اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول حضور نبی کریمﷺ کے لیے دنیاوی زمین پر جس آخری ٹھکانے کو پسند فرمایا‘ تقدیر کی لوح میں اس کا نام مدینہ منورہ اور طابہ تھا۔ تب کے زمانے میں اس کا نام یثرب چل رہا تھا۔ یثرب کے معنی سرزنش‘ سزا‘ مصیبت‘ بلا‘ تباہی اور بربادی کے ہیں۔ یہاں کے دو قبیلے مشہور تھے۔ اوس اور خزرج۔ یہ باہم لڑتے رہتے تھے۔ یہ دونوں عرب قبیلے تھے۔ ان کے علاوہ یہاں یہود کے تین قبیلے بھی آباد تھے۔ ان کے نام بنو نضیر‘ بنو قینقاع اور بنو قریظہ تھے۔ یہ مالدار لوگ تھے‘ جو تجارت پیشہ تھے‘ یہ کھیتی باڑی بھی کرتے تھے۔ یہ سود خور تھے اور سونے کا کاروبار بھی ان کے پاس تھا۔ مارکیٹ کے نرخوں پر ان کا راج تھا۔ باہم لڑنے والے دونوں عرب قبیلوں کو لڑانے میں بھی ان کا ہی مرکزی کردار تھا۔ چنانچہ دونوں عرب قبیلوں کو باہمی لڑائی مفلس کر دیتی تو وہ یہودی سرمایہ داروں سے ہی قرض پر اسلحہ اور اناج حاصل کرتے تھے‘ اور پھر سودی قسطوں کو اتارتے رہتے تھے۔ ویسے یہ یہودی لوگ کبھی کبھار آپس میں بھی لڑ پڑتے تھے۔ لڑائی میں ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کے لوگوں کو قیدی بنا لیتا تو پھر رقم لے کر ہی ان قیدیوں کو رہائی دیتا تھا۔ پیسے لے کر رہا کرتے وقت وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ہم تورات کے حکم پر عمل کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ''سورۃ البقرہ‘‘ میں ان لوگوں کے اس طرزِ عمل پر ناراضی کا کچھ اس طرح اظہار فرمایا کہ فدیہ لیتے ہوئے تم لوگوں کو تورات یاد آ گئی مگر یہ یاد نہ آیا کہ آپس میں لڑنا اور قیدی بنانا تو اللہ کے ہاں ممنوع ہے۔ یعنی پہلے ممنوع کام کا ارتکاب کر لیا اور پھر رقم لینے کے لیے تورات یاد آ گئی۔ جی ہاں! کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں کا اپنا کردار باہم بھی اچھا نہ تھا جبکہ دوسری جانب عرب قبیلوں کو بھی خوب لڑا کر رکھتے تھے۔ یوں یثرب تباہی اور بربادی کا شکار تھا۔
عربی زبان میں یثرب کا لفظ ''مضارع‘‘ ہے۔ ''مضارع‘‘ میں حال اور مستقبل‘ دو زمانے پائے جاتے ہیں۔ یعنی تب کے یثرب کا حال بھی برباد کن تھا جبکہ مستقبل کے لیے بھی امن کی روشنی کا کہیں کوئی سراغ نہ تھا۔ امکان پیدا ہوا تو حضور نبی کریمﷺ کے یہاں تشریف لانے سے ذرا پہلے پیدا ہوا مگر بربادیوں کے آثار باقی تھے اور جاری تھے۔ انتقام کی آگ بجھی نہ تھی‘ اس کے شعلے کسی وقت بھی بھانبڑ بن سکتے تھے۔ بربادی کے مستقبل کو بریک لگ جائے‘ حال خوشحال ہو جائے اس کا سماں اور موسم اُس وقت بنا جب اوس اور خزرج مسلمان ہو گئے۔ وہ مکہ میں حضور نبی کریمﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور دعوت دی کہ آپ ہمارے راہبر بن کر ہمارے ہاں تشریف لائیں۔ آپﷺ ہماری آنکھوں کا نور‘ دلوں کا سرور‘ دماغوں کا سکون اور سروں کا تاج ہوں گے۔ یوں حضور کریمﷺ یہاں تشریف لائے تو یثرب کا نام اختتام پذیر ہوا اور نیا نام مدینہ منورہ بن گیا۔ یثرب ''مدینۃ الرسولﷺ‘‘ بن گیا تو زبانوں پر ''مدینۃ النبی‘‘ بھی جاری ہو جاتا۔ میں نے عربی لغت کھولی تو مدینہ کا معنی یوں سامنے آیا کہ جہاں محبت ملے‘ الفت ملے‘ پیار اور اخلاق ملے‘ اسے مدینہ کہتے ہیں۔
اسی لفظ سے انسان کی سرشت اور فطرت طے پائی تھی کہ انسان بنیادی طور پر ''مدنی الطبع‘‘ ہے‘ یعنی وہ انسانوں کے ساتھ گھل مل کر رہتا ہے۔ محبت اور پیار سے رہنا اس کی فطرت ہے۔ جس کی فطرت یہ نہ ہو وہ حیوان بھی نہیں ہوتا کیونکہ حیوانوں کی ہر قسم بھی اپنی جنس کے ساتھ مل جل کر رہتی ہے۔ یہ حیوانیت سے بھی بدتر کوئی چیز ہے۔ جی ہاں! حضور کریمﷺ اس شہر میں تشریف لائے تو بربادی بھاگ گئی‘ محبت اور رحمت کے سوتے پھوٹ نکلے۔ مدینہ کے ساتھ منورہ کا لفظ لگ گیا یعنی مدینہ امن کی شمع کے ساتھ جگ مگ کرنے لگ گیا۔
مدینہ سے محبت کرنے والے لوگ اپنی بچیوں کے نام ''طیبہ‘‘ اور 'طابہ‘ رکھتے ہیں‘ یعنی حضور نبی کریمﷺ کے مبارک شہر سے اس قدر محبت ہے کہ ماں جب بھی اپنی راج دلاری کو آواز دے تو حضورﷺ کا مدینہ یاد آ جائے۔ باپ جب بھی اپنی رانی کو آواز دے تو رحمتِ دوعالمﷺ کا شہر یاد آ جائے۔ بھائی بہن کو آواز دے تو گڑیا سی بہنا کے نام سے مولا کے حبیبﷺ کا مسکن یاد آ جائے۔ میں کہتا ہوں نظریاتی طور پر میرے دیس پاکستان کی ہر بچی طابہ اور طیبہ ہے۔ رمضان قریب آ رہا ہے۔ یہ بچیاں مدینہ منورہ جا رہی ہیں‘ ہر کلمہ گو طابہ اور طیبہ دنیا بھر سے مدینہ جا رہی ہے۔ مدینہ جانے والی بیٹیو اور بہنو! وہاں جا کر اگر آپ کھانا پکائیں وہ نیچے سے جل جائے۔ یہ کھانا کھایا تو جا سکتا ہے مگر طیب نہیں ہے۔ ہانڈی میں سبزی اچھی طرح دھو کر نہ ڈالی جائے‘ کھاتے ہوئے منہ میں مٹی اور ریت کی ''کرچ کرچ‘‘ محسوس ہو تو اسے کھایا تو جا سکتا ہے مگر یہ طیب نہیں ہے؛ یعنی یہ حلال تو ہے مگر عمدہ اور نفیس کھانا نہیں ہے۔ طابہ اور طیبہ کے الفاظ ''طیب‘‘ سے نکلے ہیں۔ اس کے معنی پاکیزہ اور عمدہ کے ہیں۔ حضور کریمﷺ نے فرمایا ''یہ شہر طابہ (یعنی پاکیزہ اور نفیس) ہے‘‘ (صحیح بخاری: 1872)۔ مزید فرمایا ''اللہ عزوجل نے مدینہ منورہ کا نام طابہ رکھا ہے‘‘ (صحیح مسلم: 3357)۔ یہ بھی فرمایا: ''یہ طیبہ ہے‘یعنی مدینہ‘ اور یہ مدینہ میل کچیل کو اس طرح دور کرتا ہے جیسے کہ چاندی کے میل کو آگ دور کرتی ہے‘‘ (صحیح مسلم: 3356)۔
قارئین کرام! طیبہ اور طابہ کا اردو اور فارسی میں ترجمہ پاکستان ہے۔ یاد رکھنا! پاکستان کی ہانڈی میں قوم پرستی کی مٹی پڑتی رہی‘ مذہبی دہشت گردی کی ریت جاتی رہی تو منہ کا ذائقہ بھی خراب رہے گا‘ پیٹ بھی خراب ہو جائے گا‘ گردوں میں پتھریاں بھی پیدا ہوں گی‘ مثانے میں بھی پتھریاں پیدا ہوں گی۔ پھر آپریشن ہوں گے‘ خون بہے گا‘ لہٰذا پاکستان کو طیبہ اور طابہ بنانا ضروری ہے۔ ہماری اخلاقی حالت اس قدر گر گئی ہے کہ ایئرپورٹ کا مافیا حرمین شریفین جانے والوں کے بیگ میں منشیات رکھ دیتا ہے۔ حرمین شریفین جانے والا خاندان مکہ‘ مدینہ کی پاک سرزمین پر گرفتار ہو جاتا ہے۔ لاہور ایئرپورٹ اور مدینہ ایئرپورٹ پر لگے کیمرے دیکھ کر پتا چل جاتا ہے کہ مدینہ جانے والا خاندان معصوم اور بے گناہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پلید اور گندا مافیا گرفتار کرکے سامنے کیوں نہ لایا گیا۔ ہمارا نظام اسے سزا دینے کے قابل نہیں تو اس مافیا کو سعودی عرب کے حوالے کر دیا جاتا‘ وہاں ان کی گردنیں اترتیں تو میرے پاکستان کی بدنامی آئندہ کے لیے کسی حد تک تو کم ہوتی۔ آخر یہ گند کب ختم ہو گا کہ پاک دیس طیب اور پاکیزہ ہو کر مدینہ منورہ کی راہ پر چلتا ہوا نظر آئے؟
حضور نبی کریمﷺ نے مدینہ منورہ کے یہود کو پورے پورے حقوق عطا فرمائے مگر وہ باہر کی طاقتوں سے مل کر مدینہ میں کبھی قوم پرستی کے فتنوں کو ہوا دیتے‘ کبھی اہلِ مدینہ کو پہلے کی طرح باہم لڑانے کی کوشش کرتے‘ کبھی لاء اینڈ آرڈر کو چیلنج کرتے۔ حضور کریمﷺ کو شہید کرنے کے منصوبے بنا کر دہشت گردی کا ارتکاب کرتے بھی رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ آخرکار! حضورﷺ نے امن کی خاطر آپریشن کیے اور ان سب کو اکھاڑ پھینکا مگر یہ ایسے شفاف آپریشن تھے کہ محبانِ مدینہ کو آنچ نہ آنے دی۔ آئیے! رمضان المبارک کے مہینے کی آمد کے استقبال میں عزم کریں کہ ہمارے وطن عزیز میں ہر قسم کے مافیاز کے خلاف آپریشن شفاف اور کامران ہوں۔ محبت اور الفتوں کے نغمے ہمارے کانوں میں رس گھولنے لگ جائیں۔ دیس کے محافظوں کا خون سلامت رہے۔ جو پاکیزہ قطرے ہم اہلِ پاکستان کی سلامتی کی خاطر ارضِ پاک پر گرے ان قطروں کو سلام! کہ وہ ہمیں سلامتی دے گئے اور اگلے جہان میں کستوری کی خوشبو بن گئے۔ ہم سب کا پاک وطن زندہ باد۔