"AHC" (space) message & send to 7575

ہرزل سے ٹرمپ اور حماس تک

اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں ایک سورت نازل فرمائی جس کا نام اپنے ایسے صفاتی نام پر رکھا جو تمام صفاتی ناموں کا سردار ہے۔ یہ نام ''الرحمن‘‘ ہے۔ اسی نام سے منسوب سورت کی پہلی آیت اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ''الرحمن‘‘ ہی ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑی حقیقت کا انکشاف فرمایا ہے۔ فرمایا: ''کل یوم ھو فی شان‘‘ (ترجمہ) وہ اللہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔ یہ وہ شان ہے جس کی جمع ''شئون‘‘ ہے یعنی احکامات‘ فیصلے اور معاملات۔ ہمارا دن 24 گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے مگر اللہ کا دن‘ جو مخلوق کے معاملات سے متعلق ہے‘ وقت کا وہ آخری حصہ ہے کہ جہاں پر اس حصے سے آگے ٹائم کا اختتام ہو جائے‘ کیونکہ عربی زبان میں ٹائم کے چھوٹے سے چھوٹے یونٹ کو بھی ''یوم‘‘ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک سیکنڈ کا وہ آخری ارب یا کھربواں حصہ کہ جس کے بعد وقت بدل جائے‘ وہ اللہ کا دن ہے۔ ہر اس دن میں اللہ تعالیٰ ایک نئی شان یعنی نئے سے نئے معاملات کے فیصلے صادر فرماتا ہے۔ معاملات بدلتے ہیں‘ زمین کے جغرافیے بدلتے ہیں‘ قوموں کے ادوار بدلتے ہیں‘ کچھ اقوام زوال پذیر ہوتی ہیں اور کچھ ابھر کر دنیا کی سیادت کے سٹیج پر آ جاتی ہیں۔
19ویں صدی عیسوی کا آغاز اور پھر آخری بیس سال اور بیسویں صدی کے پہلے دس سال بول بول کر اور چیخ چیخ کر اہلِ دانش کو بتا رہے تھے کہ دنیا میں روایتی شاہانہ حکمرانی کا زمانہ ختم ہونے والا ہے‘ جمہوری دور اس کی جگہ لینے والا ہے۔ زندگی اپنی روایتی ڈگر سے ہٹنے والی ہے‘ وہ جدید زمانے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے لہٰذا جو قوم ان دو نئی حقیقتوں کو نہیں سمجھے گی وہ کچلی اور مسلی جائے گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح بھگدڑ میں کمزور لوگ گر کر پیروں تلے مَسلے اور کچلے جاتے ہیں۔ کچھ مر بھی جاتے ہیں‘ کچھ ہڈیاں تڑوا بیٹھتے ہیں۔ جو بچ نکلتے ہیں وہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ کی بھگدڑ سے پہلے مسلمانوں کے پاس وقت کم رہ گیا تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ انیسویں صدی کے آغاز میں ہی سلطنت عثمانیہ وقت کے تقاضوں کو سمجھ کر جمہوری دور کی داغ بیل ڈال دیتی اور اپنے آپ کو آئینی حکمرانی تک محدود کر لیتی۔ اس سے قبل برصغیر کے مغل شاہان اور ایران کے صفوی شاہان بھی اس حقیقت کو سمجھ لیتے۔ ان تینوں کے پاس نہ سائنس اور ٹیکنالوجی تھی اور نہ ہی انتقالِ اقتدار کے لیے کوئی قابلِ عمل اور پُرامن لائحہ عمل۔ یہ روایت پرستی پر اڑے رہے اور تینوں ہی مسلے اور کچلے گئے۔ آخرکار یہ تینوں مسلم ایمپائرز مغربی قوتوں کے آنگن میں جا گریں۔ گرنے سے ذرا پہلے دنیا کی ایک چھوٹی سی اقلیتی قوم‘ جو دو ہزار سالوں سے روئے زمین پر ماری ماری پھر رہی تھی‘ ذلت و مسکت کا شکار تھی‘ یورپ کے لوگوں نے اس قوم کو اپنے شہروں اور بستیوں سے نکال کر مضافاتی مقامات پر گھیٹوز (Ghettos) میں رہنے پر مجبور کر دیا تھا جہاں تنگ گلیاں‘ کوڑا کرکٹ‘ غربت و بے بسی اور لاچارگی کا راج تھا۔ ان کے چند امرا شہروں میں تھے‘ جو اپنی قوم کا خیال کرتے تھے۔ ساتھ ساتھ وہ حکمرانوں سے بنا کر رکھتے تھے۔ یورپ کے حکمران اور مذہبی اشرافیہ اس سوچ بچار میں تھے کہ یہودیوں سے ہم بڑے پریشان ہیں‘ ان کو یورپ سے باہر کہیں منتقل کر دیا جائے۔ انہی دنوں ہنگری میں 2 مئی 1860ء کو ایک بچہ پیدا ہوا‘ یہودی خاندان نے اس کا نام ''تھیوڈور ہرزل‘‘ (Theodor Herzl) رکھا۔ وہ اپنی قوم کی یہ حالت دیکھتے ہوئے جوانی کو پہنچا۔ خود وہ صحافی‘ قانون دان‘ مصنف اور سیاستدان بن چکا تھا مگر اس نے حالات کا جائزہ لیا تو سوچا کہ کیوں نہ اپنی قوم کے لیے اسرائیل کے نام سے ایک علیحدہ ملک قائم کیا جائے اور اس فلسطینی زمین کو اپنا وطن بنایا جائے جہاں سے دو ہزار سال پہلے ہمیں نکال دیا گیا تھا۔ اس نے اپنے اس نظریے کی اشاعت شروع کر دی۔ یورپ‘ خاص طور پر برطانیہ جو سپر پاور تھا‘ وہاں کی حکومت کو سمجھایا کہ اگر تم نے ہمیں نکالنا ہی ہے تو ہمیں فلسطین لے کر دے دو۔ اس پر یورپ کی ترقی یافتہ دنیا کِھل اٹھی کہ ٹھیک ہے! یہود سے بھی جان چھوٹ جائے گی اور مسلمانوں سے بھی خطرہ ختم ہو جائے گا۔ لہٰذا اس منصوبے پر کام شروع ہو گیا۔
تھیوڈور ہرزل اپنی جدوجہد میں اس قدر مضبوط اور اس قدر یہودی تاجروں کی تجوریوں کا مالک بن چکا تھا کہ اس نے خلافت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید کے پاس حاخام آفندی کو بھیجا جس نے سلطان سے ملاقات کی اور کہا کہ آپ فلسطین میں ہماری ریاست کے لیے جگہ دے دیں‘ آپ کی مقروض سلطنت کا سارا قرضہ ہم اتار دیتے ہیں اور اس قرضے سے بڑھ کر جو چاہیں‘ وہ بھی دے دیتے ہیں۔ سلطان نے جواب دیا: ایسا صرف ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہو سکتا ہے۔ تھیوڈور ہرزل نے یہ جواب پا کر سلطان کو پیغام بھیجا: اب اپنی سلطنت بچانے کی فکر کرو۔ 1904ء میں 44 سال کی عمر میں ہرزل جنیوا میں وفات پا گیا۔
قارئین کرام! اگلے 44 سالوں کی تاریخ کو چند سطروں میں قلمبند کروں تو وہ اس طرح ہے کہ یہ دنیا بھر کے لیے تباہی اور جنگوں کا زمانہ تھا۔ جنگیں شروع ہو گئیں۔ عالمی جنگ اول اور پھر عالمی جنگ دوم۔ 1948ء میں اسرائیل کے نام سے وہیں فلسطین میں ایک ملک وجود میں آ گیا مگر اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوتے ہی مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان جنگیں شروع ہو گئیں۔ مسلمان تعداد میں زیادہ اور یہودی انتہائی کم تھے مگر برطانیہ انہیں اسلحہ کی خفیہ فیکٹریاں بنا کر دے گیا تھا۔ جدید اسلحہ کی یورپ و امریکہ سے مدد آ رہی تھی لہٰذا ایک سالہ جنگ کا رزلٹ یہ نکلا کہ سات لاکھ فلسطینی مسلمان گھر بار سے محروم ہو کر مغربی کنارے‘ غزہ اور اردن میں مہاجر بن گئے۔ وہاں سے کچھ نکل کر دنیا کے مختلف ملکوں خصوصاً لاطینی امریکہ کے ملکوں تک مہاجر بنے۔ 1949ء میں خانہ جنگی ختم ہوئی تو اسرائیل نے تھیوڈور ہرزل کی باقیات کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا کی قبر سے نکالا اور ہرزل نامی پہاڑ پر یروشلم میں دفن کرکے وہاں ایک مقبرہ بنا دیا۔ اب یہ ان کا بابائے قوم ہے۔ 1949ء سے 6 اکتوبر 2023ء تک اہلِ فلسطین کی خاطر عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں۔ ایک جنگ کے سوا تمام میں اسرائیل مزید علاقے حاصل کرتا گیا۔ باقی یاسر عرفات کی پی ایل او نے جو متواتر جدوجہد کی‘ عسکری لڑائیاں کیں وہ ایک الگ تاریخ ہے۔ معاہدے ہوتے اور ٹوٹتے رہے‘ وہ اسرائیلی بدعہدی کی ایک الگ داستان ہے۔
یہ جنگ جو کم از کم گزشتہ ایک صدی سے جاری ہے‘ اس کا ٹرننگ پوائنٹ اس وقت آیا‘ تاریخ کا دھارا اس وقت بدلا جب 7 اکتوبر 2023ء کو حماس نے اپنے دیرینہ اور طاقتور دشمن پر حملہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی جنگ 15 مہینے جاری رہی۔ غزہ کھنڈر بن گیا۔ ظلم کی داستان کا اک خونیں باب اہلِ دنیا نے دیکھا۔ اسرائیل کی عالمی ہمدردی اور اس کی اخلاقی ساکھ کا جنازہ نکل گیا۔ حماس کے ساتھ اسرائیل کو مذاکرات کرنا پڑے۔ حماس آج بھی قائم ہے اور دنیا اسے اسرائیل کی شکست کا زمانہ قرار دے رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ جنگ بند کرائی ہے مگر اسرائیل اب بھی حملوں سے باز نہیں آ رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے اس جنگ میں مصنوعی دہانت کی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔ جنگی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے جوبائیڈن اس کے پیچھے تھا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ صدر ٹرمپ آئے ہیں تو جناب بھی اسی میدان کے کھرب پتیوں کی کابینہ بنا چکے ہیں۔ میں اگلی جنگوں میں کوانٹم کمپیوٹنگ کے تحت سپر انٹیلی جنس ٹیکنالوجی اور اس کے ساتھ منسلک جنگی ہتھیاروں کا استعمال دیکھ رہا ہوں۔ بہرحال! اہلِ دنیا حماس کی بہادری پر نہیں تو اہلِ غزہ کی استقامت پر حیران ہیں۔ اب پرانا دور بدل گیا ہے۔ مسلم ممالک بھی ٹیکنالوجی کیلئے کوشاں ہیں مگر جس قدر پیچھے ہیں‘ اس خلا کو حماس جیسی دلاوری ہی پُر کر سکتی ہے۔ اہلِ عالم کو اس کا احساس ہو چکا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ امن ہو‘ کامل ہو اور عدل کے ساتھ ہو۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں