"AHC" (space) message & send to 7575

لاس اینجلس اور جبرائیل علیہ السلام

اللہ تعالیٰ کی زمین ہم سب انسانوں کا گھر ہے۔ تمام انسانیت حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام کی اولاد ہے۔ آج کل یہ اولاد زمین پر آٹھ ارب کی تعداد میں موجود ہے۔ امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں انسانوں کی تعداد 38 لاکھ سے زائد ہے‘ اور یہ تمام افراد آج کل ایک شدید آزمائش کا شکار ہیں۔ یہ آزمائش اور ابتلا آگ کے ایک شدید طوفان کی صورت میں ہے۔ جس دن اس طوفان کا آغاز ہوا‘ اس سے دو دن پہلے ہالی وُڈ میں فلمی ستاروں کی ایک تقریب تھی۔ اس تقریب کا جب اختتام ہوا تو تقریب کے میزبان کی جانب سے کہا گیا کہ جس جس کو جو عزت یہاں آکر ملی ہے‘ اس عزت افزائی کے پیچھے کون ہے‘ اس کا شکریہ ادا کریں۔ ہر ایک نے کسی نہ کسی شخص کا شکریہ ادا کیا اور پھر کہا گیا کہ خدا (GOD ) کاکسی نے شکریہ ادا نہیں کیا‘ لہٰذا لاس اینجلس ''بے خدا‘‘ شہر ہے۔ اس پر سب نے خوشی کا اظہار کیا اور گھروں کو چلتے بنے۔ انہیں دو دن کی مہلت ملی مگر اس مہلت سے کسی نے فائدہ نہ اٹھایا۔ جب طوفان کا آغاز ہوا تو آغاز میں یہی لوگ اپنے جلتے محلات سے بھاگے۔ پیچھے آگ کی حدت اور حرارت کی تپش تھی۔ زبان پر اک جملے کی جنبش تھی: ''گاڈ! ہیلپ اَس‘‘۔ خدایا! ہماری مدد فرما۔ یہ جملہ ادا کرتے ہوئے نگاہ آسمان کی جانب اٹھتی تو آسمان سرخ تھا۔ دن کو سورج غائب تھا تو رات کو ستارے غائب تھے۔ آسمان پر آگ کی سرخی تو زمین تپش اور کالے دھویں میں لپٹی ہوئی‘ لوگ اربوں روپے مالیت کے محلات چھوڑ کر بھاگ رہے تھے۔ لگژری گاڑیاں آگ کی نذر ہو کر چٹاخ چٹاخ کی خوفناک آوازوں سے اس طرح پنجر بن رہی تھیں جس طرح سڑک پر پڑے مردار کو جانور کھا جائیں تو ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ جاتا ہے۔ یہی حال ان آرام دہ گھروں‘ فارم ہائوسز اور دیگر پراپرٹیز کا ہو رہا تھا۔
لاس اینجلس ہسپانوی زبان کے دو الفاظ کا مرکب ہے۔ اس کا ایک معنی فرشتوں کا شہر ہے جبکہ دوسرے مفہوم میں اسے ایک فرشتے کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ اس ایک فرشتے سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ ''جبرائیل‘‘ یا ''جبریل‘‘ عبرانی کا لفظ ہے جس کا معنی ''اللہ کی قوت‘‘ کا اظہار ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے وہ سردار ہیں جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے پاس آئے تھے۔ یہی جبریل حضرت محمد کریمﷺ کے پاس تشریف لائے تھے۔ قرآن مجید نے آگاہ فرمایا ''(حضرت جبریل) عرش کے مالک (اللہ تعالیٰ) کے ہاں بڑی قوت والے ہیں۔ فرشتوں میں بلند مقام رکھتے ہیں‘‘ (التکویر: 20)۔ لوگو! تینوں مذاہب کے رسولوں کی دعوت ایک ہی تھی اور وہ اللہ کی توحید تھی۔ اس دعوت کو آج فراموش کر دیا گیا ہے حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب اپنا کام کر کے اس دنیا سے جانے لگے تو نصیحت اور وصیت کرکے گئے‘ فرمایا ''اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے (یعنی ہر صورت عمل کرو گے) تو میں باپ (اللہ تعالیٰ سے) درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار (حضرت محمد کریمﷺ) بخشے گا کہ وہ ابد تک تمہارے ساتھ ہے‘‘ (انجیل یوحنا‘ باب: 14‘ آیات: 14 تا 16)۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام واضح کر گئے کہ وہ جو آخری رسول آئے گا وہ ابد تک رسول رہے گا۔ یعنی وہ خاتم النبیین‘ ختم المرسلین ہوں گے۔ اسی بات کو آخری کتاب قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا ''وہ وقت یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے اعلان کیا: اے بنی اسرائیل میں تمہاری جانب اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں۔ مجھ سے پہلے تورات آئی‘ (میں) اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور ایسے رسول کی خوشخبری دینے آیا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہو گا‘‘ (الصف: 6)۔ ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ حضورﷺ کا نام نامی زمین پر ''محمد‘‘ رکھا گیا جبکہ آسمان اور زمین پر ''احمد‘‘ رکھا گیا۔ یہ نام خود اللہ تعالیٰ نے رکھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے کہلوایا۔ ''احمد‘‘ کا لفظ عربی زبان کی ''سپر لیٹو ڈگری‘‘ کا حامل ہے۔ یہ لفظ فاعل بھی ہے اور مفعول بھی ہے۔ فاعل کا معنی لیں تو اس کا مطلب ہے کہ حضورﷺ دنیا اور آخرت میں سب سے بڑھ کر اللہ کی حمد کرنے والے ہیں۔ مفعول کا معنی لیں تو وہ محمد کا معنی دیتا ہے‘ یعنی محمد اور احمد یہاں ہم معنی ہو جاتے ہیں کہ حضورﷺ کی تعریف اس جہان میں سب سے بڑھ کر ہو گی۔ دونوں ناموں کے اجتماع سے مفہوم یہ سامنے آتا ہے کہ دنیا میں حضورﷺ کی تعریف وتوصیف کے کوئی قریب بھی نہ جا سکے گا۔لاس اینجلس شہر میں چرچ یعنی عیسائیوں کے گرجوں کی تعداد 120 ہے۔ دوسرے نمبر پر یہاں مسلمان ہیں جن کی مساجد کی تعداد 60 ہے۔ تیسرے نمبر پر یہود کے سیناگاگ (Synagogue) کی تعداد 40 ہے۔ چوتھے نمبر پر ہندوئوں کے مندر ہیں جن کی تعداد دس ہے اور سکھوں کے تین گردوارے ہیں۔
لاس اینجلس میں ایک مسجد کا نام ''دارالحکمت‘‘ ہے ویسے اسے سفید مسجد کہا جاتا ہے۔ جس علاقے میں یہ مسجد ہے وہاں مسلمان کم ہیں جبکہ مسیحی‘ یہودی‘ ہندو اور سکھ مجموعی طور پر زیادہ تعداد میں ہیں۔ سفید مسجد کے امام عبدالمالک نے اس وقت لائوڈ سپیکر کھول کر اللہ کے سامنے رو رو کر دعائیں اور التجائیں شروع کر دیں جب آگ کا طوفان ان کے علاقے میں مسجد کے قریب تک آ گیا تھا۔ لوگ اپنے گھروں سے نکل کر مسجد میں آنے لگے۔ آگ بجھانے والا فائر ورکر جیک بھی وہاں موجود تھا۔ سب نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آگ مسجد سے کچھ فاصلے پر ٹھہر گئی اور ساری آبادی بچ گئی۔ ایڈن نامی خاتون نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا۔ جیک نے بھی کلمہ پڑھ لیا۔ اب سینکڑوں‘ ہزاروں لوگ مسجد میں آ جا رہے ہیں۔ بہت سارے اسلام قبول کر رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ لاس اینجلس کے باسیوں کو محفوظ فرمائے۔ اس آزمائش سے انہیں نجات عطا فرمائے۔ ہالی وُڈ کے ایک اداکار نے اہلِ غزہ کے بارے میں انتہائی سنگدلانہ بیان دیا تھا کہ غزہ کو تباہ کیے بغیر نیتن یاہو کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ آج وہی اداکار اپنا گھر جلنے کے بعد ٹی وی پر بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ چند ماہ پہلے اسی شہر میں ہالی وُڈ کے ایک ممتاز اداکار کو آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا تو اس نے پانچ منٹ تک غزہ کی مظلوم بچی کی مظلومیت کو بیان کیا اور غمزدہ آواز کے ساتھ اپنی تقریر کو ختم کیا۔ امریکہ میں اکثریت کے ساتھ اہلِ امریکہ غزہ کے لوگوں کے حق میں ہیں اور انہوں نے ہم اہلِ اسلام سے بڑھ کر احتجاج کیا ہے۔ لہٰذا جو لوگ لاس اینجلس کی آتشزدگی کو ''عذاب‘‘ کہہ رہے ہیں وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں محل نظر ہے۔ درست بات یہ ہے کہ یہ ایک آزمائش‘ ابتلا اور امتحان کا وقت ہے۔ لاس اینجلس کے سارے لوگ جس میں مسیحی‘ مسلم‘ یہودی‘ ہندو‘ سکھ سب شامل ہیں‘ اس امتحان سے دوچار ہیں۔ اب سب کو اپنا اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ فحاشی کے مراکز‘ جوا‘ سود‘ ظلم‘ سب کے ہاں یہ گناہ اور پاپ موجود ہیں۔ یہ توبہ اور اللہ واحد القہار کی جانب رجوع کا وقت ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے جوانی میں جب سیاست کا آغاز کیا اور وہ سینیٹر منتخب ہوئے تو ان کا گھر جل گیا۔ آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آکر ان کی اہلیہ اور بیٹا اگلے جہان چلے گئے۔ جب وہ صدر منتخب ہوئے تو مجھے امید تھی کہ جوانی میں خاندان کے غم سے دوچار ہونے والا جو بائیڈن اب 80 سال کی عمر میں دنیا کو جنگوں کی آگ میں نہیں جلنے دے گا۔ نائب صدر کملا ہیرس جو ایک خاتون اور ایک ماں ہیں اور نرم دلی ہر ماں کی فطرت ہے‘ وہ دنیا کی ہر ماں کے بچے کو اپنا بچہ سمجھیں گی مگر آہ! دونوں نے غزہ کے بائیس لاکھ عورتوں‘ بچوں اور بے گناہ انسانوں کو آگ اگلنے والے بموں کی نذر ہونے دیا۔ اب خود انکے ملک کو آگ کے طوفانوں کا سامنا ہے۔ آنیوالے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا علمبردار سمجھا جا رہا تھا مگر انہوں نے مشرقِ وسطیٰ کو جہنم بنانے کی دھمکی دی۔ اب آگ کے طوفانوں میں اقتدار کی تبدیلی ہونے جا رہی ہے۔ دعا ہے مولا کریم سے کہ اہلِ زمین آگ سے نکل کر گلزار میں داخل ہوں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں