"AHC" (space) message & send to 7575

رمضان‘ حیدرِ کرارؓ اور پاکستان

اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا مہینہ رخصت ہوا چاہتا ہے۔ آج اس مبارک مہینے کا آخری جمعۃ المبارک ہے۔ اسے '' جمعۃ الوداع‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہر سال رمضان آتا رہے گا‘ جمعۃ الوداع بھی آتا رہے گا‘ آخر کو وہ جمعہ آ جائے گا جس دن قیامت آئے گی۔ حضور نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ قیامت جمعہ کے دن ہو گی (صحیح مسلم)۔ یوں جمعہ آخری اور قیامت کا دن ہوگا۔ مسئلہ ہم انسانوں کا ہے کہ جو لاکھوں لوگ اگلے رمضان کے آخری جمعہ سے پہلے فوت ہو جائیں گے۔ان کا یہ جمعہ ''الوداعی جمعہ‘‘ ہے۔ ہر مسلمان اور مومن کو چاہیے کہ اس الوداعی جمعہ کو اپنی زندگی کا آخری جمعہ سمجھ کر ادا کرے۔
ہر سال رمضان المبارک حضرت حیدر کرارؓ کی یادوں کو دلوں میں تازہ ضرور کرتا ہے۔ مکہ کے بُت پرست مشرکین اور مدینہ منورہ کے اہلِ توحید مؤمنین کے مابین جو پہلا معرکہ ہوا‘ وہ بدر کے میدان میں رمضان کی 17 تاریخ کو ہوا۔ جنگ کا آغاز اس زمانے کے جنگی اصول ''مبارزت‘‘ سے ہوا۔ مسلمانوں کی طرف سے حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہؓسامنے آئے۔ حضرت عبیدہؓ حضورﷺ کے سگے چچا حضرت حارث کے بیٹے تھے۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے جھٹ پٹ اپنے مد مقابل عتبہ اور شیبہ کو قتل کر دیا۔ حضرت عبیدہؓ نے تھوڑے مقابلے کے بعد ولید بن عتبہ کو قتل کردیا۔ حضور اکرمﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جنگ کے بعد تین دن جنگ کے میدان میں قیام فرما کر معاملات نمٹاتے تھے۔ اس لحاظ سے اللہ کے رسولﷺ 21 رمضان کو مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔ لوگو! اب خارجی فتنہ کے علمبرداروں کی ذہنیت ملاحظہ ہو کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ حضرت علی حیدر کرارؓ پر حملہ 17رمضان المبارک کو کیا جائے۔ چنانچہ حضرت حیدر کرارؓ پر ملعون عبدالرحمان بن ملجم مرادی مصری نے 17رمضان کو کوفہ کی جامع مسجد میں حملہ کیا۔ حضرت علیؓ پر حملہ صرف بت پرست مشترکین ہی کو خوش کر سکتا ہے۔ یہ ہے خارجی فتنے کی سوچ اور فکر کا زاویہ جسے آج کے حالات میں بھی ہمیں سامنے رکھنا ہوگا کہ کلمہ پڑھنے والے مسلمانوں پر جب خارجی ذہن کے حامل لوگ حملہ کرتے ہیں تو ہمارے پڑوس میں بت پرست کس قدر خوش ہوتے ہیں۔ جی ہاں! اللہ کے رسولﷺ نے حضرت حیدر کرارؓ کی شہادت کے بارے میں پیش گوئی فرما دی تھی۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے صادق و مصدوقﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ''(اے علیؓ!) تم پر اس جگہ وار کیا جائے گا۔ آپﷺ نے (حضرت علیؓ کی) کنپٹی کی جانب اشارہ کیا۔(اور فرمایا) یہاں سے بہنے والا خون اس قدر بہے گا کہ تمہاری داڑھی خون سے سرخ ہو جائے گی۔ حملہ آور اسی طرح کا بدبخت ترین ہوگا جس طرح کا وہ شخص بدبخت ترین تھا جس نے (اللہ کی معجزانہ) اونٹنی کی ٹانگ کو کاٹا تھا‘‘۔ (خصائص امیر المومنین علی ابن ابی طالبؓ)۔ کتاب کے محقق عالم دین مولانا احمد میرین بلوچی نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ مزید براں! امام نسائیؒ کی مندرجہ بالا حدیث کو مختلف الفاظ سے شیخ ناصر الدین البانیؒ ''سلسلہ صحیحہ‘‘ میں بھی لائے ہیں۔ اس میں الفاظ اس طرح ہیں کہ پہلی قوموں میں سب سے بڑا سخت دل بدبخت وہ تھا جس نے حضرت صالح علیہ السلام کی معجزانہ اونٹنی کو قتل کیا جبکہ (میرے بعد) آخری انسانیت میں سب سے بڑا سخت دل بدبخت وہ ہوگا جو اے علیؓ! تجھ پر حملہ کرے گا اور تیری داڑھی کو خون سے رنگ دے گا‘‘۔ حضرت علی المرتضیٰؓ اپنے پر ہونے والے حملے کے تین دن بعد اپنے اللہ کے پاس چلے گئے۔ حضور کریمﷺ 21 رمضان کو بدر سے مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوئے تو حضرت علی المرتضیٰؓ کا اخروی سفر بھی سرکارِ مدینہ کے پاس فردوس میں پہنچنے کا 17 رمضان کو شروع ہوا اور 21 رمضان کو اختتام پذیر ہوا۔ مؤنین اور مسلمین رمضان کی 21 تاریخ کو رنجیدہ اور غمناک ہوتے ہیں تو عبدالرحمان ابن ملجم خارجی اور شقی کے پیروکار دل ہی دل میں خوش ہوتے ہیں۔ پھٹکار ایسی خوشی پر۔
پاکستان 27 رمضان المبارک کی رات کو وجود میں آیا۔ یہ رات اگر ''قدر والی رات‘‘ تھی تو پاکستان ''لیلۃ القدر‘‘ کو وجود میں آیا۔ اس بار 23 مارچ کا دن بھی رمضان المبارک میں آیا۔ یہ وہ دن ہے جب منٹو پارک (موجودہ گریٹر اقبال پارک) میں سارے برصغیر سے مسلمان آئے‘ حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں یہاں جلسہ ہوا جس میں چار قراردادیں پیش کی گئیں۔ پہلی قرارداد حصولِ پاکستان کا مطالبہ تھا جبکہ دوسری قرارداد آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ تھا۔ جس سے مطالبہ کیا گیا وہ برطانوی حکومت تھی جو تب دنیا کی سپر پاور تھی اور ہندوستان پر وہی قابض تھی اور مشرق وسطیٰ پر بھی اس کا قبضہ تھا۔ یہ قرارداد 1940ء میں پیش کی گئی۔ آٹھ سالوں سے حضرت قائداعظم ہندوستان بھر میں تحریک پاکستان اور تحریک فلسطین چلائے ہوئے تھے۔ 23 مارچ 1940ء کا دن متواتر گردش کرتے ہوئے آج 2025ء کے رمضان المبارک میں آ گیا۔ اس دن ایوانِ صدر میں تقریب ہوتی ہے۔ تقریب میں صدر‘ وزیراعظم اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان شریک ہوتے ہیں۔ فوجی پریڈ اور اسلحہ کی نمائش ہوتی ہے۔ پاک فضائیہ کے طیارے سلامی دیتے ہیں۔ اپنی مہارتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یوں پاک وطن کے ہر دشمن کو پیغام دیا جاتا ہے کہ کلمہ طیبہ کی اساس پر بننے والا ملک اہلِ پاکستان کے ہاتھوں میں مصورِ پاکستان اور بانیٔ پاکستان کی امانت ہے۔ اس امانت کو ہم نے اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے۔ ہر دور کی پاک نسل پاک وطن کی حفاظت کیلئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرے گی‘ ان شاء اللہ۔
دنیا بھر میں لوگ اپنے بچوں کا نام ''محمد‘‘ بھی رکھتے ہیں اور ''علی‘‘ بھی رکھتے ہیں۔ برصغیر میں دونوں ناموں کو ملا کر اپنے بچوں کا نام ''محمد علی‘‘ یا ''علی محمد‘‘ بھی رکھا جاتا ہے۔ میں نے مزید تحقیق کی تو اس نتیجے پر پہنچا کہ پاکستان میں سب سے بڑھ کر ''محمد علی‘‘ اور ''علی محمد‘‘ نام رکھا جاتا ہے۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اہلِ پاکستان اس نام سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ اس محبت کی وجہ نظریاتی طور پر یہ ہے کہ اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ جب آٹھ سال کے تھے اور یتیم پوتے کی پرورش کرنے والے دادا جناب عبدالمطلب وفات پا گئے تو جناب ابو طالب اور ان کی اہلیہ فاطمہ بنت اسد بنت ہاشم کے ہاں حضور کریمﷺ نے سترہ سال گزارے۔ جب جناب ابو طالب نے حضورﷺ کی شادی حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ سے کر دی تو حضرت علی المرتضیٰؓ کو حضورﷺ نے اپنی تربیت اور پرورش میں لے لیا۔ قارئین کرام! مجھے نکتہ یہ سمجھ آیا ہے کہ حضورﷺ کی مبارک زندگی کے سترہ سالوں کو دیکھا جائے تو نام ''علی محمد‘‘ بنتا ہے اور جب حضورﷺ کی مبارک زندگی کا آخری دور شروع ہوا تو اب یہ نام ''محمد علی‘‘ ہو گیا کیونکہ اب حضرت علیؓ حضور نبی کریمﷺ کے گھر میں تربیت اور پرورش پا رہے تھے۔ یہ تشریح اس لیے قابلِ غور ہے کہ حضورﷺ کی زندگی دورِ جاہلیت کی تمام آلائشوں سے پاک تھی اور حضرت علی المرتضیٰؓ بھی وہ ہستی ہیں کہ جن کی زندگی تمام جاہلی آلائشوں سے پاک رہی۔ جی ہاں! بتانا یہ چاہتا ہوں کہ پاکستان جس شخصیت کے ہاتھوں بنا اس کا نام حضرت رسول کریمﷺ اور حضرت حیدرکرّارؓ کے ناموں پر ''محمد علی‘‘ ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ سے اللہ خوش ہوں‘ آمین!23 مارچ کے دن تمغے بھی دیے گئے۔ یہ سول تمغے تھے۔ تینوں مسلح افواج میں بہادری کا سب سے بڑا تمغہ ''نشانِ حیدر‘‘ ہے۔ میں نے تحقیق کی تو تمام مسلم ممالک میں صرف پاکستان ایسا ملک ہے جس کا سب سے بڑا تمغہ حضرت علیؓ سے منسوب ہے۔ یہ تمغہ اس نام پر ہے جو نام حضور نبی کریمﷺ کی چچی‘ حضرت فاطمہؓ بنت اسد نے رکھا تھا۔ اسی لیے خیبر میں حضرت علیؓ نے مرحب کے سامنے اپنا تعارف کرایا تو فرمایا کہ میری ماں نے میرا نام حیدر (شیر) رکھا ہے۔ رسول کریمﷺ اور حضرت علی المرتضیٰؓ کو پالنے والی ماں ایک ہی ہے۔ دونوں ہستیاں زندگی بھر ایک ہو کر رہیں۔ آئیے! ہم اہلِ پاکستان بھی ایک ہو کر رہیں اور اسی حالت میں دنیا سے جائیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں