷺ کے پڑدادا ہیں۔ ویسے تو یمن سے طائف۔ پھر مکہ... اور مکۃ المکرمہ سے یثرب اور غزہ تک تجارتی سلسلہ صدیوں سے جاری تھا مگر سردیوں میں یمن کا سفر اور گرمیوں میں غزہ اور شام کے سفر کی بنیاد حضرت ہاشم نے رکھی تھی۔ حضرت ہاشم نے ہی اس علاقے میں تجارت کو وسعت دی تھی‘ یمن اور شام کے حکمرانوں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اس تجارتی سفر کو مزید پُرامن بنایا تھا۔ جو سہولتیں میسر ہو سکتی تھیں‘ انہیں فراہم کرنے میں مقدور بھر کردار ادا کیا تھا۔ قریش کے مشرکین جب حضور کریمﷺ کو ستا رہے تھے‘ آپﷺ پر ایمان لانے والوں کو ظلم کا نشانہ بنا رہے تھے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے ''سورۃ القریش‘‘ نازل فرمائی اور حضورﷺ کے پڑدادا حضرت ہاشم کے احسانات کو یاد دلایا۔ فرمایا: '' قریش کو (تجارتی سہولتوں) کی فراہمی کی وجہ سے۔ سردی میں (یمن کا گرم روٹ) فراہم کرنے کی وجہ سے اور گرمی میں (شام اور غزہ کا سرد روٹ) فراہم کرنے کی وجہ سے۔ چاہیے تو یہ کہ (ہاشم کے پڑپوتے حضرت محمدﷺ کی دعوتِ توحید کو مان کر یہ لوگ) اس گھر (کعبہ) کے رب کی عبادت کریں۔ وہ رب کہ جس نے ان (قریش سمیت اہلِ مکہ) کو بھوک میں رزق عطا کیا اور (قافلوں کے لٹنے کے) خوف سے( مزید) امن عطا فرمایا‘‘۔
لوگو! ہم آگے بڑھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ حضورﷺ پر نازل ہونے والا قرآن حضورﷺ کے دادا جناب عبدالمطلب کے کردار کو بھی پیش کرتا ہے کہ جب یمن کا بادشاہ ابرہہ بیت اللہ شریف کومنہدم کرنے کے مذموم ارادے سے آیا تو حضرت عبدالمطلب نے کعبے کے غلاف کو پکڑ کر اللہ کے حضور دعا کی۔ اے اللہ! یہ لات منات کی مورتیاں کچھ نہیں کر سکتیں‘ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں‘ اور تجھ سے ہی التجا کرتے ہیں کہ اپنے گھر کو محفوظ فرما۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے قریش کو قرآن مجید کے ذریعے آگاہ فرمایا ''(میرے حبیبﷺ) آپ نے دیکھا نہیں تیرے رب نے ہاتھی والوں کے (لشکر) کے ساتھ کیا کیا۔ ان کی جنگی چال کو نابود نہیں کر دیا؟ ان پر پرندوں کے جھنڈ (بمبار) بنا کر نہیں بھیج دیے جو کھنگر مٹی کی کنکریاں ان پر پھینکتے تھے۔ چنانچہ اللہ نے انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح (ملیا میٹ) کر دیا‘‘۔
قارئین کرام! اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ''سورۃ البلد‘‘ نازل فرمائی۔ اس سے مراد شہرِ مکہ ہے۔ فرمایا: ''میں اس (باعزت و بابرکت) شہر کی قسم کھاتا ہوں۔ (میرے حبیبﷺ!) آپ کے لیے اس شہر میں لڑائی جائز ہونے والی ہے (تب مکہ فتح ہو کر آپ کے ہاتھوں میں ہوگا؛ اگرچہ آج ستایا جا رہا ہے)۔ اور قسم ہے والد (حضرت عبداللہ) کی اور اس (اولاد یعنی محمد کریمﷺ) کی جو اس سے پیدا ہوئی‘‘۔
جی ہاں! حضرت ہاشم‘ حضرت عبدالمطلب اور حضرت عبداللہ کے بارے میں قرآن مجید کی مذکورہ آیات نازل ہوئیں۔ مندرجہ بالا تینوں شخصیات ہاشمی ہیں۔ ان تینوں کی پشتوں میں حضورﷺ منتقل ہوتے ہوئے آخری نبیﷺ کی حیثیت سے دنیا میں تشریف لائے۔ حضرت ہاشم کی قبر غزہ میں ہے۔ حضرت عبدالمطلب کی قبر مکہ مکرمہ میں ہے جبکہ حضرت عبداللہ کی آخری آرام گاہ اور ان کے عظیم فرزند حضور نبی کریمﷺ کا روضہ مبارک مدینہ منورہ میں ہے۔ یعنی مکہ سے غزہ تک جو روٹ اور تجارتی سڑک ہے‘ اس میں بنو ہاشم کی شخصیات آرام فرما ہیں۔ یوں یہ روٹ بنو ہاشم کے حوالے سے امتِ مسلمہ کا ہے اور ''غزۂ ہاشم‘‘ بھی اہلِ فلسطین اور امتِ مسلمہ کا ہے۔ یہ ہے وہ وجہ جس کی بنا پر غزہ کے لوگ غزہ میں قربانیاں دینے کے باوجود اسے چھوڑنے پر تیار نہیں اور غزہ میں آباد ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آفرین اور خراجِ تحسین ہے ان کے لیے جو اس کوشش میں اہلِ غزہ کی مدد کر رہے ہیں۔ قرآن پاک کے الفاظ میں غزہ ایک مبارک قطعہ ارضی ہے۔ (دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل، آیت: 1)
امریکہ کے صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے Riviera of the Middle East کے تحت مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنی آدھے منٹ کی ایک وڈیو جاری کی ہے۔ میں نے اس وڈیو کو دیکھا ہے۔ اچانک ایک بڑا سا گیٹ سامنے آتا ہے اس پر انگریزی میں ''ٹرمپ غزہ‘‘ لکھا ہوا ہے۔ آگے بڑے بڑے شاپنگ مال‘ بازار‘ بڑی بڑی شاہراہیں ہیں‘ جن پر گاڑیاں دوڑ رہی ہیں۔ شہر میں ٹرمپ صاحب کا ایک بہت بڑا سنہری مجسمہ نصب ہے۔ اسی طرح ان کا سنہری سر غزہ کی فضائوں میں محو پرواز ہے۔ یہاں جوا خانے دکھائے گئے ہیں‘ نیم برہنہ خواتین کا رقص بھی دکھایا گیا ہے‘ غزہ کا ساحل بھی آباد اور رنگینیاں لیے ہوئے ہے۔ ایلون مسک اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی صدر ٹرمپ کے ساتھ دکھائے گئے ہیں۔ جی ہاں! پروگرام یہ ہے کہ غزہ کے ملبے کو صاف کرکے اربوں کھربوں ڈالر لگا کر یہاں عالمی تجارت کا مرکز ایک اہم شہر بنا دیا جائے۔ اسے مشرق وسطیٰ کا مرکزی شہر بنا دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ غزہ کا اسلامی پس منظر کیا اہلِ غزہ بھول جائیں گے؟ تاریخ کیا تبدیل کردی جائے گی؟ امتِ مسلمہ اس پر کیسے راضی ہو گی؟ انسانیت اس کو کس طرح تسلیم کر پائے گی؟ اس طرح تو دنیا میں ایک نئی مثال جنم لے گی کہ کسی شہری آبادی کو طاقتور بمباری کر کے تباہ کر دے‘ اسے کھنڈر بنا دے اور پھر مظلوم خون پر تجارت کا شہر بسا دیا جائے۔ اگر ایسی مثال قائم ہو گئی تو میں ڈر رہا ہوں کہ نجانے پھر کہاں کہاں طاقتور کیا کیا ظلم ڈھائے گا۔